(16اکتوبر،یوم شہادت پر خصوصی تحریر)
”کرنال“ کاشہر ایک زمانے میں صوبہ پنجاب کے مشہور علاقہ ”ہریانہ“ کادارالحکومت تھا۔1860ء میں نواب احمدعلی خان اپنی قابلیت اور معاملہ فہمی کے خاندانی پس منظرکے باعث یہاں کے اعزازی اسسٹنٹ کمشنرلگادیے گئے۔کرنال شہر میں نواب لیاقت علی خان کے خاندان کا یہ اولین پڑاوتھا۔یہ جاٹ خاندان دریائے جمناکے مشرقی ساحل پر واقع مشہور علاقے ”میرٹھ“سے یہاں آن کر آبادہوا،اس خاندان کے بزرگوں کایہ دعوی تھا کہ وہ ایرانی نژاد ہیں اور ایرانی بادشاہ نوشیروان عادل کی اولاد سے ہیں۔1867ء میں نواب احمدعلی خان کاانتقال ہوگیا،نواب صاحب سرسیداحمدخان کے مداحوں میں سے تھے۔ان کے بڑے بیٹے ”نواب عظمت علی خان“حسب دستورخاندان کی سربراہی پر فائز ہوئے اور انہیں 1891ء میں حکومت وقت کی طرف سے ”نواب بہادر“کاخطاب بھی مل گیا۔ان کے چھوٹے سوتیلے بھائی نواب رستم علی خان تھے جو1863ء کو پیداہوئے تھے،انہیں بھی سرکارنے ایک صوبائی دربار کے موقع پر ”نواب بہادر“کاخطاب عنایت کردیاتھا۔یہ چھوٹے نواب صاحب ”نواب رستم علی خان“ شہیدملت جناب لیاقت علی خان کے والد بزرگوارتھے۔یہ ریاست کرنال کے نوابین تھے۔8جولائی 1912کو جب بڑے بھائی نواب عظمت علی خان کا انتقال ہو گیاتو چھوٹے بھائی نواب رستم علی خان نے ریاست کے جملہ امور اپنے ہاتھ میں لے لیے اور حکومت اوررعایاکی نگرانی کرنے لگے۔کرنال کی ریاست کم و بیش تین سو دیہاتوں پر پھیلی ہوئی وسیع و عریض ریاست تھی۔1937ء تک یہ ریاست ان کے زیرنگرانی رہی۔پنجاب کی ایک ریاست کے نواب ہونے کے باوجود ان کی خاندانی زبان اردوتھی اور تاریخ بتاتی ہے کہ لیاقت علی خان کے دادا نواب احمدعلی خان نے اردوکو اپنے خاندان میں رائج کیا اور اس زبان کی ترویج وترقی میں اپنافیصلہ کن کرداراداکیا۔دورغلامی میں آقاؤں کے لہجے میں رنگ جانے والوں کی اولادیں آج بھی موجودہیں لیکن اس خاندان میں اس وقت بھی آزادی کی خوبوموجود تھی اور انگریزی کی بجائے اردوکواپنانے میں بدیسی سامراج سے بغاوت کاایک عنصر واشگاف ہے۔
لیاقت علی خان اپنے والد کی دوسری اولاد تھے۔2اکتوبر1896کو کرنال میں پیداہوئے۔آپ کی والدہ محترمہ محمودہ بیگم تھیں جنہوں نے مروجہ تہذیب کے مطابق بچپن میں ہی آپ کو گھرپر قرآن واحادیث اور ضروری تعلیم کاانتظام فرمایا۔1918میں نوجوان لیاقت علی خان نے اس وقت کی مسلمانوں کی سب سے بڑی دانش گاہ علی گڑھ کے ایک ذیلی ادارے ایم اے او کالج علی گڑھ سے علوم سیاسیات میں گریجوئیشن کی سند فاضلہ حاصل کی۔22سال کی نوجوان عمر میں جہانگیربیگم سے آپ کا عقد ہوا اوراسکے بعد آپ اعلی تعلیم کے لیے ولایت میں انگلستان سدھارگئے۔یہاں پر آپ نے آکسفورڈ سے قانون کی تعلیم مکمل کی۔دوران تعلیم آپ نے متعدد انعامات حاصل کیے اور تعلیمی ادارے کی سیاسی زندگی میں بھی آپ نے بھرپورکرداراداکیا۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبہ کے انتخابات میں آپ نے خزانچی کے عہدے پر کامیابی حاصل کی۔انگلینڈ بار میں ریکارڈ کے مطابق 1922میں بحیثیت قانون دان کے اس ادارے میں آپ نے شمولیت اختیارکرلی۔برطانوی بارکے رکن کی حیثیت سے آپ نے ہندوستانی شہریوں کے حقوق کی خاطر مختلف مواقع پربارکے اراکین سے خطاب بھی کیالیکن پیشہ وروکیل کی حیثیت سے آپ کبھی بھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔1923میں وطن کی مقدس خوشبو ولایت کی مصنوعی چکاچوند پر غالب آگئی اورآپ ہندوستان لوٹ آئے۔
اس زمانے میں آزادی کی ہوائیں چلناشروع ہوئی تھیں اور غلامی کاسحر شکست و ریخت کاشکارہونے چلاتھا۔ہندوستان میں سیاسی عمل کا آغازہو چکاتھااور تمام قدآورشخصیات کانگریس یامسلم لیگ میں سے کسی ایک کی چھتری تلے جمع ہورہی تھیں۔خان لیاقت علی خان کوکانگریس نے شمولیت کی دعوت دی،پنڈت جواہرلعل نہرو سے ایک دو طویل ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن کانگریس اورمسلم میں سے آپ کے جذبہ ایمانی نے مسلم لیگ کاچناوکیااور آپ قائداعظمؒ کے قریب ترین اور قابل اعتمادا وررازدان ساتھیوں میں شامل ہوگئے۔1924ء میں جب لاہور میں مسلم لیگ کاجلاس ہوا جس کی صدارت قائداعظم نے کی تھی تواس وقت تک آپ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کااہم حصہ بن چکے تھے۔1926کے انتخابات میں اکثریت کے اعتمادنے آپ کوضلع مظفرنگرسے صوبہ اترپردیش کی قانون ساز اسمبلی میں پہنچادیا۔1932میں آپ متفقہ طورپر یوپی کی اسمبلی کے نائب صدرمنتخب ہوئے۔1940میں آپ ہندوستان کی مرکزی قانون ساز ادارے کے رکن بھی بن گئے۔اسی دوران 1936میں آل نڈیامسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری کاقلم دان بھی ان کے پاس رہا۔سیاسی زندگی کی گوناں گون مصروفیات کے دوران رعنالیاقت علی خان آپ کی دوسری شریکہ حیات بن کر آپ کی زندگی میں شامل ہوگئیں۔یہ خاتون اپنے زمانے کی ماہرتعلیم اور معیشیت دان بھی تھیں۔23مارچ1940کو لاہورمیں ہونے والے مسلم لیگ کے جلسے کے جملہ انتظامات پ کے ذمہ تھے جب کہ اسی جلسے میں قراردادپاکستان منظورکی گئی تھی۔ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی عبوری کابینہ میں آپ کو بحیثیت وزیرخزانہ لے لیاتھا۔اتنی اہم وزارت ایک مسلمان کو مل جانے پر کانگریسی قیادت حسدکے مارے اپنی انگلیاں چبارہی تھی۔یہ دورغلامی کاآخری سال تھا اور پورا ہندوستان میں سورشوں کی آگ میں جل رہاتھا۔ایسے دگرگوں اور پیچیدہ حالات میں بھی لیاقت علی خان نے وزیرخزانہ کی حیثیت سے 1947-1948کاجو بجٹ پیش کیا اس پر حریف بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔
تقسیم ہند کاعمل نہ صرف یہ کہ آپ کے سامنے وقوع پزیر ہوابلکہ آپ بذات خود اس کاحصہ بھی رہے۔انیسویں صدی میں سرسیداحمدخان کا پیش کیاگیا دوقومی نظریہ اب لیاقت علی خان اور ان کے ساتھیوں کا نظریہ پاکستان بن چکاتھا۔دوقومی نظریے سے جنم لینے والا نظریہ پاکستان اورپھر قیام پاکستان جس قیادت کے ہاتھوں حصول منزل کامرحلہ درپیش رہا،لیاقت علی خان اس قیادت جزولاینفک تھے۔تقسیم کے وقت آپ کے سامنے دوراستے تھے،پہلاراستہ اپنی ریاست”کرنال“ میں قیام جاری رکھنے کاتھا اوریہاں آپ کو نواب کی حیثیت تمام مراعات حاصل تھیں اور پر تعیش زندگی آپ کی منتظرتھی اور خدام و ہشام کی فوج ظفرموج،خدمت گاراور وفاداررعایا آپ کی متظر تھی،دولت اور پیسے اوروسائل حیات کی یہاں کوئی کمی نہ تھی اور آباواجداد کی عزت ان سب کے سواتھی۔لیاقت علی خان کے سامنے دوسراراستہ نوخیز سلطنت اسلامیہ،اسلامی جمہوریہ پاکستان تھی،جہاں غربت،مہاجرت،سازشیں،کام کام اور کام کی دقت آمیززندگی تھی،یہاں خادم اورنوکرچاکرنہیں تھے بلکہ لٹے پٹے قافلوں اور ٹوٹی پھوٹی بے حوصلہ قوم کی خدمت اورنوزائدہ ریاست کی تنظیم و ترتیب نوگویا پہاڑوں جیسے کٹھن مراحل تھے۔ خان لیاقت علی خان نے اپنے ایمانی و خاندانی حوصلے کے باعث مشکل راستے کاانتخاب فرمایا اور ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے۔ان کے درزی کاکہناہے کہ وہ کئی سالوں تک کسی بھی نئے کپڑوں کے جوڑے سے محروم رہے اورپرانے کپڑے کھلے کرواکے اوربازوکی کفوں سے قمیص کاپھٹاہواکالربنواکر اورشیروانی پہن کر گزارہ کرتے رہے۔انہیں شہیدکردیاگیا اور اس وقت شیروانی کے نیچے قمیص کاوجود ہی نہ تھا،اس مردقلندرنے بنیان کے اوپر شیروانی چڑھارکھی تھی۔پاکستان میں انہیں کلیم میں جائدادمل سکتی تھی لیکن یہ کہ کر انکارکردیاکہ جب تک سب پاکستانیوں کے مکانات نہیں بن جاتے میں اپنامکان نہیں بناؤں گا۔16اکتوبر1951کو یہ فرزندپاکستان جام شہادت نوش کرتاہوا اللہ تعالی کے حضورپیش ہو گیا۔
شہدا کامقدس لہو اس امت کا زیور ہے۔بدرواحداورکربلاسے کابل وکشمیروفلسطین تک قافلہ شہدارواں دواں ہے۔سوفیصدمسلمانوں کے سینے میں شہادت کی آرزو کروٹیں لیتی رہتی ہے لیکن بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جن تک یہ جام سعادت پہنچ پاتاہے۔لیاقت علی خان شہیدملت ہیں اوران کا مقدس خون تاقیامت اس مملکت خدادادکی بنیادوں کو تقویت واستقامت کامصالحہ فراہم کرتارہے گا۔لیاقت علی خان نے اپنی شہادت سے ثابت کردیاکہ وہ قائداعظم ؒ کے سچے ساتھی اور دوقومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کے بے لوث سپاہی تھے۔وہ پاکستان کی قیادت میں اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اولادوں کواور لگتوں سگتوں کو کوئی نہیں جانتا۔ان کی قربانیاں صرف نظریاتی جنگ کے لیے تھیں،اپنی ذات یااپنی اولاد یااپنی نسل کے لیے نہ تھیں۔انہوں نے اپنی خدادافکری صلاحیتوں سے دوقومی نظریے کو نظریہ پاکستان کی نئی شکل عطاکی اور پوری زندگی کو بے پناہ جاں فشانی کے ساتھ اس نظریے کی خاطر حصول مقاصد کے لیے وقف کر دیااور اسی نظریے کی حقانیت پر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔لیاقت علی خان وطن عزیز کی قیادت کے لیے بلاشبہ ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔بہت جلدیہ آسمان وہ وقت ضرور دیکھے گاجب تحریک پاکستان کی اولین قیادت کے وارثان حقیقی تخت اقتدارپر براجمان ہوں گے اور ملت پاکستان کل امت مسلمہ کی قیادت کرتی ہوئی فلاح انسانیت کے لیے سرگرم نظرآئے گی،ان شااللہ تعالی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...