اساطیرِ روم میں ایک کردار جانس ہے۔ اس کردار کے بیک وقت دو چہرے ہیں۔ یہ اس کردار کی دوئی کی علامت ہے۔ بیک وقت متضاد کرداروں کی۔ پاکستان کے اندرونی سٹرکچر اور ڈائنامکس کو سمجھنا آسان نہیں لیکن اگر پاکستان کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ جانس ہو گا۔ اس کی ریاست اور حکومت کو مستحکم اور متحد رکھنے والے، کسی خلفشار سے بچانے والے وہی چہرے ہیں جو اس کو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر آگے جانے سے روکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلیلیو کو جب سزا دی گئی تھی اور گلیلیو نے زمین کی حرکت پر اپنے خیالات واپس لیتے ہوئی معذرت کی تھی تو کہتے ہیں کہ انہوں نے زیرِ لب کہا تھا کہ “یہ حرکت میں تو پھر بھی ہے”۔
پاکستان ایک منقسم، غیرمنظم، معاشی بدحالی کا شکار، کرپٹ، پرتشدد، غیرمنصفانہ اور خواتین اور غربیوں کے لئے بے رحم جگہ ہے۔ یہاں پر بدترین انتہاپسندی کے جزیرے ہیں۔ یہ سب درست ہے لیکن “یہ حرکت میں تو پھر بھی ہے”۔ یہ معاشرہ اس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار، ظالمانہ اور غیرمساوانہ نہیں جتنا باہر سے دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان میں علاقے ہیں جو کامیابی سے جدت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جہاں پر بہترین انتظامیہ ہے۔ ہر جگہ نہیں لیکن کم از کم اتنی جگہ پر ضرور کہ ملک چل رہا ہے۔ کئی بہت متاثر کن صنعتیں ہیں۔ کئی اچھی موٹر وے ہیں۔ کئی تعلیمی ادارے ہیں جو اپنے خطے میں بہترین ہیں۔ طاقتور، ڈسپلن والی اور بہترین تربیت یافتہ فوج ہے۔ کئی جگہ بہت فرض شناس سرکاری ملازمین ہیں۔ پولیس کمانڈر ہیں جو محدود وسائل کے باوجود امن قائم رکھنے کے لئے بے خوفی سے کام کر رہے ہیں۔ کرم ایجنسی سے کراچی تک ہر جگہ میری بہت متاثر کن، فرض شناس اور محب الوطن افراد سے ملاقات ہوئی جو اپنے پروفیشنل ازم میں عالمی معیار میں کسی سے بھی کم نہیں۔
نیشل فائننس ایوارڈ جو 2010 میں منظور ہوا، اس میں سرکاری ریوینیو کا حصہ پسماندہ صوبوں کی طرف موڑا گیا۔ یہ ایک اور قابلِ ستائش سمجھوتہ تھا جو دکھاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کام کرتی ہے۔ پاکستانی سیاسی پراسس اور فیڈرل ازم جاندار اور لچکدار ہے اور مفاہمت کرنے کا اہل ہے۔ نہیں، یہ ملک افغانستان، صومالیہ اور کانگو جیسی ناکام ریاست نہیں ہے اور بننے کے قریب بھی نہیں ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں سب اچھا ہے۔ لیکن یہ کہ اس کے بوسیدہ تنے پر بڑی مضبوط بیلیں ہیں جو طفیلیے کا بھی کام کرتی ہیں اور اس کو سنبھال کر بھی رکھتی ہیں۔ یہ پاکستان کے ادارے، قومیتں، روایات، برادریاں اور لوگ ہیں۔ نہ ہی یہ ستر کی دہائی کا ایران ہے اور نہ ہی 1917 کا روس۔ یہ مضبوط سوسائٹی والی کمزور ریاست ہے جو اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ حرکت میں تو پھر بھی ہے۔
اگر اس کا موازنہ کینیڈا یا فرانس وغیرہ سے کیا جائے تو تصویر مختلف نظر آتی ہے لیکن یہ موازنہ کرنا منصفانہ نہیں۔ اگر اپنے خطے کے ممالک جیسا کہ انڈیا، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا جیسے ممالک سے کیا جائے تو پھر ویسے ہی مسائل نظر آتے ہیں جو اس خطے میں مشترک ہیں۔ وراثتی سیاست، پولیس کے مظالم، سرکار کی کرپشن، روز کے جرائم اور تشدد کی خبریں اور مرکز سے دور انارکی۔ یہ مسائل صرف پاکستان سے خاص نہیں۔ جس طرح انڈیا میں صرف کرناٹک نہیں، بہار بھی ہے، ویسے ہی پاکستان بھی صرف ایک جگہ نہیں۔
مغربی نگاہوں سے اس ملک کو دیکھنے والے اکثر یہ بات سمجھ نہں پاتے کہ انڈیا کی طرح پاکستان میں بھی انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزیاں حکومت کی طرف سے نہیں کی جاتیں۔ اور سب سے زیادہ مظالم ملک کی سرکار کی کمزوری کی وجہ سے ہوتے ہیں نہ کہ ان کی بڑھی ہوئی طاقت کی وجہ سے۔ غیرت کے قتل ہوں، برادری کے دباوٗ یا جرگوں کے انصاف کے نظام، پولیس تھانوں کے تشدد، خواتین کی حق تلفی، یہ سرکار کے نہیں، جمہور کے ظلم ہیں۔
پاکستان میں ایک اور کشمکش “مغربی جدت” اور “مذہبی قدامت پسندی” کے درمیان سمجھی جاتی ہے لیکن پاکستان کے عام لوگ ان میں سے کسی کے لئے بھی تھوڑی بہت ہمدردی رکھتے ہوں، ان کا معاشرے پر اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر ایسی کشمکش کہیں جاری بھی ہے تو امکان ہے کہ پاکستانی انہیں دیکھ کر، کروٹ بدل کر دوسری طرف منہ کر کے سو جائیں گے۔
لیکن وہ ایسا کرنا افورڈ نہیں سکتے۔ پاکستان کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کے پاس وقت زیادہ نہیں۔
دریائے سندھ پر جوا
ایسی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان لمبے عرصے تک مستحکم جغرافیائی اکائی نہ رہے۔ یہ اپنے طریقے سے، اپنی ڈگر پر آگے بڑھتا رہے گا۔ اس کے مستقبل کے افق پر نمودار ہوتا ہوا ایک بڑا مسئلہ ہے جو یہ تبدیل کر سکتا ہے۔
پاکستانی جس بھی نظریے، قومیت یا لسانیت سے تعلق رکھتے ہوں، بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت سارے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ 1998 میں تیرہ کروڑ تھی، 1951 میں ساڑھے تین کروڑ اور 1911 میں ایک کروڑ نوے لاکھ۔ آج یہ ایک صدی میں دس گنا سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔
پاکستان کی اس کے بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے کی ناکامی ریاست کی کمزوری، تعلیم کی کمی اور سوشل کنزرویٹزم کا نتیجہ ہے۔ اور اس رفتار میں جتنی کمی ہوئی ہے یہ سوشیو اکنامک تبدیلی اور اربنائزیشن کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی سماجی یا ریاستی اقدام کی وجہ سے۔ اور چونکہ آبادی کا بڑا حصہ اس وقت کم عمر ہے، اس لئے اس میں اسی تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔ اندازہ ہے کہ اس صدی کے وسط میں یہ آبادی ساڑھے تینتیس کروڑ ہو گی۔
اتنی تعداد کو سپورٹ کرنے کے لئے پاکستان کے پاس آبی وسائل نہیں ہیں، جب تک کہ پاکستان میں پانی کے استعمال کی ایفی شنسی میں بہت زیادہ اضافہ نہ کر لیا جائے۔ پرانی انڈین اکانومی کو مون سون کا جوا کہا جاتا تھا۔ آج کے پاکستان کو “دریائے سندھ پر جوا” کہا جا سکتا ہے۔ اور اس کے نشان تو ماضی میں بھی واضح ہیں۔ چار ہزار سال پرانی تہذیبیں اس علاقے سے مٹ گئیں تھیں جس کی وجہ دریاوٗں کا رخ تبدیل کرنا تھا۔ دریا ان کو بہا لے گئے یا اتنے دور ہو گئے کہ شہر سوکھ کر کھنڈر ہو گئے۔
پاکستان میں اوسط ہونے والی سالانہ بارش 240 ملی میٹر ہے۔ اتنی گنجان آبادی والا دنیا میں کوئی اور ملک نہیں جہاں اتنی کم بارش ہوتی ہو۔ دریائے سندھ کے نظام اور نہری نظام کے وجہ سے پاکستان ابھی تک یہ آبادی سپورٹ کرنے کے قابل ہے۔ نہری نظام کے بغیر پاکستان کے کئی بڑے شہر نیم صحرائی علاقے تھے۔ پنجاب میں بنائے گئے برٹش زرعی پراجیکٹ نے کئی نئے علاقوں میں آبادی ممکن بھی بنائی تھی۔ لائل پور (فیصل آباد) یا منٹگمری (ساہیوال) جیسے شہر ان پراجیکٹس کے بعد بسائے گئے اور آباد ہو سکے تھے۔
اور اگر آپ ملک کے اوپر جہاز سے گزر رہے ہوں تو یہ حقیقت بڑی واضح ہو جاتی ہے۔ دریائے کابل یا پنجاب کے دریا سندھ میں گرتے ہیں۔ تمام آبادیاں اور کھیتیاں ان آبی گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان سے دور بھوری، زرد اور اودی زمین ہے جس میں کہیں کسی قدرتی چشمے یا کنویں کے پاس چھوٹی آبادی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی ایک چوتھائی زمین کاشت ہوتی ہے اور اس کا بڑا حصہ وہ ہے جو نہری نظام کی مرہونِ منت ہے۔ باقی زمین غیرآباد اجاڑ ہے۔
گنجائش سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کئی قدرتی چشمے خشک ہو چکے ہیں۔ کوئٹہ دو قدرتی چشموں پر بسایا گیا شہر تھا۔ یہ دونوں اب موجود نہیں رہے۔ زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے گر رہی ہے۔ کئی علاقوں میں اتنی تیزی سے کہ کسی وقت میں ٹیوب ویل کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ پاکستان کے پاس دریائے سندھ ہے اور اس کا خشک ہو جانا پاکستان کے لئے تباہ کن ہو گا۔ پانی کی کنزوریشن اور اس کے استعمال میں ایفی شنسی لے کر آنا اس وقت جتنا زیادہ اہم ہے، اس کے بارے میں مبالغہ آرائی نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے، پانی کی تقسیم، اس کے استعمال میں دانشمندی سمیت بہت بہت اور بہت کام ہونے والا ہے۔ کیونکہ تضاد یہ ہے کہ جب پاکستان میں زیادہ بارشیں ہو جائیں تو اس کا نتیجہ تباہ کن سیلابوں میں نکلتا ہے۔ 2010 کے بدترین سیلاب اس کی مثال ہیں۔ ستم یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کم بارش بھی تباہ کن ہے اور زیادہ بارش بھی۔ دوسری طرف 2010 کے سیلابوں نے ہمیں یہ بھی دکھایا کہ پاکستان کے موجودہ آبی انفراسٹرکچر کے بغیر تباہی زیادہ بڑے پیمانے پر ہوتی۔ یعنی اگرچہ کہ یہ انفراسٹرکچر بہت پرانا ہے لیکن یہ جتنا ہے، بہترین کام کرتا ہے۔ صرف یہ کہ یہ پاکستان کے ضروریات اور خطرات سے نمٹنے میں بالکل ناکافی ہے۔
عالمی موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لئے اچھی خبر نہیں۔ تیزی سے بڑھتی آبادی اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے جو خطرہ پاکستان کے اوپر منڈلا رہا ہے، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ شجرکاری، جنگلوں کو واپس لے کر آنا، زرعی نظام کی مرمت، پانی کے استعمال میں کفایت، تقسیم کے نظام میں بہتری اور دیگر پراجیکٹ ہیں جو پاکستان کی ترجیحات میں اوپر کئے جانے کی ضرورت ہے۔
پانی کے حوالے سے مسئلہ پاکستان میں ہر جگہ ہے لیکن سب سے زیادہ خطرے کے دہانے پر سندھ ہے۔ 2004 میں لکھی گئی رپورٹ پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ واٹر سٹریسڈ ملک بتاتی ہے جس کے پاس پانی کا کوئی اضافی سورس نہیں ہے۔
اس حوالے سے اگر موازنہ انڈیا سے کیا جائے تو انڈیا اپنی بارشوں کا پانی جمع کرنے کے تناسب میں پاکستان سے بہت آگے ہے اور چین کے تناسب کے لحاظ سے تو بہت ہی چھوٹا حصہ ہے۔
پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب یہاں پر جب کچھ کرنا طے کر لیا جائے تو اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بڑے کام کو عام کرپٹ اور سرخ فیتے والے نظام سے الگ کر کے بڑے شاندار کام جانفشانی اور بہترین کارکردگی سے کئے جا سکتے ہیں اور کئے جا چکے ہیں۔ بڑے ڈیم، موٹرویز، نیوکلئیر ہتھیار، بندرگاہوں کی تعمیر اس قسم کے پراجیکٹ رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی پاکستان کو ناکام ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہاں تک کہ اس کے بدترین حریف انڈیا کے لئے بھی غیرمستحکم پاکستان اچھی خبر نہیں ہو گی۔ اور یہاں پر ایک موقع ہے۔ نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ عالمی اداروں کے لئے بھی۔
جہاں تک عالمی اداروں کا تعلق ہے، تو وہ اپنی امداد کا دائرہ تنگ کر کے پانی کے انفراسٹرکچر تک محدود کر سکتے ہیں اور یہاں پر فراخدلی سے مدد کی جا سکتی ہے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ یہ پاکستان کے بڑے مسئلے کو حل کرے گا بلکہ یہ کام کرنا بہت سی لیبر مانگتا ہے۔ اور بہت سی ملازمتوں کو جنم دے گا۔ کدال اور پھاوڑے والے مزدوروں سے لے کر تربیت یافتہ انجینیرز تک اور ان سے ملحقہ صنعتوں کو بھی۔ عالمی امداد عام لوگوں تک پہنچنے کا یہ بہترین راستہ ہو گا۔ اور یہ والی امداد عام آدمی کو نظر بھی آئے گی۔
جہاں تک پاکستان کے اپنی عوام اور اپنی سیاست کا تعلق ہے، پانی اس میں ترجیحات میں نہیں ہے۔ علاقائی تعصب، آپس کی بداعتمادی اور پاکستان کے دوسرے مسائل اس میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں اور یہ ترجیحات میں اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک پاکستان میں لوگ خود اس کو سیاسی ایجنڈے پر لانے کی کوشش نہ کریں۔ پاکستان میں واقع وادی سندھ کی تہذیب کے قدیم کھنڈر ترجیحات کی یاددہانی کرواتے رہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کے حالات میں گزارا کر لیتے ہیں، جمہوریت کے بغیر صدیاں رہ لیتے ہیں، سیکورٹی کے بغیر بھی جی لیتے ہیں لیکن پانی کے بغیر تین روز بھی نہیں۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ پاکستانی ہمہ وقت جاری شور شرابے کے ساتھ ساتھ ملکر آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ترجیحات میں تبدیلی اور اہم مسائل پر توجہ کوئی باہر سے آ کر نہیں کر سکتا۔ یہ بڑا کام پاکستان کے اپنے کرنے کا ہے۔
دو اقساط پر مشتمل یہ اقتباس اس کتاب سے تھا
Pakistan: A Hard Country by Anatol Lieven