پاکستان کی آبادی میں بےتحاشا اضافہ
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کچھ اور ہے ،لیکن معلوم نہیں اس مسئلے پر بات کیوں نہیں کی جاتی ؟پاکستان کے میڈیا کی بریکنگ نیوز بھی وہی مسئلہ ہے ،لیکن میڈیا بھی اس ایشو پر ہاتھ نہیں ڈالتا ،شاید اس مسئلے کا ریٹنگ سے کوئی تعلق نہیں ۔جب سے یہ ملک بنا یعنی پاکستان جو ایک زمانے میں مغربی پاکستان بھی کہلاتا تھا ،اس وقت یعنی اس ملک کی پیدائش کے وقت پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی ۔1998کی مردم شماری میں یہ پاکستان میں انسانوں کی آبادی تیرہ کروڑ ہو گئی ۔جبکہ 2017 کی متنازع مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 21کروڑ ہو چکی ہے۔اور اگر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کرلیا جائے کیونکہ یہ خطے بھی پاکستان کے وسائل اور مسائل میں شریک ہیں اور ان وسائل اور مسائل کو استعمال کرتے ہیں تو پھر پاکستان کی آبادی 23کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔اب آبادی 13 سے کڑور ہے۔یعنی 1998 سے اب تک انیس برسوں میں پاکستان میں دس کروڑ انسانوں کا اضافہ ہوا ہے۔پاکستان دنیا میں پانچواں گنجان ملک بن چکا ہے ۔پاکستان کی آبادی میں سالانہ دو اشاریہ چار کا اضافہ ہوتا ہے۔جو جنوبی ایشیاٗ کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو الحمدللہ 2030 میں پاکستان دنیا میں چوتھا بڑا گنجان آباد ملک بن جائے گا ۔انڈونیشیا سے بھی ہم آگے نکل جائیں گے ۔ہر سال انسانی ترقی کا انڈیکس شائع ہوتا ہے ۔اور یہ 180 ممالک کا انڈیکس ہوتا ہے۔یہ انڈیکس معیار زندگی کے حوالے سے ترتیب دیا جاتا ہے۔انسانی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان اس وقت 147 ویں نمبر پر ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی کی صورتحال بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔پاکستان میں 30فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ آبادی کا اس طرح بڑھنا کیا پاکستان کے لئے اچھا ہے یا برا؟اتنی بڑی آبادی طاقت کی علامت ہے یا کمزور کی ۔کیا کہیں ہم پاکستانی کسی اقتصادی ،سماجی اور معاشی ایٹم بم پر تو نہیں بیٹھے ہوئے ہیں؟یا پھر انسانی وسائل کی شاہراہ پر ترقی کے سفر پر گامزن ہیں؟یہ ہیں وہ سوالات جن پر اس مضمون میں خود ہی سوالات و جوابات اٹھائیں گے اور کسی قسم کے نتیجے پر پہنچنے کی کوشش بھی کریں گے ۔ہمیں کتنی خوشی منانی چاہیئے کہ ہم دنیا کا پانچواں گنجان آباد ملک بن چکے ہیں؟مجھ سے پوچھیں تو اس پر ہمیں رونا اور چیخانا چلانا چاہیئے۔بڑھتی آبادی کے جو مسائل ہیں اس سے جو نتائج پیدا ہوں گے وہ سیاسی ،سماجی اور معاشی حوالے سے خطرناک ہوں گے ۔بڑھتی آبادی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست پاکستان خوفناک حد تک ناکام ہورہی ہے ۔کیا ملک ہے جہاں گزشتہ بیس پچیس سالوں میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی منظم پالیسی ہی ترتیب نہیں دی گئی؟بغیر ڈرائیور کے ٹرین چلتی جارہی ہے ،کس رخ پر اس کا سفر ہے ،کسی کو معلوم نہیں ،سب ایک خوفناک حادثے کا انتظار کررہے ہیں ۔بے روزگار میں پاکستان 109 ویں نمبر پر ہے ۔نوجوانوں میں بے روزگاری کے حوالے سے پاکستان 128 ویں نمبر پر ہے ۔جی ڈی پی کی گروتھ چار سے پانچ فیصد کے درمیان ہے ۔یہ تمام انڈیکس بتاتے ہیں کہ پاکستان بدترین صورتحال کا شکار ہے ۔لیکن ان تمام اہم ایشوز پر بات کرنے کے لئے حکومت،ریاست اور میڈیا کے پاس وقت ہی نہیں ۔اس سے بڑی جہالت کا اور کیا ثبوت دیا جاسکتا ہے؟دنیا کی کسی بھی معیشت کے حقیقت میں دو بنیادی شعبے ہوتے ہیں ۔ایک اشیاٗ پیدا کرنے کا شعبہ اور دوسرا سروسز کا شعبہ ۔پاکستان کی اکانومی زراعت اور انڈسٹری پر چل رہی ہے ،مطلب زراعت اور انڈسٹری پاکستانی اکانومی کی ٹانگیں ہیں ۔بدقسمتی ملاحظہ فرمایئے کہ دونوں شعبوں کی کارکردگی بدترین ہے۔آبادی دو اشاریہ چار فیصد کے حساب سے بھاگ رہی ہے اور پچھلے بیس سالوں میں گندم کی پیداوار ایک اشاریہ چار ہے ۔زراعت دو اشاریہ ہے ۔ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ممالک کی قطار میں ہم کتنے پسماندہ ہیں ؟عالمی اور مقامی اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ بہت جلد پاکستان میں خوراک کا بحران آئے گا ،یہ بحران لاکھوں انسانوں کی زندگی کو موت میں بدل دے گا ۔لیکن اس پر کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہورہی ۔خوراک کی بات کی جائے تو پاکستان میں گندم اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے ۔آبادی بڑھ رہی ہے اور خوراک کم ہورہی ہے ۔وہ زرخیز زمین جس سے پیداوار بڑھانی چاہیئے تھی ،اب وہاں پر گھر بن رہے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔جنوبی پنجاب اور لیل پور کی زرخیز زمینوں پر گھر بن رہے ہیں ۔ایک جانب آبادی بڑھ رہی ہے ،دوسری جانب پاکستان کی زرخیز زمین کم ہورہی ہے ۔جبکہ فی ایکڑ پیداوار وہی پر کھڑی ہے جہاں سالوں پہلے کھڑی تھی ۔تصور کریں صورتحال یہی رہی تو دس سال کے بعد اس ملک میں کیا ہوگا؟یاد دہانی کے لئے یہی کافی ہے کہ خوراک کے بحران سے ہم پاکستانی دو دفعہ گزر چکے ہیں ۔1997 اور 2008 تو سب کو یاد ہوگا ۔آٹا بحران تو سب کو یاد ہوگا ۔یہ بحران اس وجہ سے آیا تھا کہ گندم کی پیداوار کم ہوئی تھی ۔اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ اب کی بار جو پاکستان میں خوراک کا بحران آئے گا وہ مستقل ہوگا ۔فارن ایکسچینج نیچے جارہا ہے ،ایکسپورٹ کا شعبہ تو بدترین زبوں حالی کا شکار ہے ۔اب کچھ پانی پر بات کر لیتے ہیں ،جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ دنیا میں مستقبل میں پانی پر جنگیں ہوا کریں گی ۔جب اس ملک کی آبادی 13 کروڑ تھی،تب بھی پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا تھا جو شدید پانی کی کمی کا شکار ہیں ۔آج جبکہ آبادی 23 کڑور ہے پاکستان ان ٹاپ ٹن ممالک میں شامل ہے جو شدید پانی کے بحران کا شکار ہیں ۔آبی قحط پاکستان کے انسانوں کے لئے موت کا سبب بن جائے گا ،لیکن کیا اس طرف حکومت اور میڈیا کا دھیان ہے؟پانی کے حوالے سے پاکستان میں ابھی تک کوئی منظم پالیسی نہیں بنائی جاسکی ۔پاکستان میں کھربوں لیٹر پانی ضائع ہوجاتا ہے ،لیکن ایک قطرہ پانی ری سائیکل نہیں ہوتا ،یہ رہی ہے حکومتوں کی کارکردگی؟کراچی میں پانی کا مستقل بحران ہے ،آسمان سے پانی آرہا ہے اور ضائع ہورہا ہے ،یہ ہے وہ پاکستان جو ہندوستان سے آزاد کرایا گیا تھا ؟سندھ اور بلوچستان میں پانی کا شدید بحران ہے ۔زراعت کو غیر معیاری انداز میں چلایا جارہا ہے ۔ہم سب بچپن میں ایک بات سنتے آرہے ہیں کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے،زراعت کے شعبے کی کارکردگی بہتر کرنے کے لئے کوئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ؟لوگ گاوں سے شہر جارہے ،کیونکہ گاوں زرخیز زمین سے محروم ہورہے ہیں ،گاوں کے لوگوں کی شہروں میں ہجرت سے شہر برباد ہورہے ہیں ،کیا کسی کو پرواہ ہے؟کیا کسی کو پرواہ ہے کہ اس سے شہروں پر کس قسم کے خطرناک اثرات پڑ رہے ہیں ؟گاوں میں زرعی زمین کم پڑ رہی ہے اور شہروں میں انڈسٹری کا برا حال ہے ،اس لئے شہر گاوں کو لوگوں کو اپنے اندر جذب نہیں کرپارہے ۔اب بیچارے دیہاتی شہروں میں ریڑھی لگاتے ہیں ،اور لاکھوں کی تعداد میں کراچی کی سڑکوں پر سوتے ہیں ،جانوروں اور بھیڑ بکریوں سے بھی بدترین زندگی گزارتے ہیں ،لیکن کسی کو کیا پرواہ؟شہروں اور دیہاتوں ہر جگہ بے روزگاری بڑھ رہی ہے ،ورکرز کی اہمیت کم ہو گئی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ بارگینگ پاور ہی ختم ہو چکی ہے ،اس لئے انسان نہ شہروں میں سکون میں ہیں اور نہ ہی دیہاتوں میں ۔یہ ہے وہ پاکستان جو ہم نے ہندوستان سے آزاد کرایا تھا ؟اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں غربت کا لیول بہت زیادہ اور شدید ہے اور غربت کی شدت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے پاکستان میں جرائم میں اضافہ ہورہا ہے ۔ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ کا یہ حال ہے کہ بھکاریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔22کڑور آبادی میں ساٹھ فیصد انسان وہ ہیں جن کی عمریں تیس سال سے کم ہیں ۔ان کو اسکول ،اسپتال ،اور روزگار چاہیئے ۔جو نصیب نہیں ۔ساٹھ ،ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال بہتر تھی ،اس زمانے کو گولڈن زمانہ کہا جاتا ہے ۔اس زمانے میں پاکستان میں معاشی اثاثوں میں اضافہ ہوا ۔لیکن اسی کے بعد کی صورتحال یہ ہے کہ معیشت تباہ ہو چکی اور اب ہم صرف جمہوریت اور آمریت کی جنگیں لڑ رہے ہیں ۔22 کڑور لوگ طاقتور ہیں یا کمزور اب اس کا خود ہی اندازہ لگا لیں ؟پاکستان میں ایک کرور انسان productive ہیں جبکہ 21 کرور انسان non productive ..اس لئے یہ 21 کروڑ انسان جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،لیکن کسی کو کیا پرواہ ؟بھائی ریاست کا مقصد معاشی ترقی ہوتا ہے تاکہ انسان پرامن اور خوشحالی سے مزین زندگی گزاریں ،لیکن یہاں معاشی بہتری کے لئے کوئی آواز ہی بلند نہیں کرتا ؟ایوب اور بھٹو کے علاوہ کوئی ایسا لیڈر بتادیں جس نے معاشی ترقی کے لئے کام کیا ہو ۔کیا ملک ہے جو معاشی ترقی کی بجائے سیکیورٹی ریاست بننے کے چکر میں آگے بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ہم صرف سیکیورٹی سٹیٹ کے آلودہ نظریئے سے واقف ہیں ،معاشی ترقی کے روزن راستے کو گھٹیاراستہ سمجھتے ہیں ،جب سوچ ایسی ہوگی تو تباہی تو آئے گی ؟کیا ملک ہے جو قرضہ لیکر بجٹ بناتا ہے ،مطلب کچن چلاتا ہے ،یا قرضہ لیکرپرانا قرضہ وآپس کرتا ہے ۔سیکیورٹی اسٹیٹ کے لئے واضح پلایسی ہے ،معاشی ترقی کے لئے کوئی پالیسی نہیں ،کیا بات ہے حکمرانوں اور عوام کی ۔اب آگے اور کیا کہوں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔