پاکستان، ایران اور افغانستان (۱۹۷۹-۲۰۱۸)
کل ایران میں زبردست ہنگامے بر پا رہے ۔ عوام نے کرنسی ایکسچینج کے دفتروں میں دھاوا بول دیا ۔ ایران کی کرنسی اتنی گر گئی ہے کہ نہ ہونے کِہ برابر ہو گئی ۔
یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ چالیس سال میں جب ان تینوں ملکوں کو مزہبی جنونیت کا دورہ پڑا ۔ پاکستان اور افغانستان میں تو امریکہ نے بھی بھر پور ساتھ دیا ایران کے لیس میں صرف شاہ کو ہٹانے کی حد تک ۔
آج چالیس سال بعد قدرت کا لگتا ہے ایک cycle پورا ہو گیا ہے اس ظلم ، جہالت اور بربریت کا ۔ اس میں صرف امریکہ کو مورد الزام ٹھہرانا سرا سر زیادتی ہو گی ۔ صرف اور صرف ان تین ملکوں کے بے ایمان ، لالچی ، لوگ اور حکمران قصوروار ہیں ۔
ویتنام پر بھی امریکہ نے چڑھائ کی تھی ۔ منہ کی کھانی پڑی ۔ قوم متحد تھی ، ٹکوں پر بکنے والی نہیں تھی ۔ آج ویتنام south east Asia کی بہترین performing economies میں ہے ۔ میں خود یہاں ذیادہ ویتنام کے بنے ہوئے کپڑے پہنتا ہوں ۔
ان تین ملکوں میں ایسا کیوں نہیں ہو سکا ؟
۱۔ عوام میں اتحاد نہیں تھا ، شیعہ سنی ، پشتون بلوچ، اور دیگر بنیادوں پر بانٹ کر آپس میں لڑایا گیا ۔
۲۔ لیڈروں کو حرام کھانے کے مواقع مہیا کیے گئے ۔ حامد کرزائ ہو ، یا عبداللہ عبداللہ ، Monte Carlo کے اپنے resorts میں جا کر جب تک موج مستی نہیں کر لیتے تھے دل نہیں بہلتا تھا ۔ پاکستانی لیڈروں کا سرے محل سے لے کے ایوان فیلڈ اپارٹمنٹس اور ساؤتھ فرانس اور نیو یارک میں جائدادیں ۔ دبئ میں وِلے ۔ اور پھر لگژری حج اور عمرے کے تڑکہ ۔ کیا vip موج میلہ ۔
۳۔ عوام کی مکمل بے حسی ۔ تینوں ملکوں کے عوام مولوی کے ہاتھوں نفسیاتی طور پر ہار مان چکے تھے ۔ حالانکہ اس بدمعاش مولوی گروپ کی تعداد مٹھی بھر بھی نہیں تھی لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر ساری قوم کو آگے لگائے رکھا ۔
۲۰۰۷ میں انصار عباسی نے ایک پاکستانی کو کراچی میں ای میل کے زرئیعے گستاخی رسول کے الزام میں واجب قتل قرار دے دیا ۔ میں اور ایک اور وکیل اس کو فورا امریکی قونصلیٹ لے کر گئے اور وہیں سے امریکی قونصلیٹ نے پہلے جہاز پر امریکہ بھجوا دیا ۔ آج تک اس لڑکے کے والدین ہمیں دعائیں دیتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انصار عباسی اور اوریا مقبول نے مجھے بھی اس چکر میں مروانے کے لیے ٹِل کا زور لگایا میرے کیس میں چلی نہیں ۔ عوام میں انہوں نے دہشت پھیلائ ہوئ تھی ۔ ممتاز قادری کا مزار بن گیا ہے اس کی گال چومنے والا اعلی عدلیہ میں نہ صرف جج ہے سپریم جیوڈیشل کونسل میں کیس کے باوجود چیف جسٹس کو آنکھیں دکھاتا ہے ۔ لینڈ مافیا ان کے ہاتھ ہے ۔
۴۔ جب ریاست اپنی بنیادی زمہ داریوں سے پیچھے ہٹ جاتی ہے تو پھر non state actors کو موقع ملتا ہے چودھراہٹ کا ۔ ہر گلی میں رحمن ڈکیت ، منظور کاکا اور ندیم اُسترا جیسے کردار پیدا ہوتے ہیں ۔ بلکل یہی ہوا حالنکہ پاکستان کی آرمی ان تینوں ملکوں کی فوجوں میں سب سے طاقتور ہونے کے باوجود ان بدمعاشوں کے سامنے بے بس ہو گئ ۔ آج حافظ سعید کو ہاتھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ۔ اظہر مسعود کو چوم رہی ہے ۔ راؤ انوار کو پشتونوں کی ناراضگی مول لے کر پروٹوکول دے رہی ہے ۔
پاکستان کہاں کھڑا ہے ؟ کیا کل جو اسمبلی کے ممبران نے قصور میں عدلیہ کے لیے غلیظ زبان استمعال کی یہ ملک کہلانے کے قابل ہے ؟ یہ وہی وسیم اختر ہے جس کہ بارے میں ۲۰۰۹ میں ڈاکٹر توقیر کے زریعہ میں نے شہباز شریف کو بتایا تھا کہ ہر قسم کے گند ، جعل سازیوں اور فراڈ کا سرغنہ ہے ۔ کاش شاہد مسعود اس کا گناہ ثابت کر سکتا ۔ اس وقت بھی اسے رانا ثناءاللہ نے بچایا تھا ۔ شہباز پھڑکانا چاہتا تھا ۔
اب ابن عباس میرا دوست لندن میں پاکستان کا ہائ کمیشن ، میرا بیچ میٹ نواز شریف کو لندن میں مودی سے ملوانے کے چکر میں ہے ۔ کسی نے common wealth کی وہ شق جو مارشل لاء کی وجہ سے پاکستان کے لئے ہٹا دی تھی جس کہ تحت دو سال کے لیے internship /apprenticeship کے لیے کسی بھی کامن ویلتھ کے ملک کوئ بھی طالب علم جا سکتا تھا اس کو بحال کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کا فائیدہ بھی ہندوستانی طالب علم اٹھا رہے ہیں ۔ دکھ ہوتا ہے ۔
کل کلاسرا صاحب شہباز شریف کے داماد کا صاف پانی کمپنی کو حیرت انگیز کرائے کی شرح پر پلازہ دینے کی بات کر رہے تھے مجھے ۲۰۱۲ کی کراچی سے میرے ایک پراپرٹی ڈیلر کی ڈیل یاد آگئ ۔ لاہور سے ایک ڈیلر نے اسی داماد صاحب کو یہ پلازہ لے کہ دیا کیونکہ امریکی صرف کرائے پر لیتے ہیں اور پھر کراچی کے ڈیلر نے امریکیوں کو کرائے پر دلوایا۔ اور میرے کراچی کے اس ڈیلر دوست کا کمیشن ہی امریکیوں سے ۵ کروڑ تھا ۔ غالبا یہ وہی پلازہ ہے یااسی طرح کا کھیل ہے ۔ داماد صاحب تو وہی ہیں ۔ ایم ایم عالم روڈ ۔
تینوں ملک اس وقت اس چوراہے پر کھڑے ہیں جہاں صرف بچت کا راستہ امریکہ ہے ۔ محمد بن سلمان کی طرح ہاتھ جوڑ کر ٹرمپ کے سامنے کھڑے ہو جاؤ کہ حضور یہ مزہبی جنونیت کا گند آپ ہی نے ہم سے کروایا تھا اب آپ ہی اس سے ہماری جان چھڑوائیں ۔ تینوں ملکوں کے عوام تیار ہیں ۔ میری یہاں امریکہ ان سے ملاقات ہوتی ہے ۔
ہاں البتہ اوریا مقبول اور خادم رضوی ابھی بھی بضد ہیں کہ UNO میں آزان دی جا سکتی ہے اور لال قلعہ دہلی پر ایک نہ ایک دن سبز ہلا لی پرچم ضرور لہرائے گا ۔ پچھلے چالیس سال میں تو نہیں ہو سکا آگے دیکھتے ہیں اس کے لیے کتنی مزید جانیں ضائع ہوتی ہیں ، خون کی ندیاں بہتی ہیں اور ملک بچتا بھی ہے کہ نہیں ؟
جیتے رہیں آپ سب۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔