پاکستان کی سات بہترین ویڈیو دستاویزی فلمیں
یہ خوبصورت اوردلکش کائنات الہامی آرٹ کا بہترین اظہار ہے۔یہ کائنات چیخ چیخ کر یہ بتارہی ہے کہ آرٹ ہی زندگی ،خوبصورتی اور روحانی خوشی کی حقیقی سچائی ہے۔اس زمین پر مصوری ،شاعری ،موسیقی ،ڈرامہ اور فلم وغیرہ جیسے آرٹ نہ ہوتے تو زندگی کس قدر خوفناک ہوتی ،اس خیال کے آتے ہی میں کانپ اٹھتا ہوں۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں شارٹ ویڈیو فلم میکنگ کا آرٹ آجکل عروج پر ہے۔23مارچ سے 7 مئی تک جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو اور ڈان ڈاٹ کام نے دستاویزی ویڈیوز کے انعامی مقابلے کا اہتمام کیا ،جس کا موضوع تھا It happens only in pakstan جس کا اردو ترجمہ ہے یہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے ۔ سینکڑوں دستاویزی ویڈیوز اس مقابلے کا حصہ تھی ۔پاکستان کے دو ممتاز دستاویزی فلم ساز جامی اور بابر شیخ نے مقابلے میں آنے والی تمام دستاویزی فلمیں دیکھی ،ان میں سے سات بہترین فلموں کو بھاری بھرکم انعامات اور ایوارڈز سے نوازا گیا ،آج کی حقیقی داستان انہی سات بہترین دستاویزی فلموں کے گرد گھومتی ہے۔وہ فلم جو ساتویں نمبر پر رہی ،اس کا نام تھا قدر ،یہ فلم ایک نظم کے گرد گھومتی ہے جس کا نام قدر ہے ،بنیادی طور پر اس نظم میں قدرت کے حسن کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔اس فلم کے تخلیق کار حسن تنویر ہیں،فلم میں پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ کے کھلتے حسین مناظر کو الہامی انداز میں دیکھایا گیا ہے ،قدرت کا حسن نظم گاکراپنی خوبصورتی بیان کرتا ہے ۔ویڈیو میں ندیاں ،آبشاریں ،پہاڑ ،برف باری ،آسمان کی دلکشی سب کچھ ہے ،نظم میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قدرت کے حسن اور فطری ماحول کا احترام کتنا ضروری ہے ۔دستاویزی فلم کو دیکھنے کے بعد دل یہ چاہتا ہے کہ انسان سب کچھ سمیٹے اور ہنزہ شفٹ ہو جائے ،باقی تمام زندگی وہ ہنزہ کے دلکش پہاڑوں اور آبشاروں کے بیچ گزار دے ،ساتویں نمبر پر آنے والی اس دستاویزی فلم کو پچاس ہزار روپے انعام سے نوازا گیا۔چھٹے نمبر پر آنے والی فلم کا نام تھا پپوبھائی ،یہ فلم عثمان ضیا اور عبدالرحمان کی پیشکش ہے ۔اس فلم کو بھی پچاس ہزار روپے کا انعام دیا گیا ۔فلم کی کہانی پپو بھائی کی دکان کے گرد گھومتی ہے ،یہ دکان چوک بازار بہاولپور میں ہے ،جہاں اعلی روایتی کھانے روائیتی انداز میں پکائے اور کھلائے جاتے ہیں ۔بہاولپور کی مشہور چوک میں عام لوگ مزیدار کھانا کھا رہے ہیں ،پپو بھائی اپنے بھائیوں کے ساتھ ملکر کھانا بنا رہا ہے ،اس کے خوشگوار موڈ کی کیفیت دستاویزی فلم میں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔پانچویں نمبر پر آنے والی فلم کا نام ہے lord of the sea یعنی میر بحر ۔تیمور علی اور وحید علی نے یہ فلم بنائی ہے ۔سندھ کی سب سے بڑی منچھر جھیل میں ایک قبیلہ صدیوں سے کشتیوں پر آباد ہے ،وہ لوگ صدیوں سے کشتیوں کے اندر پانی میں تیرتے رہتے ہیں ،وہی کھانا پکاتے ہیں ،اسی جگہ پر سوتے ہیں ۔فلم کا مرکزی خیال یہی ہے کہ پانی ہی انسان کی زندگی ہے ،پانی ہے تو زندگی ہے،پانی کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں ۔پانچویں نمبر پر آنے کی وجہ سے اس فلم کو ایک لاکھ پچاس ہزارانعام سے نوازا گیا ۔چوتھے نمبر پر آنے والی فلم کانام ہے Piles Of Mud .Ounes of God فلم کی کہانی ایسے افراد کے گرد گھومتی ہے جو مٹی سے سونے کے زرات تلاش کرتے ہیں ،پھر ان زرات کو صاف کرتے ہیں ،جب گولڈ اپنی شکل میں آتا ہے تو خوش ہوتے ہیں ،اسے بیچتے ہیں اور اس طرح زندگی کو قائم دائم رکھتے ہیں ،بنیادی ظور پر یہ دیکھایا گیا ہے کہ وہ سونا جس پر دنیا کا کاروبار کھڑا ہے ،غریب ہی اس کو تلاش کرتے ہیں ،لیکن اس کا فائدہ امیر لوگوں کو مل رہا ہے ۔یہ فلم روحان اظہر اور بلال لطیف کے خوبصورت دماغ کی پیشکش ہے ۔اس فلم کو بھی ایک لاکھ پچاس ہزار کے انعام سے نوازا گیا ۔تیسرے نمبر پر آنے والی شاہکار فلم کا نام ہے background،جانی بابا پاکستان کے وہ اداکار ہیں جو سنتالیس سال میں پاکستان کی ایک سو ساٹھ فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرچکے ہیں ،وہ اپنے کام سے خوش ہیں ،کہتے ہیں اب بھی وہ کام کے لئے تیار رہتے ہیں ،جانی بابا کہتے ہیں کہ اداکاری ان کی زندگی ہے ،زندگی کے آخری لمحات تک وہ اداکاری کرتے رہیں گے اور کبھی ریٹائڑ نہیں ہو ں گے ،ریٹائر تو صرف فوجی ہوتا ہے ،اداکار زندگی کی آخری سانس تک اداکاری سے ریٹائر نہیں ہوتا ،جانی بابا سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے آج تک جدید سینما پر کبھی فلم دیکھی ہے تو اس کا کہنا تھا کبھی نہیں دیکھی ،اسی دوران جب اسے ایمپوریم مال کا ملٹی پلیکسز سینما دیکھا گیا تو وہ حیران رہ گئے کہ پاکستان میں ایسے بھی سینماز ہیں ۔ یہ فلم جانی بابا کے گرد گھومتی ہے ۔فلم میں جانی بابا کے حقیقی ڈائیلاگز ،اسی کی مسکراہٹ اور دکھ کی کیفیت کو ماہرانہ انداز میں فلم بند کیا گیا ہے۔جانی بابا کہتے ہیں وہ ساٹھ سال سے کام کررہے ہیں ،کہتے ہیں کوئی نئی فلم نہیں دیکھی ۔فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آرٹ کبھی ریٹائر نہیں ہوتا ۔اس فلم کو بھی دو لاکھ پچاس ہزار کا انعام دیا گیا ۔میری نگاہ میں یہ نمبر ون فلم ہونی چاہیئے تھی ۔سیکینڈ پرائز ونر فلم کا نام ہے ہدائیتکار،احسن علی ،عمار رحمانی اور بلال ساغر کی یہ فلم ایک مچھیرے ہدائیتکار کے گرد گھومتی ہے جو غریب ہے ،مچھلیاں پکڑ کر گزارا کرتا ہے ،لیکن فلمیں بناتا ہے ۔ایم ایچ حسینی نامی یہ ہدائیتکار اب تک تیرہ فلمیں بنا چکا ہے ۔اس دستاویزی فلم کو تین لاکھ پچاس ہزار انعام سے نوازا گیا ۔یہ فلم دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں فلم میکنگ کے حوالے سے بہت ٹیلنٹ ہے جو مچھیروں کے مچھیرستان میں بھی موتی بکھیر رہا ہے ۔اب آتے ہیں فرسٹ پرائز ونر دستاویزی فلم کی طرف ،وہ فلم جسے بیسٹ فلم ایوارڈ سے نوازا گیا اس کا نام ہے WAAHI ،ارسلان ماجد ،حارس سہگل اور غلام عباس کی پیکش کردہ اس فلم کی کہانی کی مرکزی کردار اقبال نامی ایک خاتون ہیں ،جو ایک کسان ہیں ،یہ خاتون لاکھوں کسان خواتین کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے ۔اقبال مائی کا شوہر فالج کی وجہ سے سالوں سے بستر مرگ پر ہے ،لیکن اقبال مائی ہمت نہیں ہارتی ،خود ہی کسان بنکر مالی مسائل حل کرتی ہے ،وہ کہتی اس کے بچے نہیں ہیں لیکن وہ اپنی فصل کی حفاظت بچوں کی طرح کرتی ہے۔میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ سچے واقعات پر مبنی یہ دستاویزی فلمیں ضرور دیکھیں اور زرا سوچیں کہ پاکستان میں کیسے کیسے ہیرے ہیں ،جنہیں تراشنے کی ضرورت ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔