(پاکستان کا چوتھا اور آخری عام زہریلا سانپ)
تحریر : صاٸمہ حمید اور مریم ملک
ترتیب : جازبہ مغل اور فہد ملک
تاریخ : 04-10-2019
اردو نام : ششکار سانپ/کرار سانپ
(آپکے مقامی علاقوں میں اس سانپ کو کس نام سے پکارا جاتا؟)
انگریزی نام : Russell's viper
سائنسی نام : (Daboia russelii)
آئی۔یو۔سی۔این سٹیٹس : Least Concern
زہریلا : Venomous
تعارف : (Introduction)
ششکار سانپ کا تعلق دنیا کے پرانے زہریلے سانپوں کے خاندان وائپرائیڈ سے ہے۔ یہ عام طور پر چین وائپر (chain viper) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایشیا میں پایا جاتا ہے اور پورے برصغیر ہند، جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی چین اور تائیوان میں اکثر ملتا ہے۔ اس سانپ کا نام ایک سکاٹ ہرپٹولوجسٹ پیٹرک رسل (Patrick Russell) کے نام کے ساتھ مخصوص ہے جنہوں نے بہت سے انڈین سانپوں کو پہلی بار بیان کیا۔ اس جنس کا نام اردو کے لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی "چھپنے والا" یا "گھات لگانے والا" کے ہیں۔ بنگالی زبان میں اسکو چندرو بورہا کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے پورے جسم پر عدسہ نما یا چاند کی شکل کے نشان پائے جاتے ہیں۔ برصغیر کے چار بڑے سانپوں میں شمار ہونے کے علاوہ یہ ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتا ہے جو کہ تمام زہریلے سانپوں میں سب سے زیادہ کاٹنے کے حادثات اور اموات کا ذمہ دار ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً انکی بہت زیادہ تعداد، اسکا جارحانہ رویہ اور زیادہ آبادی والے علاقوں میں اسکا اکثر پایا جانا ہے۔
دوسرے نام : (Other Names)
انگلش میں اس کے نام Russell's Viper, chain viper, indian Russell's Viper, common Russell's Viper, seven pacer, chain snake اور scissors snake ہیں۔ پہلے پہل ایک ذیلی انوع کو بیان کرنے کے لیے ایک عام نام بولا جاتا تھا جو کہ اب ششکار کے مترادف ناموں کا حصہ ہے۔ وہ نام یہ ہے : سری لنکا کے رسل وائپر برائے ڈی آر۔ پلچیلہ /
Sri Lankan Russell's Viper for D. r. pulchella
صف بندی : (Taxonomy)
مارفولوجیکل اور مائٹروکونڈریل ڈی این اے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے 2007 میں تھیپر /Theoper نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ ششکار (Russell vilper) کی مشرقی ذیلی انوع Daboia siamensis/ڈابویا سیمینس کو ایک الگ انوع سمجھا جائے۔ ادب میں دیگر ذیلی اقسام/انوع کا بھی ذکر ملتا ہے جیسا کہ
ڈی ایس فارموسینسیز /D.s formosensis تائیوان میں پائی جاتی ہے، ڈی ایس لمیٹس/D. s. limitis انڈونیشیا میں پائی جاتی ہے، ڈی آر پلچیلا/ D.r. pulchella سری لنکا میں پائی جاتی ہے اور ڈی آر نورڈیکس/D.r.nordicus شمالی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ رسل وائپر/Russell viper کے صحیح سپیلنگ ابھی تک زیربحث ہیں۔ شا اور نوڈر (1797) نے انوع Coluber russelii/ کولبر رسیلی کی وجہ سے اس کا نام ڈاکٹر پیٹرک رسل کے نام پر رکھا۔ لیکن بظاہر اسکے نام کی غلط تشریح کی اور دو کے بجائے ایک "L" کا استعمال کیا۔
رسل (1805-1727) ہندوستانی سانپوں کا ایک جائزہ/
An account of indian serpents اور ہندوستانی سانپوں کا تسلسلی جائزہ/ A continuation of an Account of indian serpents کے مصنف تھے۔ میکڈیارمڈ (McDiarmid) ان لوگوں میں شامل ہیں جو بین الاقوامی ضابطہ برائے زوالوجیکل نامزدگی کے آرٹیکل 32C کا حوالہ دیتے ہوئے غلط سپیلنگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ zhao/زاؤ اور Alder/ایلڈر بھی russelii کی حمایت کرتے ہیں۔ اوبسٹ (1983) کے جنس کا جائزہ لیا اور تجویز پیش کی کہ اس میں Macrovipera labetina/میکروپیرا لیبیٹینا، Daboia palaestinae/ڈابویا فلسطینا اور M. xanthina/ایم ژانتینا کو شامل کیا جائے۔ گرومبج (18) میں V. palaestina/وی فلسطینا اور Daboia/ڈابویا کو ایک مشترکہ خاصیت/ apomorphies (تھوتھنی کے ساخت اور سر کے رنگ کی بنا پر) پر مبنی clade/کلیڈ (گروہ)کے طور پر متحد کیا۔ لینٹ نے molecular /سالماتی شواہد کی بنیاد پر اس خیال کی حمایت کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ Daboia Daboia/ڈابویا ڈابویا میں نہ صرف V. palaestinae/ وی فلسطینا بلکہ D. muritanica/ ڈی موریتانیکا اور D. deserti/ڈی ڈیزرٹی بھی شامل ہیں۔
جغرافیائی حدود : (Geographical Range)
ششکار بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، تھائی لینڈ، پاکستان، کمبوڈیا، تبت، چین (گوانچی، گوانگ ڈونگ)، تائیوان اور انڈونیشیا (ایندا،فلورس، مشرقی جاوا، کموڈو اور لمبلن کے جزیروں) میں پایا جاتا ہے۔ فہرست میں اسکا علاقہ بھارت درج ہے۔ (1796) Russell کے مطابق خاص طور پر کارومنڈیل کے ساحلی علاقے میں اس کی موجودگی ملی۔ Brown/براؤن نے 1973 میں یہ ظاہر کیا کہ یہ ویتنام، لاؤس اور انڈونیشیا کے سماترا جزیرے پر پایا جاتا ہے۔ Ditmars (1937)/ ڈیٹمارز نے مبینہ طور پر سماترا سے ششکار کو پا بھی لیا۔ تاہم ان انڈونیشیائی جزیروں پر اس کی تقسیم ابھی بھی واضح کی جا رہی ہے۔ ششکار اپنی حدود میں کچھ علاقوں میں زیادہ ملتا ہے جبکہ کچھ میں بہت کم۔ بھارت میں یہ پنجاب میں بہت زیادہ، مغربی ساحلی اور اس کی پہاڑیوں کے ساتھ، جنوبی بھارت اور شمال سے بنگال تک عام ملتا ہے۔ گنگا کی وادی، شمالی بنگال اور آسام میں یہ عام نہیں ملتا یا بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ میانمار میں یہ بہت زیادہ تعداد میں موجود ہے۔ یہ تھائی لینڈ کے علاقوں Pattaya/ پٹایاء اور دیگر سیاحتی قصبوں میں بھی عام ملتا ہے جہاں اسکا مرکزی شکار چوہے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
مسکن : (Habitat)
D.Russelii کسی خاص مسکن تک محدود نہیں ہیں لیکن گہرے جنگلوں سے گریز کرتے ہیں۔ یہ سانپ زیادہ تر کھلے، ہرے بھرے اور جھاڑی دار علاقوں میں ملتے ہیں مگر کم گھنے جنگلوں، باغات اور کھیتوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ میدانوں، ساحلی میدانوں اور پہاڑیوں کے مناسب مسکن میں عام ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ بلندی پر نہیں پائے جاتے لیکن اس کے 2300 سے 3000 (7500-9800 فٹ) میٹر کی بلندی پر موجود ہونے کی اطلاعات ملتی ہیں۔ مرطوب علاقوں جیسا کہ دلدلی اور برساتی جنگلی علاقوں سے گریز کرتا ہے۔ یہ انوع اکثر زیادہ آبادی والے علاقوں اور دیہی علاقوں کی بستیوں میں پائی جاتی ہے کیوں کہ انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ یہاں کترنے والے جانوروں کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے نتیجتاً یہاں باہر کام کرنے والوں کے لیے سانپ کے کاٹنے کے خدشات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ انسانی مسکن کے ساتھ جس طرح ناجا (ناگ) اور Bungarus (کریٹ) انواع منسلک ہیں اس طرح D. Russelii نہیں ہے۔
جسمانی ساخت : (Physical Features)
ششکار کی لمبائی زیادہ سے زیادہ 166 سینٹی میٹر (5.5 فٹ) اور ایشیا کے خشک قطعات میں اوسطاً 120 سینٹی میٹر (4 فٹ) ہوتی ہے۔ جزیروں پر پائے جانے والے ششکار اوسطاً چھوٹے ہوتے ہیں اور باقی وائپرز کی نسبت پتلے بھی ہوتے ہیں۔
Ditmars/ڈیٹمارز نے 1937 میں معیاری جوان سانپ کے طول و عرض کے بارے میں ایک مندرجہ ذیل رپورٹ پیش کی۔
کل لمبائی : 4 فٹ، 1 انچ، 124 سینٹی میٹر
دم کی لمبائی : 7 انچ، 18 سینٹی میٹر
جسم کے درمیانی گھیراؤ کی چوڑائی : 6 انچ، 15 سینٹی میٹر
سر کی چوڑائی : 2 انچ، 5 سینٹی میٹر
سر کی لمبائی : 2 انچ، 5 سینٹی میٹر
سر اور چانے : (Head and Scales)
سر چپٹا، تکون اور گردن سے واضح ہوتا ہے۔ تھوتھنی کند، گول اور اُبھری ہوئی جب کہ نتھنے بڑے اور ششکار کے بڑے اور واحد چانے کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ ششکار کے چانے کا نچلا حصہ Nasorostral scale/نیسروسٹریل چانہ کے ساتھ اور اوپر کا چانہ ہلال کی شکل کا ہوتا ہے اور ششکار کے نیسروسٹریل چانہ کو پیچھے سے الگ کرتا ہے اور منقار کا چانہ اتنا ہی چوڑا ہوتا ہے جتنا کہ بڑا، سر کا اوپری حصہ بے قاعدہ اور چھوٹے چھوٹے چانوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔ آنکھ کے اوپری چانے پتلے،سنگل اور سر کے 6 تا 9 چانوں سے الگ ہوتے ہیں۔ آنکھیں بڑی، پیلے اور سنہری دھبوں والی اور 10 تا 15 آنکھوں کے چانوں سے گھری ہوتی ہیں۔ ہونٹ کے اوپری حصے میں 10 تا 12 چانے ہوتے ہیں جن میں سے چوتھا اور پانچواں نمایاں طور پر بڑا ہوتا ہے۔ آنکھوں کے نچلے چانوں کی تین یا چار تہیں آنکھ کو اوپری ہونٹ سے جدا کرتی ہیں۔ ٹھوڑی کی ڈھالوں کے دو جوڑوں میں سے سامنے والا جوڑا نمایاں طور پر بڑا ہوتا ہے۔ جبڑے کی دو ہڈیاں کم سے کم 2 جب کہ زیادہ سے زیادہ 5 تا 6 فینگ کے جوڑوں کو سہارا دیئے ہوتی ہیں۔ جن میں دو فعال اور باقی متبادل ہوتے ہیں۔ ایک متوسط سانپ میں فینگ کی لمبائی 16.5 ملی میٹر ہوتی ہے۔ ان کا جسم موٹا اور اس کا کراس سیکشن گولائی میں ہوتا ہے۔ جسم کے اوپری چانے مضبوطی سے پیچھے کی طرف مڑے ہوتے ہیں۔ صرف نچلی قطار ہموار اور ملائم ہوتی ہے۔ درمیانی جسم میں اوپری چانے 27 تا 33 اور نچلے جسم پر 153 تا 180 ہوتے ہیں۔ مقعد کی پلیٹ تقسیم نہیں ہوتی۔ دم چھوٹی ہوتی ہے جو کہ پورے جسم کا 14 فیصد ہوتی ہے اور اس پر 41 تا 68 چانے پائے جاتے ہیں۔ جسم کے اوپری حصے پر رنگوں کا نقشہ گہرے پیلے، بھورے مائل پیلے یا زمینی بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔ گہرے بھورے نشانوں کی 3 قطاریں سر سے دم تک پائی جاتی ہیں اور ہر نشان کے گرد سیاہ ہالہ ہوتا ہے اور ہر نشان کو سفید یا پیلے رنگ کا گھیرا زیادہ واضح کر رہا ہوتا ہے۔ اوپر والے یہ نشان جو کہ 23 تا 30 ہوتے ہیں ایک ساتھ جڑے ہوتے ہیں جبکہ اطراف میں یہ نشان دور دور پائے جاتے ہیں۔ سر میں ہر کنپٹی پر ایک ایک گہرا دھبہ گلابی، زردی مائل گلابی یا بھورے رنگ کے V یا X کے نشان کے ساتھ دکھائی دیتا ہے یہ نشان تھوتھنی کی چوٹی بناتا ہے۔ آنکھ کے پیچھے سفید، گلابی یا زردی مائل خاکستری رنگ کا ایک باریک بینڈ ہوتا ہے۔ پیٹ کا نچلا حصہ سفید، سفیدی مائل،زردی مائل یا گلابی مائل ہوتا ہے اور اس پر گہرے نشان بے قاعدگی سے بکھرے ہوتے ہیں۔
رویہ : (Behavior)
D. Russelii زمین پر رہنے والا سانپ ہے۔ یہ رات کو جاگ کر خوراک کی تلاش میں گھومنے والا فعال جانور ہے۔ تاہم ٹھنڈے موسم میں یہ اپنا رویہ تبدیل کرتا ہے اور دن کے وقت فعال ہو جاتا ہے۔ بالغ آہستہ اور سست پائے گئے ہیں جب تک کہ وہ عمر کی ایک مخصوص حد تک نہ پہنچ جائیں اس کے بعد ان کا رویہ کافی جارحانہ ہو جاتا ہے۔ نابالغ عام طور پر نروس ہوتے ہیں۔ ششکار خطرے کا سامنا ہوتے ہی اپنے جسم کو S شکل کے بہت سے خم دے لیتے ہیں، جسم کا پہلا ایک تہائی حصہ اٹھا لیتے ہیں اور اس وقت ان کی پھنکار (hiss) کی آواز کسی بھی سانپ کی پھنکار کی آواز سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس پوزیشن سے جب یہ کاٹتے ہیں تو اتنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ایک بڑا سانپ اس عمل میں اپنے بیشتر جسم کو زمین سے اوپر اٹھا سکتا ہے۔ یہ سانپ طاقتور ہوتے ہیں اور اگر انکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے تو شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ یا تو ایک دم کاٹ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں (snip bite) یا کچھ لمحوں تک کاٹے رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کے زہریلے غدود حرارت کی حساسیت رکھنے والے نہیں ہوتے جو کہ Crotalinae/کروٹالینا میں عام ہوتے ہیں۔ یہ اُن وائپرز میں سے ایک ہیں جو بظاہر حرارتی اشارے پر ردعمل دکھانے کے قابل ہوتے ہیں اس بات کا تصور دیتے ہوئے کہ یہ حرارت کی حساسیت کے زہریلے غدود رکھتے ہیں۔اس سینسر کی شناخت حتمی نہیں ہے لیکن ان سانپوں کے Supranasal بیگ دوسرے حرارتی حساسیت رکھنے والے اعضا سے مشابہت رکھتے ہیں۔
خوراک و شکار : (Diet and Predation)
ششکار کترنے والے جانوروں جبکہ زیادہ تر چھوٹے رینگنے والے جانور, زمینی کیکڑے, بچھو اور دوسرے حشرات کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ کم عمر ششکار Crepuscular/کریپاسکولر (نیم صبح اور نیم تاریکی/ دھندلاکے میں فعال رہنا) ہوتے ہیں جو کہ چھپکلیوں کو خوراک کا ذریعہ بناتے ہیں جبکہ بالغ ہونے پر یہ کترنے والے جانوروں کو کھاتے ہیں۔ چوہے اور چھپکلیاں(انکی خوراک) ان سانپوں کی انسانی رہائش گاہوں کی طرف رغبت کی بنیادی وجہ ہے۔
کم عمر ششکار کو Cannibalistic/نسبت پسند (اپنی ہی نوع کے دوسرے سانپوں کو کھانے والے) کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
عملِ تولید : (Reproduction)
مادہ Ovoviviparous (بیض حشرہ زا) ہوتی ہے، جو انڈوں کو پیٹ کے اندر سینے کے بعد بچے نِکالتی ہے۔ ان میں ملن سال کے شروع میں ہوتا ہے۔ حمل کا دورانیہ چھے مہینے سے زیادہ ہوتا ہے۔ مادہ مئی سے نومبر کے مہینوں میں بچے دیتی ہے جبکہ زیادہ تر بچے جون اور جولائی کے مہینوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
ششکار (رسل وائپر) زیادہ بچے پیدا کرنے والی سانپوں کی انوع/قسم ہے جسکی مادہ ایک وقت میں 40-20 بچے دیتی ہے۔جبکہ بعض مادہ کم بچے بھی پیدا کرتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مادہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 75 بچے پیدا کرسکتی ہے۔ پیدائش کے وقت بچوں کی لمبائی 260-215 ملی میٹر (10.2-8.5انچ) ہوتی ہے جبکہ حاملہ مادہ سانپ کی لمبائی کم سے کم 100 سینٹی میٹر (39انچ) ہوتی ہے۔ ان سانپوں کی مادہ 3-2 سال کی عمر میں بچے دینے کے قابل ہوجاتی ہیں۔ ایک کیس کے مطابق مادہ (ششکار ) نے 4.5 گھنٹے میں 11 بچوں کو جنم دیا۔
مشابہ انوع : (Mimic Species)
کچھ ہرپیٹالوجسٹ کا یہ ماننا ہے کہ ششکار ایک کامیاب انوع ہونے اور قدرتی ماحول میں خوفناک/ ہیبت ناک ساکھ ہونے کی وجہ سے دوسرے سانپ (جو اسکی نوع/قسم کے نہیں) اسکی ساخت/ شکل کی نقل کرتے ہیں۔ سطحی طور پر چتری دومونہی سانپ/Rough scaled sand boa کا رنگ پیٹرن ششکار سے کافی حد تک ملتا جلتا ہے جبکہ یہ ایک غیر زہریلا بے ضرر سانپ ہے۔
زہر : (Venom)
ششکار کے انفرادی نمونوں سے پیدا ہونے والی زہر کی مقدار قابل غور ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بالغ ششکار کے نمونے سے حاصل ہونے والی زہر کی مقدار 250-130 ملی گرام سے لیکر 250-150 ملی گرام ہے۔
کم عمر 13 ششکار جنکی لمبائی 73 سینٹی میٹر تھی سے حاصل ہونے والی زہر کی اوسطً پیداوار 79-8 ملی گرام تھی۔ چوہوں میں انٹراوینس ایل ڈی 50 (LD50) مقدار تقریباً 0.113 ملی گرام/ کلو گرام, انٹراپیریٹونیل تقریباً 0.40 ملی گرام/ کلو گرام اور سبکیوٹینس تقریباً 0.75 ملی گرام/ کلو گرام جو سانپوں کے زہر کے مہلک ہونے کا ممکنہ مظہر ہے۔ جبکہ انسانوں میں اسکی مہلک مقدار 70-40 ملی گرام ہے۔ عام طور پر زہر کا اثر اور مہلک ہونے کا انحصار زہر کے پانچ مختلف مرکبات کے ملنے پر ہے جو علیحدہ علیحدہ کرنے پر کم مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ انسانوں میں زہر کے مہلک اور کاٹنے کی علامات مختلف آبادیوں اور وقت کے ساتھ مختلف ہیں۔
زہر کا اثر : (Effect of Venom)
زہر کے اثر کی علامات کاٹنے کی جگہ پر درد کے ساتھ شروع ہوتی ہے جس کے بعد متاثرہ جگہ سوج جاتی ہے اور مسوڑھوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ عام علامات میں سے ہے۔ کاٹنے کے بیس منٹ کے اندر اندر تھوک میں بھی خون ظاہر ہوجانے لگ جاتا ہے اور دل کی دھڑکن اور بلڈپریشر کم ہو جاتا ہے اور متاثرہ جگہ پر چھالے بننا شروع ہوجاتے ہیں جبکہ ایک تہائی (1/3) لوگوں میں قے اور چہرے کی سوجن جیسی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ بروقت علاج نہ ہونے پر 30-20 فیصد لوگوں کے گردے فیل ہوجاتے ہیں۔ نیکروسیس/Necrosis (جسم کے عضو یا ٹشو میں زیادہ تر یا تمام خلیوں کی موت)سطحی طور پر متاثرہ جگہ کے پٹھوں تک ہی محدود رہتی ہے جبکہ بعض میں شدید ہوجاتی ہے۔
زہر کی زیادہ مقدار کی صورت میں شریانوں میں خون جمنا شروع ہوجاتا ہے۔ ابتدائی طبی علاج اور اینٹی وینم تک جلد رسائی شدید ممکنہ مہلک پیچیدگیاں پیدا ہونے کے امکان کو کم کرتی ہیں۔
ششکار کے ڈسے ہوئے لوگوں میں ٹشو تباہ ہونے کی وجہ سے شدید درد 4-2 ہفتوں تک رہتا ہے۔ زیادہ سوجن 72-48 گھنٹوں کے دوران متاثرہ ٹانگ اور ٹرنک (کندھے سے لے کر کولہوں کے اوپر تک کا حصہ) میں شروع ہوتی ہے اور اگر trunk/ٹرنک میں سوجن 1 گھنٹے میں شروع ہو جائے تو اسکا مطلب ہے کہ متاثرہ شخص میں زہر کی کافی زیادہ مقدار داخل ہوئی ہے۔ پلازما اور خون کے سرخ ذرات پٹھوں کے ٹشو میں جانا شروع ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے سوجن والے حصے کا رنگ بدلنا شروع ہوجاتا ہے اور زہر پھیلنے کی وجہ سے 14-1 دنوں میں نظامِ تنفس اور دل فیل ہوجاتا ہے۔ لینسٹ میں ہونے والے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ 29 فیصد ششکار سے ڈسے ہوئے زندہ بچ جانے والے لوگوں میں زہر کے زیرِ اثر پٹیوٹری گلینڈ (pituitary gland) کو شدید نقصان پہنچا اور ہائیپوپٹریزم (Hypopituitarism) ہوا۔ دیگر سائنسی مطالعات اس قیاس کی تائید کرتے ہیں کہ ششکار کے کاٹنے سے Hypopituitarism (پٹیوٹری غدود کے ذریعہ ہارمون کے اخراج میں کمی، بچوں میں بونے اور بڑوں میں قبل از وقت عمر بڑھنے کا باعث بنتی ہے) ہوتا ہے۔
اینٹی وینوم : (Anti-Venom)
ششکار کے زہر کے لیئے ہندوستان میں ہیفکن انسٹیٹیوٹ کی تیار کردہ اینٹی وینوم استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ نومبر 2016 میں کوسٹاریکا کلوڈومیرو انسٹیٹیوٹ اور سری لنکا میں کلینیکل ٹرائل کے ذریعہ ایک نیا اینٹی وینوم تیار کیا گیا ہے۔
زہر کا سائنسی استعمال: Biological use of Venom
اسکا زہر Thrombosis (شریان میں خون جمنا) کے لیے بہت موثر ہے لہذا اسے خون جمنے کے اِن وٹرو تشخیصی ٹیسٹ میں شامل کیا گیا ہے جو کہ ہسپتال کی لیبارٹریوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو dRVVT (ڈائیلیوٹ رسل وائپر وینوم ٹائم) کہا جاتا ہے۔ زہر میں پائے جانے والے coagulants فیکٹر x/زہر کو جمانے والے عنصر (X)کو برائے راست متحرک کرتے ہیں اور عنصر (V) اور فاسفو لیپڈ کی موجودگی prothrombin/پروتھرومبن کو thrombin/تھرومبنمیں تبدیل کر دیتی ہے، یعنی خون کو جما دیتی ہے۔ قوتِ مدافعت کی بیماری Lupus Anticoagulant/ لوپس اینٹی کوگولینٹ(خون کا جم جانا) کی تشخیص کے لیئے dRVVT ٹیسٹ aPTT ٹیسٹ کی نسبت زیادہ موثر ہے کیونکہ اس پر خون جمنے کے عناصر X,IX اور VII کی کمی اثر انداز نہیں ہوتی۔
ماحولیاتی کردار : (Ecological roles)
یہ سانپ کترنے والے جانوروں کو کھا کر فصلوں کو تباہی سے بچاتے ہیں۔ یہ چوہے کھا کر ہر سال 1 میٹرک ٹن فصلوں کی پیداوار کی حفاظت کرتے ہیں۔ ششکار سانپ ہندوستان میں سب سے زیادہ چوہوں کی آبادی کو قابو کرتے ہیں۔ اندازے کیمطابق 50،000 ششکار سانپ ہر سال 7 ملین فصلوں کو تباہ کرنے والے چوہے کھاتے ہیں۔ اتنی ہی چوہوں کی آبادی ہر سال تقریبا 1 میٹرک ٹن فصلوں کی پیداوار کو ختم کرتی ہے۔ ششکار سانپ کا کردار ماں کی فطرت کا حسابی مساوات ہے کیونکہ یہ ہمارے لیئے بلا معاوضہ محنت مزدوری کرتا ہے۔ کسانوں کو ان تیزی سے بڑھتے ہوئے چوہوں کو قابو کرنے کے لئے بیرونی زہر فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عام طور پر چوہا ہر سال 50 سے زیادہ بچوں کو جنم دیتے ہیں اور 10-10 ہفتوں کے اندر جوان تولیدی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ششکار قومی جی ڈی پی میں براہ راست حصہ ڈالتا ہے اور ہمیں غذائی قلت سے بچاتا ہے۔
خطرات و بچاؤ : Threats and Conservation
میانمار میں اسکی کھال تجارت میں استعمال ہوتی ہے اور مارکیٹ میں اس انوع کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ کم از کم قومی سطح پر ، اس سانپ کے لئے ایک بڑے خطرہ کی نمائندگی کرنے کے لئے استحصال کی سطحیں شاید اتنی زیادہ ہیں کہ اس سانپ کو بھی اپنی حدود میں بہت زیادہ ستایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تجارت میں
جو سانپ فروخت نہیں ہو سکتے وہ مار دیے جاتے ہیں
اور اسطرح سے انکی تھائی آبادی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے وسیع علاقوں میں ہوتے ہیں۔ اگر مقامی فصلوں کی کٹائی کی سطح میں پائیداری نہ ہو تو قومی آبپاشیوں کو خاص طور پر خطرہ بنادیتی ہے۔ یہ سانپ چین میں (کھانے اور کھالوں کے لئے جمع کرنے اور ظلم و ستم دونوں سے مشروط ہے
آئی-یو۔سی۔این (IUCN) میں انکا سٹیٹس(Least concern) ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ انکی آبادی کو ابھی دنیا بھر میں ممکنہ خطرہ نہیں ہے۔ لیکن جسں طرح سے انکا استعمال ہو رہا ہے جلد ہی انہیں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اسکے علاوہ دوسری اقسام کے بڑے سانپ، شکاری پرندے حتیٰ کے بڑے مینڈک ان ششکار سانپوں کے بچوں کو کھا جاتے ہیں۔
حفاظتی انتظامات : (Safety Measures)
اس سانپ کے خطرناک اور جان لیوا حملے سے بچنے کے لیے عام عوام مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔
1۔ اردگرد کے ماحول کو کوڑا کرکٹ سے صاف رکھیں۔
2۔ گھروں کو چوہوں اور دوسرے کتر کر کھانے والے جانوروں سے پاک رکھیں۔
3۔ گھر کے قریبی ایریا میں موجود کچرے کو متعلقہ صفاٸی والے محکمے سے صاف کرائیں۔
4۔ گھر کے قریب موجود تمام چوہوں کے سوراخوں کو بند رکھیں۔
5۔ اپنے باغیچےکی صفائی کو اچھی طرح سے برقرار رکھیں
گملوں کو دیوار سے ایک فٹ کے فاصلے پر رکھیں۔
6۔ اگر آپ رات کوکسی بھی کام کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکل رہے ہیں تو پورچ/برآمدہ کی لائٹس آن کر لیں۔
7۔ جب استعمال میں نہ ہوں تو کموڈ کے ڈھکن اور ٹوائلٹ کے دروازے بند رکھیں۔
8۔ گٹروں کے ڈھکن اچھے سے بند رکھیں اورکھلے گٹروں کو مناسب طور پہ بند کرائیں۔
9۔ نکاسی کے پائپ کو جالی سے اس طرح سے بند رکھیں کہ
سیوریج باہر آسکے لیکن سانپ اندر نہ جاسکے۔
10۔ سانپ ، اور جنگلی جانور نظر آنے کی صورت میں ریسکیو 1122 والوں کو فوراً فون کریں۔
11۔ اگر خدانخواستہ کوٸی سانپ یا موذی جانور کاٹ لے یا ڈنگ مار لے تو، جادو اور دم کروانے کے چکروں میں وقت ضاٸع مت کریں۔ علاج کے لیے فوراً قریبی بڑے ہسپتال پہنچیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...