وہ ہے دانش کا بحران، میری کتاب 'تعلیم او رہماری قومی الجھنیں' کے آخری باب میں اسے کچھ ایسے افسانوی اور ڈرامائی انداز سے لکھا ہے۔۔
اگر ہم نے اس بنیادی سوال کو ایڈریس نہ کیا۔۔ تو ہم بھٹکتے رہیں گے
' کیا ایسے پس منظر میں ہمارے خطے کو ایک نیٹشے کی ضرورت نہیںجو ایسے پاگل آدمی کا کریکٹر ادا کرسکے جو کسی روشن صبح کے وقت لالٹین جلائے لوگوں سے بھرے بازار میں چلاتا پھرے، " مجھے عقل کی تلاش ہے، مجھے دانش کی تلاش ہے، " ظاہر ہےجو عقل پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لئے یہ منظر باعث تمسخر ہوگا، ایک آدمی نے کہا، ' کیوں بھی عقل گم ہو گئی؟ کیا وہ کسی بچے کی طرح راہ بھول گئی ہے، دوسرے نے کہا، 'کیا عقل نے خود کو چھپا لیا ہے، ' کیا وہ ہم سے خوف زدہ ہے؟ کیا وہ بحری سفر پر نہیں نکل گئی؟ کیا وہ ہجرت کرگئی ہے؟ لوگ قہقہے مار کر آوازے کس رہے ہیں۔ پاگل آدمی چھلانگ لگا کر ان کے بیچ آن کھڑا ہوتا ہے۔۔ لوگوں کی آنکھوں میں اپنی نظریں گاڑ کر کہتا ہے، ' دانش کہاں چلی گئی۔ ' وہ چلایا میرے کہنے کا مطلب ہے، ہم نے اسے مار دیا ہے۔ تم نے اور میں نے، "دانش کہاں چلی گئی" وہ پاگل چلایا، میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم سب نے اسے مار دیا ہے۔ تم نے اور میں نے، ہم سب اس کے قاتل ہیں۔ لیکن یہ کیسے ہوا، ہم یہ سمندر پی جانے کے قابل کیسے ہوئے، زمین کو سورج سے چھڑا کر ہم نے کیا کیا، کیا اب ہم ہمیشہ کے لئے ٹکراتے نہ پھریں گے۔ آگے پیچھے، ادھر ادھر سب اطراف میں؟ کیا ہم لامحدود نیستی میں کھو تو نہیں گے؟ کیا ایک خالی مکان ہمارے اوپر تو نہیں رہ گیا؟ کیا رات تاریک سے تاریک تر تو نہیں ہوتی جارہی ؟ کیا ہمیں صبح کے وقت بھی لالٹین تو نہیں جلانی پڑے گی؟ کیا ہمیں گورکنوں کی آوازیں تو نہیں سنائی دے رہی؟ جو دانش کو دفن کر رہے ہیں؟ کیا ہم بد بو نہیں سونگھ رہے عقل کے گلنے سڑنے کی؟
دانش مر گئی ہے، دانش مری ہوئی ہے، ہم سے بڑا قاتل کوئی اور نہیں ہو گزرا، جسے دنیا آج تک مقدس ترین اور طاقت ور ترین (انسانی عقل) سمجھتی تھی، وہی ہماری چھری کے نیچے خون سے لت پت پڑا ہے۔ خون کے یہ دھبے کتنی برساتوں کے بعد دھلے گیں۔ وہ پانی کہاں سے آئے گا، جس سے ہم اپنا دامن صاف کرسکین گے؟ ٰیہاں پر پاگل خاموش ہو جاتا ہے۔ سننے والے سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ اسے حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ آخر کار وہ اپنی لالٹین کو زمین پر دے مارتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہین۔ اور وہ بجھ جاتی ہے۔ "میں جلدی میں آ گیا ہوں، میرے لئے یہ وقت ابھی مناسب نہیں ہے"
یہ حیران کون واقعہ ابھی راہ پر ہے، اور سفر کررہا ہے۔ ، کہتے ہیں، اس روز وہ پاگل کئی دانش کدوں اور علم و ادب کے مراکز میں پھرا، اور اپنا ماتمی گیت گاتا رہا۔ اور پاگل جان کر اسے باہر دھکیل دیا جاتا، تو وہ ہر بار یہی کہتا، " یہ عمارتیں دانش کے مزاروں اور علم کے عجائب گھروں کے سوا اورکیا ہیں؟
“