کیا رومی کا تصوف اور اس کے ’’مریدِ ہندی‘‘ اقبال کی شاعری مسلمانوں کے موجودہ عہدِ زوال میں راہِ نجات دکھا سکتی ہے؟ یا یہ تصوف وہ ہے جو جنگلوں‘ غاروں‘ خانقاہوں اور حجروں میں مقید کر دیتا ہے اور کارِ دنیا کے لیے نہ صرف یہ کہ رہنمائی نہیں کرتا بلکہ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کرتا ہے؟
یہ تھا وہ موضوع جس پر ہانگ کانگ کے ’’اناطولیہ کلچرل اینڈ ڈائیلاگ سنٹر‘‘ میں گفتگو کرنا تھی۔ یہ سنٹر جناب فتح اللہ گولن کے عالمی سیٹ اپ کا ایک حصہ ہے۔ فتح اللہ گولن کے سیٹ اپ کے زیر انتظام پوری دنیا میں تعلیمی اداروں کا سلسلہ کام کر رہا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے ہانگ کانگ میں بھی مصروفِ جدوجہد ہیں۔ اقبال اکیڈمی ہانگ کانگ بھی اسی تقریب میں اناطولیہ سنٹر کی شریکِ کار تھی۔ اقبال اکیڈیمی کے متحرک نمائندے ڈاکٹر انوارالحق نے اس لکھنے والے سے اس وقت رابطہ قائم کیا جب آسٹریلیا سے روانگی کی تیاری تھی۔ ڈاکٹر انوارالحق نے چین سے ابلاغیات میں پی ایچ ڈی کی، انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ چینی زبان میں تحریر کیا تھا۔
مسلمانوں کے موجودہ عہدِ زوال کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو وہ ہے جو مسلمان ملکوں کے اندر رہتے ہوئے داخلی حوالے سے ہر دیدۂ بینا اور ہر دلِ حساس کو کرب میں مبتلا کرتا ہے۔ سب سے بڑا عفریت ناخواندگی کا ہے۔ عورتوں کی ناخواندگی کا تناسب بھیانک حد تک کم ہے۔ اسی حساب سے ان کے حقوق بھی غصب ہوتے ہیں۔ غربت اس ناخواندگی کا منطقی نتیجہ ہے۔ صحت کا گراف مستقلاً نیچے کی طرف ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں قانون کی حکمرانی ایک خواب لگتی ہے۔ پولیس مکمل طور پر سیاسی دبائو میں ہے۔ سول سروس کو اہلِ سیاست کنیز کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ کوئی ادارہ مکمل طور پر آزاد نہیں۔ خطرناک ترین پہلو مسلمان ملکوں میں داخلی حوالے سے مذہب کی بنیاد پر سادہ لوح مسلمانوں کا استحصال ہے۔ پیری مریدی انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ گدی نشینی طاقت ور حربہ ہے۔ سیاست اور تجارت، دونوں شعبوں میں مذہب کو خوب خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ ووٹ لیتے وقت مذہب کا واسطہ دیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں عقائد اور فرقہ واریت کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں۔ تجارت میں صورت حال دلچسپ ہے ، اس کی نوعیت سمجھنی ہو تو ایک مثال ہی کافی ہے۔ پوری دنیا میں نصرانی شہد‘ یہودی شہد یا ہندو شہد نہیں ملے گا لیکن پاکستان میں ’اسلامی شہد‘ فروخت ہوتا ہے۔ ایک عام جذباتی سادہ دل پاکستانی مسلمان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ ’اسلامی شہد‘ ، ’محمدی بیکری‘ ، ’مدینہ نہاری ‘ یا ’حرمین کلاتھ ڈپو‘ اور اس قبیل کے بے شمار دوسرے سائن بورڈوں پر توجہ نہ دے اور فرطِ عقیدت میں وہاں سے سودا نہ خریدے۔ اس پہلو کا دوسرا نام حقوق العباد سے غفلت ہے جس کی نوعیت اس قدر واضح ہے کہ تفصیل کی ضرورت ہی نہیں۔
خارجی حوالے سے صورت حال اور بھی زیادہ دردناک ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں جا کر ہر درد مند مسلمان سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اس قدر ترقی اور تنظیم مسلمان ملکوں میں کیوں ناپید ہے؟ وہ پریشان ہوتا ہے کہ چار کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ان ملکوں میں آ کر آباد ہو گئے ہیں اور کئی کروڑ مزید آنا چاہتے ہیں تو آخرکیا وجہ ہے کہ کسی ایک مسلمان ملک میں بھی آباد ہونا ممکن نہیں۔ معاشی وجہ کے بعد اس ہجرت کی بڑی وجہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے؛ جو شخصی‘ سیاسی اور مذہبی آزادی ان ملکوں میں مسلمانوں کو حاصل ہے وہ مسلمان ملکوں میں نہیں۔
اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمان دو گروہوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ ایک گروہ اسلامی تعلیمات ہی سے برگشتہ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مغربی لباس‘ مغربی فیشن اور مغربی تفریحات ترقی کا زینہ ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز مغرب کے لباس اور فیشن میں نہیں‘ علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ہے۔ دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ دنیا سے الگ تھلگ رہ کر اسلام کے اس ایڈیشن سے وابستہ ہو جانا چاہیے جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہے۔
اس عجیب و غریب صورتِ حال میں ہم رومی اور اُس کے مریدِ ہندی‘ اقبال سے رہنمائی مانگتے ہیں تو حیران ہو جاتے ہیں کہ وہ ان دونوں گروہوں سے بیزار ہیں۔ بالِ جبریل میں ایک طویل نظم ’’پیرو مرید‘‘ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان ملک کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہو، لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ اس نظم میں اقبال رومی سے مختلف امور پر رہنمائی طلب کرتے ہیں‘ وہ پوچھتے ہیں کہ موجودہ علوم سے ہمارا دین کیوں پریشان ہے۔ رومی جواب دیتے ہیں کہ علم جسم کے لیے ہو تو سانپ اور دل کے لیے ہو تو دوست ہوتا ہے۔ پھر پوچھتے ہیں کہ اہل مشرق‘ اہلِ مغرب سے مرعوب ہیں ، اس کا علاج؟ رومی جواب میں چاندی کی مثال دیتے ہیں کہ چاندی سفید ہے لیکن ہاتھوں اور لباس کو سیاہ کر دیتی ہے۔ اس سوال و جواب کا معراج دیکھیے، مریدِ ہندی کہتا ہے ؎
کاروبارِ خسروی یا راہبی؟
کیا ہے آخر غایتِ دینِ نبی؟
پیرِ رومی جواب میں فرماتے ہیں ؎
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دینِ عیسیٰ غارو کوہ
رہبانیت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جاہ و جلال اور شکوہ و شوکت مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ اقبال نے دونوں گروہوں سے اختلاف کیا ہے۔ ایک گروہ کو ہدایت کی ہے کہ مغرب کے ظاہر کی تقلید غیر ضروری ہے ، دوسرے گروہ کو مشورہ دیا ہے کہ ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنائو۔ اسرار ورموز میں وہ اشعار جو ’’قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب‘‘ سے شروع ہوتے ہیں‘ ہر مسلمان ملک کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مغرب کی طاقت ان کی موسیقی کی وجہ سے ہے نہ رقص و سرود کی وجہ سے‘ برہنہ ٹانگوں سے ہے نہ بالوں کی آرائش و بریدگی سے‘ لادینی سے ہے نہ لاطینی رسم الخط سے۔ اللہ کے بندو‘ مغرب کی طاقت کا راز اس کے علوم و فنون ہیں۔ حکمت لباس کی قطع و برید سے نہیں‘ نہ ہی عمامہ سائنس کا دشمن ہے ، ترقی کے لیے ’’نگاہ‘‘ مطلوب ہے‘ ٹوپی یا عمامے کی اقسام مسئلہ نہیں ہیں! فکر اور طبعِ درّاکی مطلوب ہے۔
یہ تھا اس گفتگو کا ماحصل جو اس لکھنے والے نے اناطولیہ سنٹر آف کلچر اینڈ ڈائیلاگ میں کی۔ اجتماع میں چینی‘ ترک‘ ازبک اور انگریز بھی تھے۔ سوال و جواب کا حصہ فکرانگیز تھا!
مختصر قیام کے دوران ہانگ کانگ کی ’’بزمِ شعرو سخن‘‘ نے بھی ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ان کاوشوں کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ کس طرح یہ حضرات اپنی جڑوں سے وابستہ رہنے اور رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ عابد علی بیگ ممتاز بینکار ہیں، کیپٹن شہزادہ سلیم جہاز رانی کے کولمبس ہیں، ساگر صاحب اور کے ایم ملک اپنے اپنے شعبوں میں نام کما رہے ہیں لیکن ان بے پناہ مصروفیات کے باوجود یہ پاکستانی اپنے دیگر دوستوں کی معیت میں پاکستانی ثقافت اور شعر و ادب کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اصل سفیر یہی دردمند پاکستانی ہیں جو غریب الوطنی میں وطن سے وابستہ ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“