آئیے آپ کو کچھ چہروں سے ملواؤں۔
یہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے بانی کی ہمشیرہ ہے۔ جدوجہد آزادی میں بھائی کی ہمقدم، ہم نفس اور ہم نوا۔ آزادی کے بعد اور قائد کے رخصت ہونے کے بعد جمہوریت کا سب سے بڑا استعارہ ، جس نے اپنے وقت کے آمر سے ٹکر لی۔ جی ہاں یہ ہیں محترمہ فاطمہ جناح، مادر ملت جنوں نے ایوب خان کے مقابل انتخاب لڑا۔
اور یہ ہے دختر مشرق بے نظیر بھٹو، آمروں سے ٹکرانے والی، شہید بی بی، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم
اس بچی کا نام ملالہ یوسف زئی ہے۔ مزاحمت اور عزم وہمت کا استعارہ ۔ نوبل انعام حاصل کرنے والی کم عمر ترین ہستی
اور یہ بلقیس ایدھی ہے۔ عظیم اور فرشتہ صفت عبدالستار ایدھی کی شریک حیات، جس نے اپنی زندگی مخلوق کی خدمت کے لیے تج دی۔
عاصمہ جہانگیر کو تو آپ جانتے ہی ہونگے۔ جرات اور عزیمت کا پیکر۔ اپنے موقف پر ڈٹ جانے والی، جمہوریت اور شہری اور انسانی حقوق اورقانون و آئین کی پاسداری کی علمبردار۔
یہ فہمیدہ مرزا ہے، قومی اسمبلی کی اسپیکر۔ ایک اور ہے شہلا رضا یہ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر ہے۔
یہ ملک کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے، اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی سربراہ ، شمشاد اختر ہیں۔
یا اعلا عدالتوں کی منصفہ نورجہاں پانیزئی ہیں اور یہ دوسری شاعر مشرق کی بہو ناصرہ جاوید، بلکہ جسٹس ناصرہ جاوید
یہ روم میں پاکستان کی سفیر اور اپوا کی بانی بیگم رعنا لیاقت علی خان ہیں۔ اور یہ ہیں مراکش میں پاکستان کی سفیر بیگم شائستہ اکرام اللہ۔ اور یہ شیری رحمان ہیں ، اور ملیحہ لودھی ہیں، اور بیگم عابدہ حسین ہیں، اور یہ حنا ربانی کھر۔۔یہ سب امریکہ، اقوام متحدہ میں سفیر ہیں یا وزیر اطلاعات ہیں یا وزیر خارجہ۔
اور ان سب سے ملنے۔
شکریہ خانم، پہلی خاتون پائلٹ، ارفع کریم مائکروسافٹ کی کم عمر ترین ماہرہ کا اعزاز حاصل کرنے والی، یہ بیگم نفیس صادق ہیں ، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی مشیر، یہ سائرہ حمید ہے، جنوبی ایشیا کی تیز رفتار ترین خاتون ایتھلیٹ کا اعزاز حاصل کرنے والی۔ یہ ثنا میر ہے ، کرکٹ کی کپتان، شیرین عبید، آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی، عافیہ صدیقی ، امریکی استعمار کے خلاف جان پر کھیل جانے والی،
اور یہ سب ہیں شعر وادب کے درخشاں نام۔ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، ادا جعفری، زہرہ نگاہ اور پروین شاکر
بانو قدسیہ، فاطمہ ثریا بجیا، نورالہدی شاہ، حسینہ معین اور یہ آج کل کی بچیاں، عمیرہ احمد، نمرہ احمد۔ اور انگریزی ناول نگاری میں دھوم مچانے والی بپسی سِدّھو ا اور کاملہ شمسی
یہ میدان سیاست میں میں نام کمانے والیاں بیگم نسیم ولی خان، بیگم نصرت بھٹو، بیگم کلثوم نواز، مردوں کے کان کاٹنے والیاں فوزیہ وہاب، فردوس عاشق اعوان، مریم نواز، مریم اورنگزیب، شازیہ مری، کشمالہ طارق، سدرہ گل اور ان جیسی کئی۔
یہ صحافت اور شوبزنس کی نسیم زہرا، سدرہ اقبال، مہر بخاری، عصمہ شیرازی، فریحہ ادریس اور دوسری بہت سی۔
اور یہ فن کے افق پر چمکنے والی سدا بہار ملکہ ترنم نورجہاں، یہ بلبل صحرا ریشماں، یہ عابدہ پروین، یہ طاہرہ سید، فریدہ خانم، اقبال بانو
اور یہ ہر دلعزیز بشری انصاری، یہ روحی بانو، عظمی گیلانی، صبا حمید، ثمینہ احمد، ثمینہ پیرزادہ، ماہرہ خان
یہ سائنس کی دنیا میں نام کمانے والی نرگس موال والا، یہ فائٹر پائلٹ شہید مریم مختار اور ان جیسی بہت سی پائلٹ اور فائٹر پائلٹ جن کی تعداد ہندوستان کی پائلٹ خواتین سے زیادہ ہے
یہ فوج میں خدمات انجام دیتی لیڈی ڈاکٹر، ملک اور ملک سے باہر ہزاروں کی تعداد میں بکھری لیڈی ڈاکٹرز، انجینئر، ماہرین قانون، ماہرین تعلیم، فیشن اور انٹیرئیر ڈیزائننگ میں اونچا درجہ رکھنے والیاں، زندگی کے ہر شعبے میں پاکستانی مردوں کے شانہ بشانہ ۔
یہ روشن چہرہ ہے میرے ملک کا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا، جسے ایک قدامت پسند اور روایت پرست ملک سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں کی پارلیمنٹ میں خواتین کو تینتیس فیصد نمائندگی حاصل ہے، میرے ملک میں ہے۔ اسلامی دنیا کے ہی نہیں ترقی پذیر ممالک میں زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں اتنی خواتین ہی دکھادیں۔
یہ چہرہ ہے میرے ملک کی عورت کا، آزاد، خودمختار، تعلیم یافتہ، پروقار اور پراعتماد۔ کیا ایک گھٹن زدہ ماحول میں عورتیں اتنا بڑا مقام پا سکتی ہیں، وزیر اعظم، اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر مرکزی بنک، اقوام متحدہ میں سفیر، اہم ممالک میں سفارتی زمہ داریاں انجام دینے والیاں، اہم وزارتوں پر فائز، شوبز، فیشن انڈسٹری، کھیل اور الیکٹرانک میڈیا میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے، نام گنوانے بیٹھوں تو صبح سے شام ہوجائے۔ اور یہ تو چند ایک نمائندہ نام بتائے ہیں اور یہ ہی کیا کم ہیں۔
دو انسان ایک ہی روزن سے، ایک ہی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہیں۔ ایک کی نظر چمکتے سورج اور روشن دن پر ہوتی ہے، دوسرے کو زمین پر پڑا کیچڑ نظر آتا ہے۔
بے شک یہ کیچڑ بھی زندگی کا حصہ ہے۔ مملکت خداداد میں سب کچھ ٹھیک نہیں، بلکہ بہت کچھ ٹھیک نہیں ، بہت کام کرنا ہے، زندگی یہی تو ہے ۔اک فصل پکی تو اگلی فصل کی فکر کرنی ہے، جدوجہد کرنی ہے۔
کوئی شک نہیں زندگی کی بدصورتیاں اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ معصوم کلیوں کو پائمال بھی ہم ہی کرتے ہیں، ہوس کے پجاری اپنا گندہ کھیل بھی کھیلتے ہیں، حقدار کو اس کا حق اس طرح نہیں ملتا جس طرح اس کا حق ہے، ظلم بھی ہے، ناانصافی بھی ہے، چوری بھی ہے بدعنوانی بھی ہے۔ عورتوں کے ساتھ شدید ترین ظلم بھی ہیں تو مردوں کے ساتھ بھی ہر چیز مثالی نہیں ہے، بندہ مزدور کے اوقات چاہے مرد ہو یا عورت، اب بھی بہت تلخ ہیں۔
لیکن یہی دنیا ہے ، اور ہر جگہ یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں تو سماجی گھٹن کو الزام دیتے ہیں، امریکہ اور یورپ میں کونسی گھٹن ہے جو بچوں سے لیکر بوڑھی خواتین تک کی آبروریزی کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ ہندوستان کے ہاں ہمارے مقابلے میں زیادہ شخصی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، وہاں کا دارلحکومت دہلی “ ورلڈ ریپ کیپیٹل” کہلاتا ہے۔
اپنے حقوق کے لیے باہر نکلیں، بے شک نعرے لگائیں، جدوجہد کریں لیکن یہ نہ ثابت کریں کہ اس ملک کا چہرہ سیاہی آلود ہے، اس میں کوئی خوبصورتی اور خوشنمائی نہیں۔
یہ ملک اور اس کے لوگ بہت خوبصورت ہیں۔ جتنے محنتی اور باصلاحیت یہاں کے لوگ ہیں شاید ہی کہیں ملیں۔ اس کی گواہی خلیج، سعودی عرب ا، یورپ اور سسکینڈے نیویا کے ممالک میں میرے ملک کے ہنرمندوں کی تعداد دے گی.
خدارا اس قنوطیت سے باہر آئیں زندگی کا روشن رخ دیکھیں ۔ میرے ملک کا روشن چہرہ دیکھیں۔
یوم خواتین مبارک ہو۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...