برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں نعروں کی اپنی اہمیت رہی ہے ۔عوام اپنے جذبات ، نفرت اور سیاسی قائدین سے محبت کا اظہار نعروں میں کرتے ہیں ۔نعرہ جتنا فلک شگاف ہوگا اس میں جتنی شدت ہوگی محبت اور نفرت بھی اتنی ہی ہوگی۔ایسے نعرے جن سے عوام کے جذبات کو ابھارا جائے ایک عوامی رائے عامہ بنائی جاسکے ہمیشہ پسند کیئے جاتے ہیں۔کچھ نعرے مختصر ہونے کے باوجود اتنے مکمل ہوتے ہیں کہ ان میں پورا ایک سیاسی فلسفہ بیان ہوجاتا ہے پارٹی کا منشور چھپا ہوتا ہے مطلب نعرہ وہ کوزہ ہے جس میں سیاست کا دریا بند ہوتا ہے ۔
تحریک پاکستان کا مرحلہ جب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک ہی نعرہ زبان زد عام تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ اللہ۔اس کے علاوہ ایک نعرہ لے کے رہیں گے پاکستان ۔۔ بن کے رہے گا پاکستان گلی محلوں میں گونجتا رہتا۔ان ہی دنوں میں دہلی کی گلیوں میں ہندو نعرہ لگاتے کہ جس طرح چڑیوں کو نخلستان مل سکتا نہیں ، اسی طرح مسلم کو پاکستان مل سکتا نہیں اور جواب میں مسلمان نعرہ لگاتے کہ موت ٹل سکتی ہے ،، پاکستان ٹل سکتا نہیں۔
پاکستان بن گیا اس کے بعد ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کے لیئے نئے نعرے تخلیق ہوئے ۔ان نعروں کی بدولت سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئیں سیاسی رہنماوں کو تاج و تخت ملے مگر نعرہ لگانے والوں کے حالات نہیں بدلے۔ کل جن کے اجداد نعرے لگا رہے تھے آج ان کی اولادیں فلک شگاف نعرے لگا رہی ہیں اور شائد ان کی آنے والی نسلیں بھی اسی طرح نعرے لگائیں گی۔لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے۔
جنرل ایوب خان اور محترم فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی الیکشن کا میدان سجا تو محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین جبکہ جنرل ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا۔ایسے میں محترمہ فاطمہ جناح کے سپورٹرز نعرہ لگاتے کہ ایک شمع جلی جل جانے کو ،، ایک پھول کھلا مرجھانے کو اور اس کے جواب میں ایوب خان کے سپورٹر نعرہ لگاتے کہ ملت کا محبوب ، ایوب ایوب ۔۔ صدر ہو کون ۔۔ ایوب ایوب۔صدارتی الیکشن ہوئے اور جمہوریت کی لالٹین بجھ گئی اور پھول تروتازہ رہا۔
1970 کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے نعرے روٹی ، کپڑا اور مکان کو بے پناہ مقبولیت ملی۔اسی طرح اسلام ہمارا مذہب ، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام بھی مقبول ہوئے ۔پارٹی ورکرز میں نعرہ دنیا تیرے نال ، بھٹو جئے ہزاروں سال کافی مقبول تھا۔ان ہی انتخابات میں جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو پر پیپلزپارٹی کے ورکرز نعرہ لگاتے کہ جھک گئی گردن کٹ گیا بازو،،ہائے ترازو ہائے ترازو اور اسکے جواب میں جماعت کے ورکرز نعرہ لگاتے کہ لاو ترازو تول کے دیکھو ، ساڈا پلہ بھاری ہے۔ان الیکشن میں جمعیت علمائے پاکستان کا انتخابی نشان چابی تھا اور اس کے ورکر نعرہ لگاتے کہ چابی جنت کا تالاکھولے گی۔اور حق وصداقت کی نشانی شاہ احمد نورانی۔
1977کے انتخابات میں پی این اے کا نعرہ گنجے کے سرپر ہل چلے گا ،، گنجا سرکے بل چلے گا اور انتخابی نشان ہل پر نعرہ لگتا کہ ہل نے مچادی ہلچل ہلچل۔اس کے بعد ضیاالحق کا مارشل لا لگ گیا تو سیاسی ورکر نعرہ لگاتے کہ نہ ہل آیا نا آئی تلوار ،، آگئی مونچھاں والی سرکار۔یہی نہیں بلکہ کچھ من چلے لاہور کی سڑکوں پر بھی سرمے والی سرکار لکھتے کیونکہ ضیاالحق آنکھوں میں سرمہ لگاتا تھا ۔19دسمبر 1984 کو ضیا الحق کا صدارتی ریفرنڈم ہوا سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی نے اس کا بائیکاٹ کیا۔عوام کی واضح اکژیت گھروں میں رہی پھر بھی ریفرنڈم کا فیصلہ ضیاالحق کے حق میں نکلا اس پر حبیب جالب نے کہا کہ شہر میں ہو کا عالم تھا ، جن تھا یا ریفرنڈم تھا۔اور ضیاالحق کے حامی نعرہ مستانہ لگاتے کہ مرد مومن مرد حق ،، ضیا الحق ضیاالحق اور پیپلزپارٹی کے ورکر شہرہ آفاق نعرہ لگاتے کہ بھٹو ہم شرمندہ ہیں ،، تیرے قاتل زندہ ہیں۔
1986 میں محترمہ نے نظیر بھٹوجب لاہور آئیں تو بے نظیر آئی ہے انقلاب لائی ہے اور جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا کے نعرے لگے۔جیالے فلک شگاف نعرے لگاتے کہ نہ جھکنے والی بے نظیر ، نہ بکنے والی بے نظیر اور ضیا جاوے ہی جاوے اور ضیاالحق کے خلاف یہ نعرہ بھی لگتا کہ امریکہ کا جویار ہے ، غدار ہے غدار ہے۔1988 کے عام انتخابات میں مسلم لیگی ورکرز نے نعرہ لگایا کہ جاگ پنجابی جاگ ،، تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔
6اگست 1990 کو پیپلزپارٹی کی حکومت کی برطرفی پر پارٹی ورکرز کا نعرہ یا اللہ یا رسول ،، بے نظیر بے قصور ایک مدت تک گونجتا رہا۔1990 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کا انتخابی نشان سائیکل تھا تو یہ نعرہ لگتا کہ اپنی قسمت آپ بنائیں سائیکل پر مہر لگائیں اور پیپلزپارٹی کا نعرہ تھا کہ توڑ ظلم کا غرور،،یااللہ یا رسول۔نوسیاسی جماعتوں کے اتحاد آئی جے آئی کا مقبول نعرہ نوستارے سائیکل نشان ،، جیوے جیوے پاکستان تھا۔1993 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا مقبول نعرہ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر تھا ۔جبکہ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کا نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوا کہ ظالمو قاضی آرہا ہے۔2002 میں جنرل پرویز مشرف کا نعرہ تھا سب سے پہلے پاکستان اور ایم ایم اے کا نعرہ ہاتھوں میں کتاب ہو ،،آغاز انقلاب ہو نے کے پی کے میں بڑی مقبولیت حاصل کی۔اور تحریک انصاف کا نعرہ تھا عوام کی ہے ایک ہی رائے،،مشرف و عمران ہی آئے۔
2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ سے لگنے والے نعرہ پاکستان نہ کھپے کو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر خاموش کرادیا۔2008کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا نعرہ علم،روشنی ، سب کو کام۔۔ روٹی کپڑا اور مکان ۔۔ مانگ رہا ہے ہرانسان اور مسلم لیگ ن کے انتخابی نعرے دیکھو دیکھو کون آیا ،، شیر آیا شیر آیا اور قدم بڑھاو نواز شریف ،، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔9ستمبر2008 کو آصف علی زراری صدر بنے تو جیالوں نےنعرہ لگایا ایک زرداری سب پر بھاری جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
2013میں تحریک انصاف کا نعرہ تبدیلی کا نشان عمران خان اور ملک بچانے نکلے ہیں آو ہمارے ساتھ چلو۔پیپلزپارٹی کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان ،،علم صحت سب کو کام جبکہ مسلم لیگ ن کا نعرہ بدلا ہے پنجاب اب بدلیں گے پاکستان تھا۔جبکہ 2018 میں ان جماعتوں کے انتخابی نعرے کم وبیش یہی رہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...