پاکستان کا کیا بنے گا؟
صادق ملک پاکستان کے مایہ ناز پامسٹ ہیں ۔ اپنی زندگی کی داستان جو ان کی ویب سائٹ پر پڑی ہے ، اس کی قسط دوئم میں لکھتے ہیں، کہ اُنکی بیس سالہ پامسٹری کی زندگی میں آج تک کسی سیاستدان ، بیوریوکریٹ ، جنرل یا حکومتی عہدیدار نے یہ نہیں پوچھا کہ “پاکستان کا کیا بنے گا”۔ اپنا ہی پوچھا ، کہ کتنا پیسہ آئے گا ، کتنی بیویاں ہوں گی، باہر کہ کتنے دورے ہوں گہ ، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی حُب الوطنی کی پوزیشن ۔
آپ کہ علاقے کا تھانیدار آپ کہ گھر پر قبضہ تو کروانے کو ہر وقت تیار، لیکن قبضہ چھڑوانا اُس کا کام نہیں ۔ چار پیسے لگائیں اسی گھر میں جُوا کھلائیں ، گیسٹ ہاؤس بنائیں ، جو دل آئے کریں صرف تھانیدار کی جیب گرم رکھیں ۔
شاہد خاقان کی حکومت نے جاتے جاتے کشمیر آزاد کر دیا ۔ جھگڑا ہی ختم کر دیا ۔ کیا کمال کہ بدمعاش اور غدار ہیں یہ سیاسی گماشتے ۔ بلکل یہی بات دسمبر میں لندن اسکول آف اکنامکس کہ عامر غوری کہ کرائے ہوئے سیمینار میں raw کے سابقہ چیف آپریٹر دُلت نے کہی تھی ، کہ جناب پاکستان نے تو کشمیر سے پچھلے کئ سالوں سے ہاتھ اُٹھا لیے ہیں ۔ گو کہ وہاں موجود جنرل احسان اسے پڑ گیا تھا ۔ لیکن اسد درانی کی کتاب نے اور سیکریٹری کشمیر پاکستان کہ حالیہ نوٹیفیکیشن نے اس سازش کی تصدیق کر دی ۔ کہاں کھڑے ہیں آپ جنرل باجوہ صاحب ؟ کس کہ ساتھ ہیں آپ ؟ ہمارے ساتھ یا دشمنوں کہ ساتھ ؟ اسد درانی تو پوری دنیا مین پاک فوج کو بدنام کر کہ ، کالا چشمہ لگائے دندناتا پھرتا ہے ۔ اس کا کوئ ٹرائل نہیں ، ہماری آپ نے پا غفور سے تصویریں لگوا دیں ، غدار اور فوج کہ خلاف کہ دیا ۔ ہمارے گھروں پر isi سے قبضے کروا دیے ، رنڈیاں بٹھوا دیں وہاں ۔ زرا جواب دیں نہ ؟
جب اگلے دن میں نے ضیاء شاہد کی آڈیو لیک کا تزکرہ کیا لوگوں نے مجھے آپ کے بریگیڈیئر اور جرنیلوں کی لیکز اور ان لڑکیوں کہ فون نمبر بھجوائے جو ان کی سب کچھ ہیں ۔ یہ ہے آپ کی فوج کہ حالات ۔ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ اگر اگر شائع کر دیتے تو حالات یہ نہ ہوتے ۔ ابھی بھی اصغر خاں کیس پر ۲۰ سال سے عدلیہ بیٹھی ہے پچہ نہیں پیدا ہوا ۔ یہ سب کچھ آج ہی کر دیں ۔ زرا قبروں سے جرنیلوں کو نکال کر ان کی لاشوں کا ٹرائل کریں ۔ مشرف ، کیانی اور راحیل شریف سے بھی پاکستان بیچنے کا حساب کتاب لیں ۔
اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کے کوئ کسی قسم کا احتساب نہیں کبھی بھی ہوا۔ جتنا بڑا چور اتنے لمبے ہاتھ ۔ ملک ریاض کی مٹھی میں سارے جرنیل ، سیاستدان ، بابو اور جج ، کیونکہ سب کی جان پلاٹوں میں اٹکی ہوئ ہے ۔ پیسہ خدا ہے ۔ کیا ایسے ہی چلتا رہے گا ؟ بلکل نہیں ، قدرت کا اپنا نظام ہے ۔ ہم اس کہ تابع ہیں ۔ جنرل نیازی شیر بنگال کی تو دفنانے کے لیے لاش پڑی رہی تھی ۔ جب وہ زندہ بھی تھا تو پھمن والی ٹوپی پہن کر جب ہماری گلی سے گزرتا تھا سلام لینا تو درکنار کوئ منہ پر تھُوکتا بھی نہیں تھا ۔ پچھلے دنوں کیا ہوا سردار جمال اور اویس لغاری کے ساتھ ؟ کل جاوید لطیف کیوں بھاگ گیا شیخو پورہ ، دن دیہاڑے ، لوگوں کہ ہاتھ میں تو صرف لاٹھیاں تھی ۔
جب چین کہ Tiananmen Square میں ۱۹۸۹ میں نہتے طالب علم ٹینکوں کہ آگے لیٹ گئے تھے تو پوری دنیا ہل کر رہ گئ تھی ۔ اب آخر چینیوں کو ان کا نجات دہندہ Xi Jinping مل گیا نا؟
مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں پاکستان میں لیڈروں کی کمی کیوں ، میں ہمیشہ کہتا ہوں ، بہت لیڈر موجود ہیں ، ۲۲ کروڑ لیڈر ہیں صرف ہمت ، جزبہ اور جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ فی الحال تو ہم بھیڑ بکریوں سے بھی کمزور ہیں ۔ وہ بھی اپنے دفاع میں چیختی چلاتی ہیں ہم تو lying down مار کھا رہے ہیں ۔ ہم اردگن کہ جیتنے کا ایسے جشن منا رہے ہیں جیسے وہ ہمارا لیڈر ہے ۔ کل ایک استنبول میں موجود ترکی کہ جرنلسٹ دوست سے بات ہو رہی تھی وہ کہ رہا تھا آخر کار اردگن نے اپنے موت کہ پروانے پر خود ہی دستخط کر دیے ۔ آنے والے مہینوں میں دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ جن کو ترکی سے اتنا پیار ہے زرا رنگ روڈ پر شاہدرہ کہ قریب دس میل پھیلے ہوئے کچرے کہ ڈھیر دیکھ لیں جو ترکی کی کمپنی کا کارنامہ ہے ، recycle ہونا ہے نجانے اگلی صدی ۔ کل شہباز شریف انہی ڈھیروں کے لیے کراچی والوں کی بھی منتیں کر رہا تھا ۔
دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا
متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا
یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا
میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا
اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا
زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے دم سے تھے
تو نہیں تو زندگی کیا ہے مسائل کے سوا
اس کی محفل آئینہ خانہ تو تھی لیکن سرورؔ
سارے آئینے سلامت تھے مرے دل کے سوا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔