وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
وفات : 23 اپریل 1991
عزیز حامد مدنی 14 اپریل 1926ء کو رائے پور میں پیدا ہوئے اور 23 اپریل 1991ء کو کراچی میں وفات پائی ۔ البتہ ریکارڈ میں تاریخ پیدائش 15 جون 1922ء درج تھی ۔
ان کے والد محمد حامد صدیقی کے استاد مولانا شبلی نعمانی تھے اور مولانا محمد علی جوہر ان کے ہم مکتبوں میں شامل تھے۔ عزیز حامد مدنی 22 فروری1948ء کو نقل مکانی کرکے کراچی آئے ۔ ایم اے انگریزی ناگپور یونیورسٹی سے کرچکے تھے ۔ پاکستان آکر پہلے سندھ مسلم کالج کراچی میں انگریزی کے لیکچرار ہوئے،مگر زیڈ اے بخاری کے ایما پر ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے. ریڈیو پاکستان میں اعلی’ عہدوں پر فائز رہے۔ زیادہ تر وقت کراچی اور پشاور میں گزارا۔ شادی نہیں کی۔
برادرم ناصر زیدی لکھتے ہیں، عزیز حامد مدنی کی ریڈیو سے تمام عمر وابستگی رہی مگر وہ ریڈیو کے مائیک کے لئے موزوں نہ تھے۔عام پبلک مشاعروں میں بھی کلام سُناتے تو ایسی بے دلی سے پڑھتے جیسے یہ کلام اُن کا اپنا نہ ہو.
مدنی صاحب نے اگرچہ غزلیں بھی کہیں اور خوب کہیں، مگر اُن کی مجموعی پہچان ایک نظم گو شاعر کے طور پر ہے، وہ شروع شروع میں غالب کی طرح خاصے مشکل اور ادَق اشعار کہتے تھے۔ اُن کا ریڈیو کا ابتدائی زمانہ تھا کہ کسی نے مولانا چراغ حسن حسرت سے اُن کا تعارف کرایا کہ یہ بھی شعر کہتے ہیں، چراغ حسن حسرت اُن کے افسر تھے۔ ڈرتے، جھجکتے لجاتے ، شرماتے عزیز حامد مدنی نے ایک شعر سُنایا۔اس میں کچھہ خوفناک، ہولناک قسم کے حشرات الارض مثلاً ’’ کژدم ‘‘ کا ذکر تھا۔ شعر سُن کر مولانا چراغ حسن حسرت نے کہا:’’مولانا! یہ آپ شعر کہتے ہیں یا بچوں کو ڈراتے ہیں؟‘‘۔شاید اِسی پہلی کڑی تنقید کا اثر ہو گا کہ عزیز حامد مدنی نے حتیٰ الامکان مشکل گوئی سے پرہیز کیا، پھر بھی ان کے بعض اشعار کو سمجھنے کے لئے سوچنا بھی پڑھتا ہے۔
عزیز حامد مدنی نے وفات سے دو تین گھنٹے قبل بھی کچھہ شعر کہے۔دو شعر یوں ہیں:
سارے مزاج آشنا بیٹھے رہے بہار کے
تیز ہوا دکھا گئی ہاتھہ کئی کٹار کے
خانۂ عشق میں ضرور چاہئے کوئی یاد گار
پیرہنِ سفر زدہ رکھہ تو دیا اتار کے
مدنی صاحب کے کچھ اور اشعار
طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
کاذب صحافتوں کی بجھی راکھ کے تلے
جھلسا ہوا ملے گا ورق در ورق ادب
زمزمہ پیرا کوئی خونیں نوا ہو جائے گا
جب بہار آئے گی زخمِ دل ہرا ہو جائے گا
تازہ ہوا بہار کی دِل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقۂ گردشِ حال لے گئی
فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سُبک ہوئے ہیں تو عیشِ ملال سے بھی گئے
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے
چراغِ بزم ابھی جانِ انجمن نہ بُجھا
کہ یہ بُجھا تو تِرے خدوخال سے بھی گئے
الگ سیاست درباں سے دل میں ہے اک بات
یہ وقت میری رسائی کا وقت ہے کہ نہیں
بیٹھو جی کا بوجھ اتاریں دونوں وقت یہیں ملتے ہیں
دور دور سے آنے والے رستے کہیں کہیں ملتے ہیں
دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں
یہ آدمی کی خدائی کا وقت ہے کہ نہیں
دو گز زمیں فریب وطن کے لیے ملی
ویسے تو آسماں بھی بہت ہیں زمیں بہت
ایک طرف روئے جاناں تھا جلتی آنکھہ میں ایک طرف
سیاروں کی راکھ میں ملتی رات تھی اک بے داری کی
گہرے سرخ گلاب کا اندھا بلبل سانپ کو کیا دیکھے گا
پاس ہی اگتی ناگ پھنی تھی سارے پھول وہیں ملتے ہیں
حسن کی شرط وفا جو ٹھہری تیشہ و سنگ گراں کی بات
ہم ہوں یا فرہاد ہو آخر عاشق تو مزدور رہا
جب آئی ساعت بے تاب تیری بے لباسی کی
تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر
جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے
وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا
کہہ سکتے تو احوال جہاں تم سے ہی کہتے
تم سے تو کسی بات کا پردا بھی نہیں تھا
خلل پذیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت
بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں
خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات
رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا
کھلا یہ دل پہ کہ تعمیر بام و در ہے فریب
بگولے قالب دیوار و در میں ہوتے ہیں
خوں ہوا دل کہ پشیمان صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ
مانا کہ زندگی میں ہے ضد کا بھی ایک مقام
تم آدمی ہو بات تو سن لو خدا نہیں
مرا چاک گریباں چاک دل سے ملنے والا ہے
مگر یہ حادثے بھی بیش و کم ہوتے ہی رہتے ہیں
صدیوں میں جا کے بنتا ہے آخر مزاج دہر
مدنیؔ کوئی تغیر عالم ہے بے سبب
صبح سے چلتے چلتے آخر شام ہوئی آوارۂ دل
اب میں کس منزل میں پہنچا اب گھر کتنی دور رہا
طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
ان کو اے نرم ہوا خواب جنوں سے نہ جگا
رات مے خانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ
وفا کی رات کوئی اتفاق تھی لیکن
پکارتے ہیں مسافر کو سائباں کیا کیا
وقت ہی وہ خط فاصل ہے کہ اے ہم نفسو
دور ہے موج بلا اور کنارے ہوئے لوگ
ایسی کوئی خبر تو نہیں ساکنان شہر
دریا محبتوں کے جو بہتے تھے تھم گئے
بہار چاک گریباں میں ٹھہر جاتی ہے
جنوں کی موج کوئی آستیں میں ہوتی ہے
غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے
کچھہ اب کے ہم بھی کہیں اس کی داستان وصال
مگر وہ زلف پریشاں کھلے تو بات چلے
میری وفا ہے اس کی اداسی کا ایک باب
مدت ہوئی ہے جس سے مجھے اب ملے ہوئے
شہر جن کے نام سے زندہ تھا وہ سب اٹھہ گئے
اک اشارے سے طلب کرتا ہے ویرانہ مجھے
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
زہر کا جام ہی دے زہر بھی ہے آب حیات
خشک سالی کی تو ہو جائے تلافی ساقی
عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے
چشمِ نگران
دشتِ امکان
نخلِ گمان
گلِ آدم
جدید اردو شاعری (تنقید)