پاکستان کے ستر سال ۔۔۔۔۔
آج کی کہانی میں پاکستان کی تاریخ کے ستر سالوں کے کچھ دلچسپ وعجیب حقائق کی سیر و سیاحت پر نکلتے ہیں ،اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیا تھا؟ کیوں اور کیسے بدل گیا؟ اصل حقائق کیا تھے؟امید ہے پاکستان کے ان ستر سالوں کی سیر و سیاحت بڑی دلچسپ اور عجیب و غریب رہے گی ۔مجھے یقین ہے کہ اس سیر کے دوران تمام ہم سب انجوائے کریں گے ۔پہلے پچاس کی دہائی کی سیر پر نکلتے ہیں۔اس دہائی میں سب پاکستانی جانتے تھے کہ انہیں بھارت سے آزادی مل گئی ہے ،لیکن اب شناخت کا مسئلہ تھا ۔کیسے شناخت کی تعمیر کی جائے ،آزادی تو مل گئی ،اب کرنا کیا ہے؟یہ سوال تھا ؟کس نظام کے تحت ملک چلانا ہے ؟اس کی فکر لاحق تھی ،گیارہ اگست 1947 کی جناح صاحب کی تقریر تو واضح تھی جس میں سیکولر اور لبرل نظریہ واضح طور پر جھلکتا ہے ۔جناح کی گیارہ اگست کی تقریر میں واضح کہا گیا تھا کہ مذہب اور سیاست کا آپس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ، ہندو ،مسلم اور عیسائی سب برابر کے شہری ہوں گے ،یہ بات بھی اس تقریر میں واضح تھی ،آج بھی لبرل اور سیکولر حلقے جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کا جگہ جگہ حوالہ دیتے نظر آتے ہیں ۔لیکن بدقسمتی کے جناح صاحب پاکستان کے بننے کے ایک سال بعد انتقال کر گئے ۔ان کی گیارہ اگست کی تقریر بھی ان کے ساتھ ہی انتقال کر گئی ،ادھر سے انیس سو اٹھتالیس میں کشمیر کی جنگ ہو گئی ،کنفیوزن میں اضافہ ہو گیا ۔اس دہائی میں فلم ،سیاست اور لٹریچر میں ترقی ہورہی تھی ،لیفٹسٹوں(بائیں بازووالوں ) کا دور تھا ۔سیاست میں ایک بات ہورہی تھی کہ پاکستان مسلمانوں کی اکثریت کا ملک ہے ۔لیفٹسٹ یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان ایک پروگریسو اور ڈیموکریٹک ملک ہوگا ۔ساتھ ساتھ دائیں بازو والوں کا نعرہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟اب دس سال گزر چکے تھے ،پاکستان کا مطلب ابھی تک ڈھونڈا جارہا تھا ؟کوئی بات نہیں بن رہی تھی ۔پھر ایک دم انیس انچاس میں قرار داد مقاصد آگئی ،اس میں یہ اشارہ دیا گیا کہ پاکستان کا جو آئین ہوگا ،وہ اسلامی ہوگا ،لیکن مطلب پھر بھی مبہم تھا کہ کیسا اسلامی ملک؟اب بھی پاکستان میں یہ بات ہورہی تھی کہ کیسے اس ملک کا تحفظ کرنا ہے، بھارت سے الگ بھی خوف کی وجہ سے ہوئے تھے ،اب اسی کے خوف کا شکار رہے۔ادھر سے جناح صاحب کی زندگی میں ہی ایسٹ پاکستان کا مسئلہ شروع ہو گیا تھا ۔انیس سو اٹھتالیس میں ڈھاکہ میں خطاب کے دوران جناح نے کہا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہو گی ۔ایسٹ پاکستان والوں میں ہلچل مچ گئی کہ وہ آبادی کا چھپن فیصد حصہ ہیں ،بنگالی زبان قومی زبان کیوں نہیں ؟حالات یہاں سے بگڑنے شروع ہو گئے ۔ایسٹ اور ویسٹ پاکستان کی تقسیم کا عمل زبان کے ایشو پر شروع ہو گیا ۔یہ دور سعادت حسن منٹو کا بھی دور تھا ،آزاد سوچ بھی عروج پر تھی ،پاک ٹی ہاوس میں لیفٹ کے دانشور کافی بھی پیتے ،چائے کی چسکیاں بھی لیتے ،سگریٹ کے کش بھی لگاتے اور ساتھ ساتھ یہ شاعر ،فلاسفر اور دانشور پاک ٹی ہاوس میں سیاست پر بھی بات کررہے تھے ۔اس گفتگو میں پاکستان کی شناخت کی باتیں ہورہی تھیں ،لبرل ،سیکولر اور جمہوری پاکستان کی شناخت پر یہ دانشور گفتگو فرما رہے تھے ۔اس زمانے کے پاک ٹی ہاوس کے کلچر کو جاننا ہے تو کے کے عزیز کی کتاب پاک ٹی ہاوس ضرور پڑھیں ۔یہ پوری کتاب ہی اسی کلچر پر ہے ۔انیس سو ستر تک پاک ٹی ہاوس کا کلچر نظر آیا ۔انیس سو پچاس کی دہائی میں شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی کی بھی خوب دھوم تھی ۔اس ناول میں ان مہاجرین کے بارے میں بتایا گیا ہے جو پاکستان آئے ،پھر یہاں کچی آبادیاں بننی شروع ہوئیں ۔پھر ان کچی آبادیوں میں جرائم کے آغاز پر بھی بات کی گئی ہے ۔یہ ناول محروم طبقے کی نمائندگی کرتا ہے ۔وہ محروم طبقہ جو خواب لیکر اس پاکستان میں آیا تھا ۔انیس سو چھپن اور ستاون میں اشرافیہ کی زندگی میں بہت چارم تھا ،نائیٹ کلب تھے ،پارٹیوں کا دور تھا ۔اخبارات میں بغیر دوپٹے کے اشتہارات سامنے آرہے تھے ۔اسلامسٹ ،لیفٹسٹ اور رائیٹسٹ دلچسپ و عجیب باتیں کررہے تھے ،سب شناخت ڈھونڈ رہے تھے ۔شراب لیگل تھی ،شناخت کے بحران کے حوالے سے جاننا ہے تو شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی کو ضرور پڑھیں ،نائیٹ کلب اور ریسٹورنٹس بن رہے تھے ۔مڈل کلاس والے بھی کسی حد تک زندگی کو انجوائے کررہے تھے ،ڈانس اور میوزک کا کلچر عروج پر تھا ۔کام کرنے والوں کے لئے بھی آسائشیں تھیں۔۔کسی حد تک امیر اور غریب کی زندگی میں سکھ چین تھا لیکن شناخت کا جن ابھی بھی ناچ رہا تھا ۔اب ساٹھ کی دہائی آگئی ،ساٹھ کی دہائی میں ایک بات پر اتفاق پیدا ہوچکا تھا کہ امریکا پاکستان کا یار ہے ،اس لئے پاکستان میں امریکی اڈے بن گئے ،سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے ہوگئے ۔صنعتی ترقی کا پیہہ چلنا شروع ہو گیا ۔صنعت کی ترقی کے حوالے سے بھی کلئیریٹی تھی کہ پاکستان کو اس میدان میں کہاں لے جانا ہے ؟پی آئی ائے بھی دنیا کے سامنے تھی ۔اس وقت چین سے بھی دوستی شروع ہو چکی تھی ۔یہ بھی کہا جارہا تھا کہ اس ملک میں بائیس خاندانوں کے پاس بے تحاشا دولت ہے ،اس لئے دولت کی تقسیم کا سوال بھی پید اہونا شروع ہو گیا تھا ؟ لیفٹ یہ آواز اٹھا رہا تھا کہ دولت کی تقسیم کے حوالے سے عدم مساوات کب تک ؟مغربی جمہورہت کی بات بھی ساٹھ کی دہائی میں ہونے لگی تھی ،لیکن پھر بنیادی جمہوریت کا ںظریہ عملی شکل میں نظر آیا ۔محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے خلاف میدان میں آئیں ،جو ان کے ساتھ ہوا ،وہ سب کے سامنے ہے ۔پھر انیس سو پیسٹھ کی جنگ ہو گئی،حالات،سیاست اور نفسیات میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ۔انیس سو پیسٹھ سے پہلے پاکستان میں دھڑا دھڑ بھارتی فلمیں آرہی تھی ۔پھر انیس سو پیسٹھ کی جنگ کے بعد پاکستان وہ نہ رہا ۔اب بنگالی بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس کررہے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب کے انیس سو اٹھاون کے مارشل لاٗ سے انیس سو پیسٹھ تک پاکستان میں شاندار صنعتی ترقی ہوئی ۔ترقی کی رفتار تیز تھی ،مڈل کلاس تیزی سے نمودار ہورہی تھی ۔تعلیم کا بھی عروج تھا ،زیادہ سے زیادہ اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیاں بن رہی تھی ۔پھر تعلیمی اداروں میں وسائل کا مسئلہ آیا ۔اسی وجہ سے طالبعلم سیاست میں آئے ،وہ اپنے حقوق کی باتیں کررہے تھے ،وسائل میں اضافے کی باتیں کررہے تھے ۔کہا گیا کہ انیس سو پیسٹھ کی جنگ میں ایوب کو بھٹو نے ملوث کیا تھا ۔انیس سو باسٹھ میں چین نے بھارت کو ایک جنگ میں شکست دی تھی ،ایوب کو یقین تھا کہ انیس سو پیسٹھ کی جنگ وہ امریکی بحری بیڑے کی مدد سے جیت لیں گے،لیکن وہ بحری بیرا نہ آیا ،کہا گیا امریکا نے دھوکا دے دیا ۔اس جنگ کی وجہ سے ایوب کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ،پاکستان کی معیشت بھی بیٹھ گئی ۔اسی بحران سے بھٹو نے نکلا ،جس نے ایوب خان کی پالیسیوں کے خلاف باتیں کی ،ایوب کا خوب استحصال کیا ۔بھٹو نے کہا جو جنگ ہم میدان میں جیت رہے تھے وہ ٹیبل پر ہار گئے ،حالانکہ حقیقت یہ نہ تھی ۔پہلی مرتبہ پاکستانی عوام کو محسوس ہوا کہ بھٹو درست کہہ رہا ہے اور وہ آمر کے خلاف ہو گئے ۔لیکن ایوب کے بعد یحیی آگیا ۔یہ وہ دور تھا جب پہلی مرتبہ پاکستانی پرنٹ میڈیا میں ییلو جرنلزم زرد صحافت کا باقاعدہ آغاز ہوا،شہناز گل اور مصطفی زیدی کے عشق کے اسکینڈل کو اخبارات میں اچھالا گیا ۔مرچ مصالحیہ والی خبریں لیڈ اور سپر لیڈ کی شکل میں سامنے آنا شروع ہوئیں ۔یہ انیس سو انھتر سے انیس سو ستر کے زمانے کی باتیں ہیں ۔پھر یحیی خان کی زیر نگرانی انیس سو ستر میں انتخابات ہوئے ۔انیس سو ستر کے انتخابات زبردست اور تاریخی تھے ۔کہا گیا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے ۔ویسٹ پاکستان میں بھٹو جیت گیا ،لیفٹ کو خوب کامیابی ملی ،مذہبی جماعتوں کو ویسٹ پاکستان میں بھی خوفناک شکست ہوئی ۔بلوچستان اور آج کے کے پی کے میں نیشنل عوامی پارٹی نے میدان مار لیا ،صرف ایک مفتی محمود تھے ،جنہیں کامیابی ملی ،ایسٹ پاکستان میں بنگالی قوم پرست جیت گئے ۔پھر انیس سو اکھتر کا زمانہ آیا ،جب پاکستان ٹوٹ گیا ۔بھٹو ،یحیی خان اور مجیب الرحمان پر الزامات لگے کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا ۔ویسٹ پاکستانیوں نے بھی بنگالیوں پر تشدد کیا ،اور بنگالیوں نے بھی ویسٹ پاکستانیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد دو قومی نظریئے پر سوال اٹھ گیا ؟پھر بھٹو آگئے اور پاکستان کی دوبارہ شناخت کا سفر شروع ہو گیا ۔انیس سو تھتر میں دانشوروں کے ساتھ ملکر بھٹو نے نئے آئین کو بنایا ۔اس نئے آئین میں نظریہ پاکستان آگیا ،اب معاشرتی علوم کی جگہ پاکستان اسٹڈی نے لے لی ،پاکستان کے عوام کی نفسیات میں یہ بات ڈال دی گئی کہ جنوبی ایشیاسے رشتہ توڑا جائے اور اپنے کلچر و ثقافت کو مڈل ایسٹ اور امت مسلمہ سے جوڑا جائے ۔پھر پاکستان فلسطین اور سعودی ہو گیا ،اسرائیل سے شدید دشمنی کی باتیں شروع ہو گئیں ۔یہاں سے ورکرز مڈل ایسٹ جانے لگے اور وہاں سے بے تحاشا دولت پاکستان آنے لگی ،اسلامی بھائی بندی کی باتیں آسمان پر پہنچ رہی تھی ،انیس سو تھتر میں بھٹو نے اسرائیل کے خلاف مڈل ایسٹ کی مدد کی اور پھر اسی وجہ سے انیس سو چوہتر میں لاہور میں اسلامی کانفرس کا انعقاد کیا گیا ۔بھٹو کو خبط ہو گیا کہ وہ عالم اسلام کا لیڈر ہے ،اسے تیسری دنیا کا عظیم ترین لیڈر کہا گیا ۔ادھر بھارت میں اندرا گاندھی کی حکومت جاچکی تھی ،بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان ایک مخاصمت کا رشتہ بھی تھا ۔اندرا گاندھی کی حکومت گر چکی تھی ،بھٹو نے کہا کہ وہ جلدی سے انتخابات کرادیتے ہیں ،کیونکہ وہ بہت پاپولر تھے ،انہیں یقین تھا کہ الیکشن جیت جائیں گے ۔بھٹو کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ ادارے بناتے ،لیکن یہ موقع انہوں نے کھو دیا ۔بھٹو کے دور میں پاکستانی فلمی صنعت عروج پر تھی ،ہر سال 250 فلمیں بن رہی تھیں ،ایک سے ایک بہترین پاکستانی فلم آرہی تھی ۔اس زمانے میں پی ٹی وی کے ڈراموں کا بھی عروج تھا ۔اس زمانے کو پی ٹی وی کے ڈراموں کا گولڈن زمانہ کہا جاتا ہے ۔لیکن سیاست دباو میں تھی ،بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ جو کیا ،اس کے علاوہ بلوچستان میں بغاوت کچلنے کی کو شش کی گئی ،حالانکہ سب جانتے تھے دو تین سال پہلے ملک ٹوٹ چکا تھا ،لیکن المیہ دیکھیں بلوچوں کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی، نیشنلائزیشن کی وجہ سے بھی صنعتی ترقی بحران کا شکار ہو گئی ،لیفٹ کو بھی بھٹو نے ناراض کردیا تھا ،مڈل کلاس بھی بحران کا شکار تھی ۔بھٹو آخر میں تنہا تھا ۔پھر بھٹو کی تنہائی کا انجام سب کے سامنے ہے ۔بھٹو ویسے ہی تنہا تھے جیسے آج نواز شریف کہتے پھرتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ؟بھٹو کے دور میں اسلامی سوشلزم ،نیشنل ازم کے خوب نعرے گونجے ،یہ نعرے صرف نعرے ہی رہے ،یہ صرف اظہار ہی رہا ۔ویسے بھی اس دور میں نیشنل ازم اور سوشلزم کی لہر تھی لیبیا اور شام کے علاوہ یوکے اور مصر میں بھی سوشلزم کا دور تھا ۔بھٹو کے زمانے میں پاکستان میں جگہ جگہ ہپی نظر آتے تھے جو امریکا اور یورپ سے ترکی ،پھر ایران سے افغانستان کے راستے پشاور آتے تھے ،اس طرح وہ کراچی میں بھی سیر سپاٹے کرتے ۔اس زمانے میں جرمن،انگریز اور امریکی پاکستان میں ہر جگہ نظر آتے تھے ۔ستر کی دہائی کے آخر میں خونی لکیر کھینچ دی گئی ،بھٹو کو پھانسی ہو گئی ۔اس کے بعد جنرل ضیاٗ کا دور شروع ہو گیا ۔اب افغانستان کی جنگ شروع ہو گئی ، اسلامائزیشن کا دور شروع ہو گیا ،ادھر سے ایران میں بھی اسلامی انقلاب آگیا ۔امریکا اور سعودی عرب کود پڑے ۔پھر آزاد اور جمہوری لوگوں کو کوڑے لگنے لگے ،عورتوں کے حقوق کی تحریک کے علاوہ تحریک بحالی جمہوریت عروج پر تھی ،آئین میں اٹھاون ٹو بی آگیا ۔غیر جماعتی انتخابات ہونے لگے ،غیر جماعتی حکومتیں بننیں لگیں ۔اس دور میں منافقت آسمانوں کو چھو رہی تھی ۔ترقیاتی فنڈز کی شکل میں کرپشن کو لیگل قرار دے دیا گیا ۔ایوب جدید پاکستان کا خواہش مند تھا ،بھٹو سوشلسٹ پاکستان کا علمبردار تھا ،اب ضیا آگیا تھا جو پاکستان کو اسلامی ملک کہتا تھا ۔اسی کی دہائی میں اس اسلامی ملک میں ہیروئن آئی،کلاشنکوف کلچر کی ترقی ہوئی ،فرقہ واریت اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا ۔پاکستان کا ایک اور نظریہ تلاش کرلیا گیا تھا ۔اسی کی دہائی میں مہرا ن گیٹ اسکینڈل آیا ،آئی جے آئی بنی ،ایجنسیوں کا کردار بڑھا ،آج جو ہم دو ہزار اٹھارہ میں کھڑے ہیں اسی کی عکاسی ہے، کیسے انتخابات ہوتے ہیں ،کیسے حکومتیں بنتی ہیں ،یہ سب اسی کی دہائی کے ضیائی کارنامے ہیں ،منتخب سیاستدانوں کو ہٹانے کی روایت ضیا کے کارنامے ہیں۔یہ سب بنیادیں اسی کی دہائی میں ڈالی گئیں ۔انیس سو اسی کی دہائی میں جو بچے تھے ،وہی پروان چڑھے،اب جگہ جگہ وہی نظر آتے ہیں اس لئے پاکستان کا اسی والا کیلینڈر ابھی تک چل رہا ہے ۔آج ستر سال کے بعد بھی سیاستدان سڑکوں پر پاکستان کا مطلب ڈھونڈ رہے ہیں ،یہ المیہ جنرل ضیا کی وجہ سے ہے ؟پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا ،لیکن یہ ایٹم بم کیا کام آیا ؟کشمیر کا کیا حال ہے ،افغانستان اسی طرح زخمی ہے ،مشرق وسطی کی صورتحال سب کے سامنے ہے ،پاکستان میں دہشت گردی ،انتہا پسندی ،نفرت ،تعصب اور فرقہ واریت عرج پر ہے ،یہ سب اسی کی دہائی کے کارنامے ہیں ۔انیس سو پچاس میں ہمارا بہترین دوست امریکا تھا ،اب ہمارا بہترین دوست چین ہے ۔ستر سال کے بعد بھی ہم انگلی پکڑ کر خوف زدہ ہو کر سفر کررہے ہیں ،غیر محفوظ ہونے کی نفسیات ہمارے ساتھ ہے ۔آپ سب کو آزادی مبارک ہو ،بہت سی اچھی باتیں ہیں جو بھلادی گئی ہیں ،یا جنہیں مٹا دیا گیا ہے ،ان اچھی باتوں اور خیالات کو ہمیں یاد کرنا چاہیے ۔جب تک ہمیں ماضی کی انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوگی ہم مستقبل کی انڈر اسٹینڈنگ سے محروم رہیں گے ۔آج بھی نواز شریف سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں کہ پاکستان کو نئے آئین اور نئی شناخت کی ضروت ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ آیئے ہم سب مل کر سوچتے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔