پاکستان کا نظام کیسا ہو؟ ایک کہانی
پاکستان کے انسانوں کو سیاسی نظام کی بجائے میرٹ کے نظام کی ضرورت ہے ۔میرٹ کا نظام کبھی بھی سیاسی نظام نہیں ہو سکتا ۔سیاسی نظام کا مطلب ہے پاکستان کی دنیا میں بدعنوانی ،بے ایمانی ،منافقت ،جھوٹ ،اقربہ پروری اور تباہی و بربادی ۔لیکن میرٹ کا نظام ان آلودگیوں سے مبرا ہوتا ہے ۔اس میں کسی قسم کی سیاسی جماعتیں نہیں ہوتی ۔افراد میرٹ کی بنیاد پر زندگی انجوائے کرتے ہیں ۔میرٹ کے نظام میں ہجوم ،مجمع یا کروڑوں انسان نہیں ہوتے ،صرف افراد ہوتے ہیں ،جو پرامن ،خوشحال اور آزاد ہوتے ہیں ۔جس ملک میں میرٹ کی بالادستی ہوگی وہاں کا فنانس سیکریٹری وہ ہوگا جو حقیقی ماہر اقتصادیات ہوگا ۔لیکن سیاسی نظام میں وہ فنانس سیکریٹری یا وزیر تجارت ہوگا جس کو اقتصادیات کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہوگا ۔میرت کے نظام میں وزیر صحت وہ ہوگا جس کو وزیر صحت ہونا چاہیئے ۔سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں دباؤ ڈال کر ناہل لوگوں کو وزیر تعلم ،وزیر صحت اور وزیر قانون بنادیتی ہیں ،اور اسی وجہ سے ہر طرف تباہی و بربادی ہے ۔یہ سیاسی لوگ ان عہدوں پر اس لئے نہیں لگائے جاتے کہ وہ انسانوں کی زندگی میں خوشحالی لائیں گے ،بلکہ یہ سیاسی لوگ پیسہ بنانے کے لئے آتے ہیں ۔سیاسی جماعتیں کیا ہیں ؟سیاسی جماعتوں کا مطلب ہے لوگوں کا ایک ایسا گروپ جو اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور ان لوگوں کو کسی ایک نظریئے کا خیر خواہ بنایا جاتا ہے ۔یہ اس سیاسی جماعت کے خیر خواہ تو ہو سکتے ہیں ،لیکن حقیقت میں عوام کے دشمن ہوتے ہیں ۔جس طرح مذاہب کے کچھ نظریات انسانیت کے لئے خطرناک ہیں ،اسی طرح یہ سیاسی جماعتیں بھی پاکستان میں انسانوں کے لئے خطرناک ہیں ۔میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ افراد ہی سب کچھ ہیں ،ان افراد کے لئے کسی قسم کا سیاسی نظام ار سیاسی جماعتیں نہیں ہونی چاہیئے ۔۔۔پاکستان کے ہر فرد کا یہ حق ہے کہ وہ انفرادی طریقہ کار سے سچ کی تلاش کرے سیاست بھی ایک انفرادی سچ کا نام ہے ،اس کے لئے کسی قسم کی سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں ۔انفرادی سچ سے ہی معاشرے میں بہتری آسکتی ہے ۔انفرادیت وہ انداز ہے جس کی وجہ سے انسانی تہذیب و کلچر پیدا ہوتے ہیں ۔میرٹ کے ںطام میں پاکستان کراچی،لاہو ر،اسلام آباد ،پشاور ،پنڈی ،سیالکوٹ،حیدر آباد ،کوئٹہ ،ملتان اور بہاولپور وغیرہ نہیں ہوگا ۔پاکستان کو ان جیسے بڑے شہروں کی ضرورت نہیں ۔پاکستان میں امن ،خوشحالی ،محبت ،سچائی ،آزادی اور ایمانداری لانی ہے تو تمام بڑے شہروں کو چھوٹے چھوٹے شہروں میں بدلنا ہوگا ۔لاکھوں یا کڑوروں کی آبادی والے شہر نہیں ،بلکہ ایسے شہر بنائے جائیں جہاں آبادی ہزاروں میں ہو ۔ہر شہر دس ہزار افراد کی آبادی پر مشتمل ہو ،ان چھوٹے چھوٹے شہروں کے افراد کو یہ حق ہونا چاہیئے کہ وہ خود اپنے شہروں کو چلائیں ۔،شہر کے تمام معاملات ان افراد کے ہاتھوں میں ہوں جو اس کے شہری ہیں ۔جب یہ افراد ہی اپنے اپنے شہروں کی زمہ داری سنبھال لیں گے تو ہر طرف دولت کی فراوانی ہوگی ،ہر طرف کوشحالی اور امن ہو گا ۔انسان بے تحاشا دولت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،جب ان انسانوں کو اپنے شہروں کو خوشھال بنانے کا موقع ملے گا تو یہ بے تحاشا وسائل پیدا کرے گے جس سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔یہ غربت ،بدحالی،آلودگی اور افرا تفری اس وجہ سے ہے کہ ایک ایک شہروں لاکھوں انسانوں سے بھرپور ہے ۔اور ان شہروں کے مالک وہ لوگ بنے بیٹھے ہیں جو بدعنوان ہیں ،کرپٹ ہیں اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔لاہور کی ولی وارث نواز شریف فیملی ہے ،کراچی پر ایم کیو ایم کا راج ہے ،اسلام آباد پر تمام بدعنوان انسانوں کا قبضہ ہے اور راولپنڈی پر جس کا قبضہ ہے ان کے بارے میں تو بچہ بچہ جانتا ہے ۔ہر شہر میں بدمعاش ،راشی اور نااہل سیاسی غنڈے ھکومت کررہے ہیں ۔جب میرٹ کی حکومت ہوگی اور یہ بڑے بڑے شہروں کو لاکھوں چھوٹے چھوٹے شہروں میں تقسیم کردیا جائے گا اور حکومت ان افراد کے ہاتھوں میں ہو گی تو پھر سب انسانوں کو خوراک ملے گی ،ان کو آزادی میسر آئے گی ،سب کے لئے حقوق اور زمہ داریاں ہوں گی ۔ان شہروں میں برابری کی سطح پر آزادی میسر ہو گی ،تفریح کی سہولتیں سب کے لئے ہوں گی ،تعلیم اور میڈیکل کی سہولتیں ہر انسان کو نصیب ہوں گی ۔ان چھوٹے چھوٹے شہروں میں ہر انسان آزاد ہو گا ۔ان کو آزادی ہوگی کہ وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ،کچھ بھی لک سکتے ہیں ۔سیکس کی آزادی ہوگی ،کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے یا اسے چھوڑنے کی آزادی ہو گی ۔کسی کو قادیانی یا شیعہ ہونے پر قتل نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ ان شہروں میں قرارداد مقاصد وغیرہ کا آسیب نہیں ہوگا ۔ان چھوٹے چھوٹے شہروں میں کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی مذہبی ٹھیکیدار کی ٹھیکیداری ہو گی ۔یہاں صرف اور صرف افراد ہوں گے جو ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہوگے ۔یہ افراد ہندو مسلم سکھ عیسائی نہیں ہوگے اور نہ ہی شیعہ سنی وہابی ہوگی ،یہ صرف افراد ہوں گے جنکی انفرادیت سے اور جنکے میرٹ کی بنیاد پر نظام چلے گا ۔یہ انسان محبت ،پیار اور امن سے رہیں گے ۔کسی قندیل بلوچ کا قتل غیرت کے نام پر نہیں ہوگا ،کوئی امجد صابری شاہراہ پر گولیوں کا نشانہ نہیں بنے گا اور کسی قسم کے ایدھی کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ان شہروں میں کوئی زرداری ،نواز شریف ،راحیل شریف ،الطاف ھسین نہیں ہوں گے ۔صرف چند ہزار افراد ہوں گے جو ناچیں گے ،گائیں گے ،سیکس کی آزادی سے مالا مال ہو گے ۔موسیقی ،شاعری اور فلم و ڈرامے سے ایسا معاشرہ بھرپور ہوگا ۔ان چھوٹے چھوٹے شہروں میں محبت اور بھائی چارہ ہوگا ۔ان شہروں میں جرائم کے لئے سزائیں نہیں ہوں گی بلکہ ہر جرم کو بیماری سمجھا جائے گا اور ایسے دماغی مریض کا علاج ہو گا ۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا ہی اچھا ہو یہ ملک سیاست کے نطام سے پاک ہو جائے ،سیاسی جماعتوں سے پاک ہو جائے ،مذہب کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے ۔قرارداد مقاصد سے پاک ہو جائے ،مذہبی نظریات سے پاک ہو جائے ۔ایسا ممکن ہے اگر یہ ملک لاکھون چھوٹے چھوٹ شہروں اور میرٹ کے نظام سے بھرپور ہو جائے ۔کاش کبھی ایسا ہو جائے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔