ستر کا عشرہ
حزب مخالف کی بڑی جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ اس پر زوالفقار علی بھٹو نے (سپریم کورٹ کے زریعے) پابندی لگا دی۔ اس چھ رکنی بنچ میں چیف جسٹس حموالرحمان کے ساتھ جسٹس یعقوب علی، جسٹس انوار الحق ( جنہوں نے بعد میں بھٹو کو پھانسی پر پہنچایا) اور جسٹس افضل چیمہ شامل تھے۔ جو بعد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ بن کر جنرل ضیا الحق کے اسلامی قوانین کو عملی جامہ پہناتے رہے۔ بھٹو حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل یحی بختیار پیش ہوئے جو 73 کا آئین بنانے والی کمیٹی میں بھی شامل تھے۔ نیپ کے راہنماوں کی نمائندگی محمود علی قصوری نے کی، جن کے صاحب زادے جنرل مشرف کے وزیرخارجہ رہے۔
نیپ کے خلاف اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے شریف الدین پیرزادہ کو مشیر عدالت مقرر کیا (جنہوں نے ہمیشہ مارشل لگوانے کو جائز قرار دلوایا، جنرلوں کے خدمت گار رہے)۔ شریف الدین پیرزادہ جنرل ایوب کے بھٹو کے بعد وزیرخارجہ بنے تھے۔ جنرل یحی کے دور میں بھی وہ اٹارنی جنرل رہے۔
چیف جسٹس حموالرحمان کو جنرل ایوب نے عدالت عالیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ جنرل یحی کے دور میں بھی چیف جسٹس رہے۔ ان کے ہی دور میں مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی ہوئی، مگر جسٹس حمود الرحمان نے ایک لفظ تک نہ بولا۔ جنرل یحی نے انتخابی نتائج تک منسوخ کردیئے۔ اس وقت بھی جسٹس حمود الرحمان خاموش رہے۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علحیدگی کے بعد جب جنرل یحی کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ تو جسٹس حمود الرحمان نے مشہور اسما جیلانی کیس میں جنرل یحی کے اقتدار پر قبضے کو غیر قانونی قرار دے کر اپنی عزت بحال کرنے کی کوشش کی۔
اور پھر مشرقی پاکستان کے سانحہ پر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ بھی اچھی لکھی۔ لیکن 1975 میں نیب کے خلاف مقدمے میں اخباری خبروں اور جاسوس افسروں کے بیانات کوبھی قابل قبول قرار دے کر ایک غلط مثال قائم کی۔ حمود الرحمان کی سربراہی میں عدالت عظمی نے کہا۔ ' پاکستان صرف ایک قوم پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی قومیتیں نہیں ہیں' (یہ بھٹو کروا رہا تھا)۔ عدالت کے اس فیصلے سے مرکز پسندی کی بو آتی ہے۔ اور ریاست کے لئے انصاف اور سیاست کا تیاپانچہ کیا گیا۔ (اسٹیبلش منٹ نے جسے ہمیشہ سپورٹ کیا ہے)۔ تمام ججوں نے مشترکہ فیصلہ دیا، کہ نیب ایک ملک دشمن جماعت ہے۔۔ (یاد رہے کہ نیب ایک سیکولر نیشنلسٹ بائیں بازو کی جماعت تھی)۔
زوالفقار علی بھٹو نے آئین میں چوتھی ترمیم کے زریعے ہائی کورٹ کے اختیارات کم کردیئے۔ حراست میں رکھنے کا دائرہ بڑھا دیا گیا۔ اب عدالتیں کسی شخص کو حفاظتی ضمانت نہیں دے سکتی تھی، نہ کسی حراست کو روک سکتی تھی۔۔ بھٹو نے ایک صدارتی حکم کے زریعے نیب کے عہدیداروں کو تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ ایک اور حکم کے زریعے خصوصی عدالتیں قائم کی۔ تاکہ " ملک دشمن " سرگرمیوں کےخلاف مقدمات چلائیں جا سکیں۔
مارچ 1976 میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ٹکا خان سبک دوش ہوئے، بھٹو نے سب سے جونئیر لیفٹینٹ جنرل ضیا الحق کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹکا خان نے بھٹو کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ جنرل محمد شریف سب سے سینئر جنرل تھے۔ مگر جنرل ضیا کی طرح بھٹو کی چاپلوسی نہ کرتے تھے۔ پھر چھٹی آئینی ترمیم کے زریعے چیف جسٹس یعقوب علی کو 65 سال کی عمر کے بعد بھی اپنے عہدے پر قائم رکھنے کی اجازت مل گی۔ کیونکہ بھٹو ان کو سپریم کورٹ میں برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
ماخذ : کتاب " پاکستان متبادل تاریخ " مصنف ڈاکٹر ناظر محمود
٭٭اس تاریخ پر رویا جائے یا ماتم کیا جائے۔۔ پچاس سال پہلے جو کچھ ہو رہا تھا۔۔ وہ آج بھی وہی ہو رہا ہے۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...