پاکستان جو سب کے لیے ہو ۔
آسٹریلیا کہ نئے وزیراعظم موریسن نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ میں ایک ایسے آسٹریلیا کی بات کر رہا ہوں جو سب آسٹریلوی باشندوں کہ لیے کام کرے ۔ کل میں ایک مارکیٹ میں بلکل نئ آئ کتاب پڑھ رہا تھا جو مجھے لگا کہ سیاست پر نہیں بلکہ روحانیت پر ہے ، امریکہ کی موجودہ حکومت والا بیانیہ نہیں بلکہ مدینہ والی حضرت محمد صلی و علیہ وصلم کی ریاست کی عکاسی ہے ۔ عمران خان خود اور اس کہ مرید اور پجاری ضرور مطالعہ کریں ۔ کتاب کا نام ہے
“The Common Good “
لکھاری ہے Robert B Reich
جس نے اس سے پہلے درجنوں کتابیں لکھی ہیں ، کہ کیسے سرمایا دارانہ نظام کو بچایا جائے ، کیسے سوشلزم اور کیمیونزم سے بچا جائے ۔ اور اب اس نے دائرہ مکمل کیا ، واپس قدرتی نظام کی بات کی ۔ وہی چودہ سو سال پہلے کا حضرت محمد صلی و علیہ وصلم والا فارمولا ، جسے ہمارے لبرل موم بتی مافیا والے کہتے ہیں وہ آجکل کہ دور میں قابل عمل نہیں ۔ میری والدہ چٹی ان پڑھ تھیں ، وہ بتایا کرتی تھی کہ کیسے وہ ریاست ابھی بھی قابل عمل ہے ۔ میں کہتا ہوں ہر پاکستانی ایم پی اے ، ایم این اے اور سینیٹر کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کمپلسری کر دیں ۔ غربت، جہالت اور بے روزگاری شرطیہ سو دنوں میں ختم ہو جائے گی ۔ مجھے پی ٹی آئ والے اکثر کہتے ہیں آپ تنقید کرتے ہیں تجاویز نہیں دیتے ۔ میرا خیال ہے اب تک میں نے اردو میں کوئ تین سو بلاگ لکھ چکا ہوں ، کوئ ہی ایسا بلاگ ہو گا جس میں ، میں نے کوئ ایسی بات کی ہو کہ آپ ڈیم بنائیں اور میں جھونپڑی وہاں ڈال کر پہرہ دوں گا ۔ ایسا بلکل نہیں ۔ میں جناب عملی خاکہ اپنے ہربلاگ میں پیش کرتا ہوں ۔ میں تو ایک بہت سادہ آدمی ہوں ۔ کوئ ضروریات زندگی نہیں ۔ چوبیس گھنٹے کائنات کی عبادت میں گزارتا ہوں ، سبحان اللہ کا ورد کرتا ہوں، اسی میں آنکھ لگ جاتی ہے ۔ وہی میرا اورھنا بچھونا ہے ۔ آج یہاں بہت تیز بارش تھی میں نے گھر سے کافی ہاؤس کا ایک کلومیٹر کا سفر بارش میں نہاتے کیا ۔ جب یہاں بھیگتا ہوا پہنچا ایک خاتون بولی ، did you enjoy میں نے کہا بارش میں نہانے سے روحانی دماغ کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں ، کہنے لگی میں بھی ایسا کرتی ہوں ۔
ایک روسی یہودی Ayn Rand ۱۹۴۰دہائ میں امریکہ آئ اور خودی پر زبردست بیانیہ پیش کیا ۔ اس کہ دو ناول fountain head اور atlas shrugged بہت زیادہ مقبول ہوئے ۔ اسی کی سوچ پر ٹرمپ چلتا ہے ۔ ٹرمپ سے جب پوچھا گیا اس کی فیورٹ بُک تو اس نے فورا کہا fountainhead اور اس کہ ایک اور وزیر نے کہا atlas shrugged ۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ میں George Roark بننے کی کوشش کرتا ہوں جو فاؤنٹین ہیڈ مرکزی کردار ہے ۔ ٹرمپ ٹیم کہ ۶۰ فیصد لوگ اس کہ مداح ۔ میں بھی Ayn Rand کا بہت بڑا مداح ہوں ۔ فاؤنٹین ہیڈ میری بھی پسندیدہ کتابوں میں ہے ، لیکن میں اس کہ خود غرضی کہ بیانیہ کا بہت بڑا ناقد ہوں ۔ انسانوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ اپنی کتاب the common good میں reich نے شروعات میں دو بہت بڑی مثالیں دی ہیں ایک مارٹن شیکریلی کی اور دوسری امریکی بینک Wells Fargo کے CEO کی ۔ دونوں مثالیں بہت زبردست ہیں ۔ شیکریلی بچپن سے ہی God gifted زہن کا مالک ہوتا ہے ۔ نیویارک کہ ایسے اسکول سے تعلیم حاصل کرتا ہے جہاں صرف بہت زیادہ IQ والے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے ۔ بزنس مینیجمنٹ کی ڈگری لی اور پوری دنیا پر hedge fund اور کئ اور ponzi اسکیموں سے چڑھائ کر دی ۔ جب پکڑا گیا ٹرائیل ہوا ، دنیا کہ مہنگے ترین وکیل کیے ، میڈیا خرید لیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فری مارکیٹ اکانومی ان حرکتوں کی اجازت دیتی ہے ۔ کہا “میں جیوری خرید لوں گا ، میں جج اغوا کر لوں گا ، وغیرہ وغیرہ ۔ میرے لیے نیو یارک پورا کھڑا ہو جائے گا ۔ وہی بھٹو اور نواز شریف والا بیانیہ ۔ شیکریلی کو نہ صرف شکست ہوئ ، جیل بگھتنی پڑی ۔ felony پر convict ہوا ایک ایسا جُرم جو امریکہ میں مستقبل میں کچھ بھی کرنے سے روک دیتا ہے۔ آج بھی نیو یارک رہتا ہے ۔ وکیپیڈیا اس کا تعارف felony میں convicted کا کرواتا ہے ۔
اسی طرح دوسری مثال Berkeley جہاں Reich رہتا ہے ، اشارہ پر ایک ٹائ سُوٹ میں ملبوس شخص مل جاتا ہے ۔ Reich بہت حیران ہوتا ہے کہ برکلے میں کوئ سڑک پر سُوٹ پہنے پھر رہا ہے ۔ پتہ لگتا ہے موصوف John Stumpf ہے امریکہ کی مشہور بینک Wells Fargo کا CEO، رِیش اسے ملنے کا کہتا ہے ۔ دونوں کافی شاپ پر ملتے ہیں ۔ رِیش اسے سمجھاتا ہے کہ اگر آپ public good کہ لیے اب کام نہیں کریں گے مر جائیں گے ۔ سرمایہ دارانہ نظام پِٹ جائے گا ۔ لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے ۔ جون ، پیسے کی طاقت کہ نشے میں اندھا ہوا ہوا تھا نہیں مانا ، بولا ہمارا ہدف صرف اور صرف maximisation of profits ہے ۔ زیادہ سے زیادہ منافع ۔ وہی ہوتا ہے جو رِیش نے اس کہ بارے میں سوچا تھا ، امریکی ریگولیٹرز بینک کا corrupt practices اور forgery پر احتساب شروع کر دیتے ہیں ۔ لاکھوں ملین ڈالر کا بینک کو جرمانہ ہوتا ہے۔ جب Wells Fargo کا ٹرائیل ہو رہا تھا ، اور اسے جرمانے ہو رہے تھے ، تو جون تب بھی شیکریلی کی طرح تڑیاں لگا رہا تھا عدالتوں کو، ججوں کو ریگولیٹرز کو ۔ میڈیا سارا جون نے خرید لیا تھا ۔ کوئ خبر بینک کہ خلاف نہ چھپنے دی ، آخر بینک ہار گیا ، جان کو پسپائ ہوئ ۔ مجھے ملک ریاض ، جہانگیر صدیقی ، رزاق داؤد اور منشا یاد آ گئے ، جو خدا بنے ہوئے ہیں ، اور آج بھی ریاست چلا رہے ہیں اور عمران خان کہ دوست ، ججوں کہ دوست اور میڈیا بھی اپنا ۔
رِیش کا بیانیہ مدینہ کی ریاست سے کیسے ملتا جُلتا ہے ؟ کیونکہ رِیش بھی نہ صرف اخلاقیات کی بات کر رہا ہے ، بلکہ working for others کی بات کر رہا ہے ۔ اس کہ نزدیک بھی ہمارا ایک دوسرے کہ بغیر رہنا ناممکن ہے ۔ استحصال ہر قسم کا ختم کرنا اس کہ نزدیک بھی اشد ضروری ہے۔ ماشاءاللہ خان صاحب نے آج تک استحصال کی بات تک نہیں کی ، کیونکہ استحصالی تو اس کی حکومت کہ نو رتن ہیں، اور عمران کہ مداح کتوں کی طرح ہم بھلائ کی بات کرنے والوں کا تعاقب کر رہے ہیں ۔ کلاسرا کا جلوس نکال رہے ہیں ۔ اور کہ رہے ہیں کلاسرا سے پُوچھا فلاں آرڈر کا ؟ بھئ کلاسرا نی تو کہ دیا جہانزیب کو نکالیں ۔ کل ایک ممبر بورڈ کا فون آیا کہنے لگا یہ احمق اب ہم سے پوچھتا ہے کہ کیا کروں ، آپ نے نزر صاحب ٹھیک تجویز دی تھی کہ ڈاکٹر اکرام جیسے بندے کو لگائیں ۔ آپ سننا ہی نہیں چاہتے ۔ ہم بھول گئے ہیں کہ یہ ہم سب کا پاکستان ہے ۔ ہم سب کہ stakes ہیں اس میں ۔ اگر ہمارے دشمن ہیں تو استحصالی طبقہ ہے ۔ رِیش استحصال کہ برعکس کہتا ہے ۔
Common Good means “We owe to each other”
ہم نے ایسے سوچا؟ کتاب کہ گولڈن ورلڈ ز رِیش کی ذبانی درج زیل ہیں ۔
“We are not in a zero sum game with the rest of the world. Our common good is inextricably bound up in the good of the rest of the planet”
کیا خوبصورت بیانیہ ہے ، جس طرف اب امریکہ جانے کہ لیے مجبور ہے ۔ کیونکہ ۹۸% آبادی یہی کہ رہی ہے ۔ اسی لیے میں کہتا ہوں پاکستان اب اپنی فکر کرے ۔ امریکہ کو کوئ دلچسپی نہیں ماسوائے پاکستان کی بہتری کہ کیونکہ ہم سب یہ planet شئیر کر رہے ہیں ۔ اور کیا زبردست رِیش بات کرتا ہے کہ
“the common good has nothing whatever to do with United States being the best..
جو ہم روحانی لوگ کہتے ہیں مقابلہ کہ مخالفین ۔ کیا کمال کی بات کی ۔ یہ تھی روح ، مدینہ کی ریاست کی ۔ جس سے ہر کوئ جان چھڑا کر کہ رہا ہے کہ اب کہاں یہ ممکن ہے ۔ یہ تو قصہ قرینہ ہے ۔ اب تو نعوزباللہ نئے نبی آ گئے غلام احمد جیسے ، وہ بتائیں گے کہ ملک کیسے چلانے ہے ۔
اسلام تو جناب مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ مکمل دین ۔ اسلام کی تو روح ہی بھائ چارہ اور اجتماعی خود کفالت ہے جناب عمران خان صاحب ۔ آج جمائمہ قادیانیوں کو اسلام سے خارج کرنے پر تنقید کر رہی ہے ، میڈم زرا اپنی گولڈ سمتھ ایمپائر بیچ کر عمران کی مدد تو کر دو ۔ ادھر امریکہ میں شاہد خان کو خوامخواہ گھسیٹ رہے ہیں ، جس کا شوق ہی پیسہ ، پیسہ اور پیسہ ہے ۔ سچے محب وطن کی سوچ مختلف ہوتی ہے ۔ جسے رِیش کچھ اس طرح کہتا ہے ۔
“True patriot seek to strengthen and celebrate the “we” in “we the people”.
اور آخر میں تعلیم پر رِیش کا بیانیہ بھی اسی طرح کا ہے جو ہمارے نبی کا تھا جب انہوں نے فرمایا تعلیم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے ۔
“Education is public good that builds the capacity of a nation to wisely govern itself and promotes equal opportunity. Democracy depends on citizens who are able to recognise the truth, analyse and weigh alternatives, and civilly debate their future , just as it depends on citizens who have an equal voice and equal stake in it. Without an educated populace a common good cannot be discerned. When education is viewed as a private investment yielding private returns , there is no reason why any one order than the “investor” should pay for it. But when understood as a public food underlying our democracy, all of us have a responsibility to ensure that it is of high quality and available to all ..”
خان صاحب اگر آپ کہ وزیر تعلیم کو یہ انگریزی نہ سمجھ آئے تو یہ خادم ، مفت ترجمہ بھی کر دے گا ۔ اگر آپ یہ کر گئے تو میں آپ کہ قدم چوموں گا ۔ بس دنیا ٹی وی بند کرنا پڑے گا اور ان تعلیم کی فیکٹریوں کو آگ لگانی ہو گی ۔
خوش رہیں ۔ جیتے رہیں ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔