1976کےوسط میںPPکی انتخابی مہم شروع ہوچکی تھی۔نمایاں سیاسی شخصیاتPPمیں شامل ہورہی تھیں۔ان میں وڈیرے,بزنس مین اورعلماءسبھی شامل تھے۔4جنوری1977میں بھٹوصاحب نےسہیون میں طلائی دروازےکاافتتاح کیا۔7جنوری1977کو قومی اسمبلی کےاجلاس میں بھٹوصاحب نےنئےانتخاب کااعلان کیا۔
بھٹوحکومت کی مدت اگست1977میں پوری ہونی تھی۔ایمرجنسی صورتحال کا سہارالیکروہ ایک سال کیلئےانتخاب ملتوی کرسکتےتھے۔مگرانہوں نےایسانہیں کیا۔الیکشن سےبھٹوصاحب نےایک الیکشن سیل تشکیل دیا۔جس کامقصد پی۔پی کی الیکشن مہم کوترتیب دینا اورفتح سے ہمکنارکرنا تھا۔سیل کےانچارج رفیع رضا تھے۔
7جنوری1977کواسمبلی اجلاس میں قراردادمنظورکی گئی۔جسکےتحت چیف الیکشن کمشنرجسٹس سجاداحمدکی مدت ملازمت میں3سال کی توسیع کی گئی۔10جنوری1977کواپوزیشن راہنماؤں کااجلاس رفیق باجوہ کےگھرہوا۔جس میں متحدہوکرالیکشن لڑنےپراتفاق ہوا۔PPکی کوشش تھی اصغرخان متحدہ اپوزیشن اتحادکےسربراہ نہ بن سکیں۔
اپوزیشن اتحادنےمفتی محمودکوصدراور رفیق باجوہ کوجنرل سیکرٹری مقررکیاگیا۔رفیق باجوہ کاتعلقJUPسےتھا۔جواصغر خان کی اتحادی جماعت تھی۔اپوزیشن اتحادکااعلان ہوتےہی صورتحال بدل گئی۔قیوم لیگ نے پی۔پی کی الیکشن تجاویز ماننےسےانکارکردیا۔جسکی وجہ سےبھٹونے خان قیوم اوریوسف خٹک سےاستعفی لےلیا۔
10جنوری1977کوالیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کااعلان کیا۔قومی اسمبلی کاانتخاب7مارچ اورصوبائی اسمبلی کےانتخاب10مارچ کوکروانےکااعلان ہوا۔کاغذات جمع کی تارخ19جنوری,جانچ پڑتال21جنوری اورواپس لینےکی تاریخ29 جنوری قرارپائی۔17جنوری1977کوسیاسی جماعتوں کوانتخابی نشانات الاٹ کئےگئے۔
پی۔پی کوتلواراورPNAکوہل کا نشان الاٹ ہوا۔PPکےحفیظ پیرزادہ نےاعتراض کیا۔انکےمطابق اتحادمیں9مختلف جماعتیں شامل ہیں۔جنکی الگ شناخت ہے۔اس لئےایک نشان الاٹ نہیں ہوسکتا۔20جنوری کوالیکشن کمیشن نےسماعت کی تاریخ مقررکی۔مگربھٹونےبطورچیف ایگزیکٹواختیاراستعمال کرتےہوئےاسکی منظوری دی۔
اپوزیشن جماعتوں کوایک نشان الاٹ کرنا بھٹوکی سیاسی غلطی ثابت ہوا۔19 جنوری1977کوبھٹوصاحب لاڑکانہ پہنچے۔انکےکاغذات نامزدگی منورعباسی نےجمع کروائے۔منورعباسی بھٹوکےجانثارساتھی تھے۔بھٹوصاحب کےکاغذات نامزدگی کےبعدانکےمخالف امیدوارجان عباسی کوکاعذات جمع کروانے سےروکنےکیلئےاغواءکرلیاگیا۔
پPPکےپہلےبلامقابلہ کامیاب امیدوار سلطان چانڈیوصاحب تھے۔جوپاکستان کے سب سےبڑےزمیندارسمجھےجاتےتھے۔وہ حلقہ164لاڑکانہ سےکامیاب قرارپائےتھے۔اسکےبعدبھٹوصاحب,طالب المولی,ممتاز بھٹوسمیت15امیدوارکامیاب قرارپائے۔اسکےبعدصوبائی وزرائےاعلی نےیہ رسم نبھائی۔اس کوشش سےبھٹوصاحب کاامییج خراب ہوا۔
الیکشن سےپہلےPPکے19امیدوارقومی اسمبلی بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔جن میں 15سندھ اور4بلوچستان سےتھے۔صوبائی اسمبلی سندھ کے26اوربلوچستان اسمبلی کے22اراکین بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔PPنےتمام200سیٹوں پرامیدوارکھڑے کئے۔جن میں اکثریت نے1976میں شمولیت اختیارکی۔اپوزیشن نے169سیٹوں پرامیدوارکھڑےکئے۔
23جنوری1977کوانتخابی مہم شروع ہوئی۔اپوزیشن نےنشترپارک کراچی اورPP نےلیاقت باغ پنڈی سےآغازکیا۔فروری میں PPنےمختلف ہفتےمنانےکاسلسلہ شروع کیا۔فروری میں افواج پاکستان کاہفتہ بھی منایا گیا۔جس میں انکوخراج تحسین پیش کیاگیا۔تمام جائزبتاتےتھےPPجیت جائےگی۔مگربھٹو2/3اکثریت چاھتےتھے۔
7مارچ1977کوالیکشن ہوئے۔شام کو جونتائج آئے۔ان میںPPنے155سیٹوں پرکامیابی حاصل کی۔اپوزیشن36سیٹیں جیت سکی۔8مارچ کواپوزیشن راہنماؤں کااجلاس ہوا۔اپوزیشن نےدھاندلی کےالزامات پرصوبائی اسمبلیوں کےانتخابات کابائیکاٹ کردیا۔10مارچ کوصوبائی اسمبلیوں کےالیکشن ہوئے۔PPکو%100کامیابی حاصل ہوئی۔
21مارچ1971کوالیکشن کمیشن نےنتائج کااعلان کیا۔صدرفضل الہی نے26مارچ کواسمبلی کااجلاس طلب کیا۔26مارچ کےاجلاس میں161اراکین نےحلف اٹھایا۔28مارچ کوقومی اسمبلی نےبھٹوکو وزیراعظم منتخب کیا۔بھٹوصاحب نےاعلان کیاکہ اسمبلی کومدت سےپہلےنہیں توڑاجائےگا۔30مارچ کو21رکنی کابینہ نےحلف اٹھالیا۔
30مارچ کوسندھ,3اپریل کوبلوچستان,6اپریل کوخیبرپختونخواہ اور9اپریل کوپنجاب کی صوبائی اسمبلی کااجلاس طلب کیاگیا۔اس دوران اپوزیشن راہنماؤں کوگرفتارکرلیاگیا۔9اپریل کوپنجاب اسمبلی کےاجلاس کےموقع پراپوزیشن نےزبردست احتجاج کیا۔جس پرپولیس نےگولی چلائی۔اسکےبعدحالات خراب ہوناشروع ہوئے۔
لاھورمیں فائرنگ واقعےکےبعدPPکےکئی راہنماؤں نےاستعفی دینےشروع کردیئے۔12 اپریل کوقصورسےرکن اسمبلی آصف احمد علی نےاستعفی دیا۔اسکےپنجاب کابینہ اور اسمبلی سےاعتزازاحسن نےاستعفی دیا۔13 اپریل کوحفیظ کارداراورمبشرحسن نےاستعفی دیا۔اسکےبعداستعفوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔
اپریل میںPNAکی بڑھتی تحریک کوروکنے کیلئےیحیی بختیارنےنیافارمولہ ہیش کیا۔جس کےمطابق صوبائی اسمبلیوں کےالیکشن دوبارہ کروائےجائیں۔اپوزیشن جیت جائےتوقومی اسمبلی کےانتخاب بھی دوبارہ کروائےجائیں۔مگرانکی تجویزرد کردی گئی۔155اپریل کوملک گیرہڑتال کی گئی۔جوکامیاب ہوئی۔
15اپریل کوبھٹونےمودودی سےملاقات کی۔جوشب9بجےتک جاری رہی۔انہوں نےبھٹوکودوبارہ انتخاب کروانےکامشورہ دیا۔17اپریل کوبھٹونےاسلامی نظام نافذکرنےکااعلان کیا۔یہ بلزاسمبلی سےپاس ہوگئے۔نائٹ کلبز,شراب اورجوئےپرپابندی عائدہوئی۔جمعہ کی چھٹی کااعلان ہوا۔اسکےبعدتحریک اسلامی نظام کی طرف چل پڑی۔
23اپریل کوبھٹونےمفتی محمودسےملاقات کی۔جواڑھائی گھنٹےجاری رہی۔بھٹونےدوبارہ الیکشن کروانےپررضامندی کااظہارکیا۔اس دوران کراچی اورحیدرآباد میں مارشل لانافذکیاگیا۔27اپریل کوسینٹ نےبل منظورکیا۔جس میں سول انتظامیہ کوکرفیولگانےاورفوج طلب کرنےوسیع اختیارات دیئےگئے۔اسےمنی مارشل لاکہاگیا۔
منی مارشل لاکےاقدام کوملک غلام جیلانی(والدعاصمہ جہانگیر)نےلاھورہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔5رکنی بینچ جس میں جسٹس اسلم ریاض حسین,کرم الہی چوھان,شمیم قادری,زکی الدین پال اورجاویداقبال شامل تھےنےمارشل لاکوغیرقانونی قراردیا۔اسی اقدام کونیازاحمدایڈوکیٹ نےسندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔
بھٹوصاحب اگرلاھوراورکراچی ہائیکورٹ کافیصلہ مان لیتےتوشایدمارشل لانہ لگتا۔مگرانکےوکیل یحیی بختیارنےسپریم کورٹ میں اپیل دائرکردی۔اس اپیل کی سماعت جاری تھی کہ ضیاکااندھیرآگیا۔27اپریل کوفوجی سربراہوں نےاعلامیہ جاری کیا۔جس میں کہاگیاکہ فوج موجودہ حکومت کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
28اپریل کوبھٹوصاحب نےاسمبلی میں مشہورتقریرکی۔جس میں"party is not over"کاجملہ تخلیق ہوا۔بھٹونےامریکہ کوصورتحال کاذمہ دارقراردیا۔اس تقریرپرامریکی سفارتخانےنےاحتجاج کیا۔30اپریل کوبھٹوپنڈی میں بغیرپروٹوکول آئے۔وہاں خطاب کیا۔امریکی وزیرخارجہ کاخط لہرایا۔جس میں مذاکرات کی دعوت دی گئی۔
30اپریل کوبھٹونےپیرپگارااور2مئی کومفتی محمودسےملاقات کی۔15مئی کواپوزیشن راہنماؤں کوگرفتارکیاگیا۔اس دقران حکومت کیخالف کرنسی نوٹ پرنعرےلکھےجانےلگے۔یہ طریقہ مشہور ہوگیا۔تحریک کواشتعال دلانےکیلئےاصغرخان اورجمیعت علمائےپاکستان کےعلماءپیش پیش تھے۔3جون کوباقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے۔
25اپریل کوبھٹونےفوجی قیادت کااجلاس طلب کیا۔جس میں جنرل ضیانےکھڑےہوکر سینےپرہاتھ رکھ کربھٹوکووفاداری کایقین دلایا۔یکم جولائی کوجنرل ضیانےاپوزیشن اورحکومتی راہنماؤں کوبریفنگ دی۔بلوچستان سےفوج بلانےاورحیدرآبادٹریبیونل کوختم کرنےکونامناسب قراردیا۔بعدازاں یہی کام انہوں نےخودکئے۔
یکم مئی1977کومذاکرات کامیاب ہوئے۔حتمی مسودےکیلئےکمیٹی تشکیل دی گئی۔جس میں طےپایاکہ اسمبلیاں15جولائی کوتحلیل ہونگی۔6اکتوبرکوالیکشن ہونگے۔یہ مسودہ لیکرجب مفتی محموداورغفوراحمد اپوزیشن کےپاس آئےتواصغرخان نےان پرغصےکااظہارکیا۔انہوں نےمعاہدےکومنظورکرنےسےانکارکیا۔نئی ڈیمانڈز پیش کیں۔
بیگم نسم ولی نےمفتی محمودکوکہاکہ وہ مارشل لگنےدیں۔90دن میں الیکشن ہوجائیں گے۔مفتی محمودکاموقف تھاکہ جنرلز جھوٹ بولتےہیں۔اگربھٹوکوکچھ نہ ملا توہم بھی خالی رھیں گے۔اس دوران سردار ابراھیم کوثرنیازی کےپاس پہنچےانکوبتایااپوزیشن فوج سےرابطےمیں ہے۔انکی باتیں مان لیں۔یہ 3جولائی کاقصہ ہے۔
19اپریل کواپوزیشن کاجلوس کوئینزروڈسےگزررہاتھا۔جلوس امریکن سنٹرکےقریب پہنچاتوUSISکےانچارج کرسٹوفرایل شلزپاکستانی سٹاف ممبرکیساتھ چھت پرکھڑےتھے۔جلوس نےانکودیکھ کارٹرزندہ باد کےنعرے لگائے۔جس کاشلزنےہاتھ ہلاکرجواب دیا۔لاھورکےامریکی قونصلیٹ جنرل کی مودودی اورعبیداللہ انورسےیارانہ تھا۔
لاھورکاقونصلیٹ جنرل جین این گبن تھا۔21اپریل کواس نےاسلام آبادمیں امریکی سفارتخانےکےچیف پولیٹیکل آفیسرہاورڈ بی شیفرکوپیغام بھیجاتھا"the party is over."جواب میں بھٹونےکہاتھا"the party is not over."تحریک میں ہتھیارڈالنےوالےجنرلزکومردغازی قراردیکرجلسوں میں خطاب کیلئےبلایاجاتا۔
اس تحریک کاایک فائدہ ہواکےاوپن مارکٹ میں 7روپےہوگیا۔اسکی وجہ ڈالرکی فراوانی بتائی گئی۔بھٹوکیخلاف اذانیں دینےوالےموزنوں کو15روپےفی اذان دینےکاانکشاف ہوا۔جماعت اسلامی کےایک راہنماکو30لاکھ روپےکادیاگیاچیک بھی پکڑاگیا۔امریکی سفیراورآرمی چیف کے"the last supper"نےملک کےمقدرکافیصلہ کیا۔