" پاکستان کے بارے حیرت انگیز حقائق "
(1) . دنیا میں پہلی ریاست جو اسلام کے نام پر وجود میں ریاست مدینہ تھی اور دوسری پاکستان ہے ، لیکن مدینہ منورہ سے مماثلت کا معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں !
( 2) غزوہ بدر سترہ رمضان المبارک میں ہوا۔ پاکستان ستائیسویں رمضان المبارک کو معرض وجود میں آیا۔ مسلمان سترہ رمضان کو غزوہ بدر کی فتح کو یوم الفرقان کے طور پر یاد رکھتے ہیں اور ستائیسویں رات کو لیلۃ القدر کی تلاش میں عبادت کرتے ہیں۔
(3) مدینہ منورہ کا قدیم نام یثرب مطلب ، بیماریوں کی جگہ ۔ مدینہ کو پہلے مدینہ النبی کہا گیا۔ پھر مدینہ طیبہ اور مدینہ منورہ بھی کہا گیا ہے۔ پاکستان کا مطلب بھی پاک لوگوں کی رہنے کی جگہ۔
( 4)مدینے کو اس وقت مشرکوں ( بت پرستوں) سے خطرہ تھا ان مشرکوں کی مدد یہودی کر رہے تھے۔
(4)پاکستان کو بھی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مشرک (بت پرست) ریاست انڈیا سے خطرہ ہے جس کی مدد اسرائیل یعنی یہودی کر رہے ہیں۔
( 5)غزوہ بدر کے بعد مدینہ منورہ میں منافقین کی جماعت وجود میں آئی۔ یہ منافقین مشرکین مکہ کو مدینہ منورہ پر چڑھائی کے لیے اکساتے رہتے تھے۔
(6) پاکستان میں بھی منافقین ہیں جو ملک دشمن طاقتوں سے پیسے لےکرملک کے مفاد کے خلاف کام کرتے ہیں۔
(7) مدینے کی مشرکوں کے خلاف تین بڑی جنگیں ہوئیں اور چوتھی جنگ فیصلہ کن تھی جس میں مکے کو فتح کر لیا گیا تھا۔
( 8)پاکستان کی مشرکوں ( انڈیا ) کے ساتھ اب تک تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ چوتھی جنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فیصلہ کن ہوگی۔
( 9) غزوہ ہند لڑنے والی جس عظیم فوج کا حضورﷺ نے ذکر کیا ہے وہ پاک فوج ہی ہے۔ اس پر ایک اور دلیل بھی ہے۔ غزوہ ہند والی حدیث میں لڑنے والی فوج اسرائیل کے خلاف بھی جنگ کرے گی یعنی یہودیوں سے۔
(10) ڈیوڈ بن گوریان جو کہ اسرائیل کے بانیوں میں سے تھا اس نے پاکستان کے حوالے سے پیشن گوئی کی تھی کہ "بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔
(11)پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی نظریاتی جواب ہے۔پاکستان کا ذہنی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کر کسی بھی وقت ہمارے لیے باعث مصیبت بن سکتی ہے ہمیں اچھی طرح سوچ لینا چاہیے۔بھارت سے دوستی ہمارے لیے نہ صرف ضروری بلکہ مفید بھی ہے ۔
(12)ہمیں ہندو مسلم تاریخی عناد سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن ہماری حکمت عملی ایسی ہونی چاہئیے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعے ہی بھارت کے ساتھ اپنا ربط و ضبط رکھیں"۔۔۔۔۔۔ {یروشلم پوسٹ 9 اگست 1967}
( 13) یہ پیشن گوئی قدرت اللہ شہاب کی کتاب میں بھی موجود ہے جس کے مطابق جب وہ 1959ء میں یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ کے ممبر تھے تو اس وقت ان کے تعلقات ایک یورپی باشندے سے ہوئے جس نے قدرت اللہ شہاب کو بتایا کہ " کہ اگرچہ امریکہ اور روس ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن پاکستان کو دونوں اپنا دشمن سمجھتے ہیں" ۔۔۔
پھر اس نے وضاحت کی کہ " یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی اعلی ترین افواج میں ہوتا ہے اور یہ حقیقت نہ روس کو پسند ہے نہ امریکہ کو " ۔۔۔
"1979 م میں روس افغانستان میں داخل ہو گیا۔ روس کے بارے میں تھا کہ جب روس کسی ملک پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو روس کی پیش قدمی کو روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن ISI نے اس مفروضہ کو غلط ثابت کردیا۔ اور امریکہ نے سات اکتوبر 2001 افغانستان پر حملہ کیا۔ تو امریکہ کا 2010 تک گیارہ سال میں 11 سو ارب ڈالر اور 2011 سے 2018 تک تین سو ارب ڈالر جنگ میں خرچہ ہو چکا ہے۔ جنرل حمیدگل مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میرے فقرے نوٹ کر لیں۔ جب مؤرخ لکھے گا کہ ISI نے امریکہ کی مدد سے روس کو افغانستان میں شکست دے دی۔ پھر اگلا فقرہ لکھےگا ۔ ISI نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے دی۔
مرحوم جو فرمایا ۔بالکل حقیقت ہے۔ قطعآ مبالغہ نہیں ہے۔ ان شاءاللہ پھر کبھی اس بارے میں بھی تفصیل سے عرض کروں گا۔
( 14)پاکستان کے ساتھ ایک اور معاملہ بھی عجیب و غریب ہے کہ
پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کو اللہ نےزمین میں ہی نشان عبرت بنا دیا ہے۔
سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار سارے کردار جنہوں نے پاکستان کو توڑا تھا اللہ نے انکو انکے خاندانوں سمیت مٹا دیا۔
ذوالفقارعلی بھٹو کا سارا خاندان غیر طبعی موت مرا ۔
شیخ مجیب الرحمن اپنے پورے خاندان سمیت مارا گیا صرف اسکی ایک بیٹی باقی بچی۔
اسی طرح اندرا گاندھی نہ صرف خود قتل ہوئی بلکہ اسکا بیٹےبیٹا راجیو گاندھی بھی قتل ہوا اور دوسرے سنجے گاندھی کا 33 سال کی عمر میں پلین کریش ہوگیا یوں اسکا پورا خاندان ختم ہوگیا۔
( 15) آج بھی پاکستان کو اندرونی نقصان پہنچانے والے پاکستان میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت عالم اسلام کے خلاف آپریشن ہارنسٹ نسٹ کے نام سے ایک پراکسی وار جاری ہے جس میں خوارج کے ذریعے اسلامی ملکوں کو بہت تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے۔
(16) پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اس جنگ میں عالمی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور خوارج( ٹی ٹی پی) کو عملی اور نظریاتی (سرخے،لبرلز،پی ٹی ایم) ہر محاذ پر پسپائی کا سامنا ہے۔
پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کا کیا حال ہوتا ہے !
طاہر یلد شیف کو روس نے " شیطان " کا نام دے رکھا تھا کیونکہ انکا خیال تھا کہ یہ مرتا نہیں ہے۔
اس شخص کو امریکہ نے ازبکستان میں روس کے خلاف سال ہا سال تک استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس شخص کو جب پاکستان کے خلاف لانچ کیا گیا تو کچھ ہی عرصے بعد یہ پاک فوج کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔
(17) اسی طرح سری لنکا کے خلاف لڑنے والی تامل تحریک کے لیڈر پربھاکرن کو لوگ سورج دیوتا کہتے تھے کیونکہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسکو موت نہیں آتی۔ لیکن سری لنکا نے پاکستان کی مدد ختم کر دیا۔
(18) عجیب بات ہے کہ پاکستان کے خلاف لڑنے والے اکثر خارجی عبرت ناک انجام کو پہنچ چکے ہیں جو بچ گئے وہ شکست کھا کر چھپتے پھرتے ہیں۔ !
( 19) پاکستان کو اللہ نے دنیا میں سب سے اہم سٹریٹیجک لوکیشن دی ہے اور دنیا کی کئی بڑی سپر طاقتیں بیک وقت کسی نہ کسی طرح پاکستان پر انحصار کرتی ہیں۔
پاکستان کی گوادر بندر گاہ دنیا میں گہری ترین بندرگاہ ہے۔
بلوچستان میں سونے اور تانبے کے سو ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔
پاکستان کے پاس بے پناہ معدنی وسائل ہیں جن میں صرف تھر کا کوئلہ ہی سعودی عرب کے کل تیل کے ذخائر سے زیادہ مالیت کا ہے۔
(20) پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان میزائل سسٹم بڑا جدید ہے۔ایک ہی میزائل چھ وار ہیڈ لے جا سکتا ہے۔ اور ہر وار ہیڈ کنٹرولڈ اور مختلف ہدف کو نشانہ بن سکتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
امریکہ کا یہ صرف خیالی پروگرام بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان سمارٹ ایٹم بم بنا چکا ہے جس کو راکٹ لانچرز اور ٹینکوں سے فائر کیا جا سکتا ہے۔
(21)پاکستان قائم رہے گا۔ اس کے ساتھ جو دشمنی کرے گا ۔ٹوٹ جائے گا اور ختم ہو جائے گا۔ ۔
روس نے چاہا تھا کہ پاکستان کے سمندروں تک پہنچے لیکن روس اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
قوم کے لئے خوشخبری ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسی نے بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کروانے والے کو اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا ہے۔
پاکستانیو ….! فکر نہ کرو اور نہ کوئی اندیشہ کرو۔ الطاف حسین سے امریکہ برطانیہ، اسرائیل اور انڈیا پاکستان کو صفحہِ ہستی سے مٹوانا چاہتے تھے ۔
الطاف حسین ذلیل وخوار ہے اور جو پاکستان کا برا کرنے کا سوچے گا۔ ان شاءاللہ ۔ ذلت اس کا مقدر ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“