گرمیوں کے موسم میں آم کے بارے میں مباحثے بھی بہت عام ہیں۔ کوئی لنگڑے کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہے تو کوئی چونسا کے قصیدے پڑھتا ہے تو کوئی دسہری کے سامنے کسی دوسرے آم کو نہیں پوچھتا، اسی طرح الفانسو یا ہاپس کے پرستار اس آم کا دم بھرتے ہیں۔
پچھلے کچھ برسوں میں آم کے بارے میں اس خیال میں اضافہ ہوا ہے کہ کچھ آم تو خاص ہیں اور باقی صرف عام ہیں۔ مہاراشٹر اور گوا میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایک آم تو بس ایک ہی ہے اور وہ ہے الفانسو۔
یہ بھی پڑھیے
آم کے بارے میں چند رسیلے حقائق
یہ سال آم اور عوام، دونوں کے لیے اچھا نہیں۔۔۔
کورونا لاک ڈاؤن: کیا اس مرتبہ آم بھی کھانے کو نہ ملیں گے؟
کہا جاتا ہے کہ پرتگالی جنرل الفونسو ڈی البقرق نے ہاپس کی کاشت کی بہت حوصلہ افزائی کی ہے اور آم کی اس نسل کو الفانسو کے نام سے اپنے نام کر لیا۔ گوا سے لے کر مہاراشٹر کے ساحلی رتناگری تک اس کی وافر مقدار میں پیداوار ہوتی ہے۔
الفانسو ممکنہ طور پر سب سے مہنگا آم ہے اور اس کا ایک بڑا حصہ انڈیا سے باہر بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ یورپی منڈی میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔
تاہم اگر آپ بہار اور مغربی بنگال جائیں تو تقریباً الفانسو جیسی ہی تعریف آپ مالدہ کی سنیں گے جبکہ وارانسی کے لوگوں کا خیال ہے کہ ذائقہ کی دوڑ میں جیت بالآخر لنگڑے کی ہی ہوگی۔ دوسری طرف لکھنؤ والوں کے لیے دسہری ہی سب کچھ ہے۔ اس کی شان میں کہا جاتا ہے کہ 'واہ واہ یہ لکھنؤ کی نایاب دسہری ہے، خوش لذت و خوش صورت خوش آب۔'
چند اقسام پر ہی تمام تر توجہ
خیر اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آم کی پسند و ناپسند ہمیشہ ہی علاقائی بنیادوں پر رہی ہے۔ اکثر یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ بچپن میں آپ کی زبان کو کو نسا ذائقہ بھا گیا۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مسئلہ در حقیقت دوسری جگہ کا ہے۔
انڈیا مختلف النوع قسم کی ذات پات اور برادریون والا معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے یہاں جتنی ذات پات ہیں ان سے کہیں زیادہ آم کی اقسام ہیں۔ آموں کی 1500 سے زیادہ اقسام کتابوں میں درج ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے علاوہ بھی بہت سی قسمیں ہیں جن کا ذکر کتابوں میں نہیں ہے۔
اس کے باوجود اگر آپ آم کے کسی شوقین خریدار سے پوچھیں تو وہ آم کی چار یا پانچ سے زیادہ اقسام کے نام تک نہیں بتا سکے گا۔ خوشبو، ذائقہ، رنگ و شکل سے شناخت کرنا تو دور کی بات ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جو آم کے بارے میں باتیں کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ ایسے لوگ لکھنؤ کے قریب ملیح آباد کے حاجی کلیم اللہ خان صاحب کے بارے میں ضرور جانتے ہوں گے جو ہر سال آم کی دو سے چار نئی اقسام متعارف کرواتے ہیں۔ ویسے ان کے باغ میں آم کی 300 سے زیادہ اقسام ہیں۔
حیرت انگیز طور پر انھوں نے یہ کیا کہ وہ ایک ہی درخت کی مختلف شاخوں پر بیسیوں طرح کے مختلف آم اگاتے ہیں اور ان کے مختلف نام رکھتے ہیں اور ہر ایک کی خصوصیت اور پہچان بھی بتاتے ہیں۔
قابل احترام آم اور معمولی آم
بہر حال انڈیا میں آم کی کچھ اقسام کو بہترین تسلیم کر لیا گیا ہے۔ انھیں بازاروں اور باغات میں ترجیح دی جاتی ہے، دوسری اقسام کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہاپس، چونسا، مالدہ، لنگڑا اور دسہری جیسے آم اپنے اسٹار سٹیٹس کی وجہ سے مقبول ہیں، تو سفیدہ اور طوطاپری جیسے آم اس لیے فروخت ہوتے ہیں کہ یہ آم کے موسم کے آغاز میں ہی بازار میں آ جاتے ہیں دوسرے شیلف لائف اچھی ہونے کی وجہ سے انھیں دور دور تک بھیجنا آسان ہے۔
اس وقت باغات کے مالکان تین قسم کے آموں پر تمام تر توجہ دے رہے ہیں۔ ایک جس کی زیادہ مانگ ہے، دوسرے جس میں زیادہ پھل آتے ہیں، اور تیسرے جو زیادہ دنوں تک رکھے جا سکیں تاکہ ان کو دور دراز تک بھیجا جا سکے۔
دریں اثنا بہت سی دوسری اقسام کے آم کم ہو رہے ہیں اور وہ اپنی شناخت بھی کھو رہے ہیں۔ بہت ساری فصلوں کی طرح مارکیٹ کے دباؤ میں آم کی اقسام یا تنوع میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
ویسے بھی بہت کم ہی ایسے آم ہیں جو پورے ملک میں پائے جاتے ہوں۔ ہر آم ایک خاص علاقے میں پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کرناٹک میں بادامی یا تمل ناڈو میں مالگوبہ کا دہلی میں ملنا مشکل ہے لیکن لمبی شیلف لائف کی وجہ سے آندھرا پردیش کا سفیدا، بیگم پلی اور طوطا پری پورے ملک میں فروخت ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
زردالو گلاب خاص، رس پریہ، ملیکا اور ون راج جیسی اقسام جو دس سال پہلے تک دیکھی جاتی تھی اب آسانی سے نظر نہیں آتی۔ یہ برے آم نہیں تھے لیکن کسی وجہ سے وہ لنگڑے، دسہری یا مالدہ کی طرح سپر ہٹ نہیں ہوسکے تھے۔
آم کی خاص شناخت
ہر آم کی مخصوص شناخت اس کی خاص شکل، رنگ و بو، ذائقہ اور مٹھاس سے ہوتی ہے۔ اگر ہم خوشبو اور ذائقہ کو ملا کر آم کے ذائقہ کو دیکھیں تو ہمارے سامنے آم کا موسم مختلف طرح سے کھلتا ہے۔
لیکن اس سے پہلے ذرا آم کے ذائقے کو سمجھیں۔ آم کے ذائقے میں دو چیزیں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔ ایک تو آم میں آم پن ہونا یعنی ایک خاص ذائقہ جو اسے دوسرے پھلوں سے ممتاز کرتا ہے اور دوسرے یہ کہ آم کی مختلف قسم کا خاص ذائقہ جو اسے دوسری اقسام کے آم سے الگ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آم کی ایک مٹھاس ہوتی ہے جو اپنی اقسام کے ساتھ مختلف ہوتی ہے۔
آم کے پورے سیزن میں آپ اس کے ذائقے اور مٹھاس میں ایک خاص تال میل دیکھ سکتے ہیں۔
آم کے سیزن کا آغاز طوطاپری اور سفیدہ سے ہوتا ہے جو جنوبی ہند، خاص طور پر آندھرا اور تیلنگانہ سے آتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑے سے کھٹے پن کے ساتھ آپ سندوری کو بھی اس زمرے میں ڈال سکتے ہیں۔ آم کی ابتدائی اقسام کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ذائقہ اور مٹھاس دونوں قدرے ہلکے ہوتے ہیں۔
لیکن صرف اسی بات سے ان آم کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ آم کے سیزن شروع ہونے کا اعلان کرتے ہوئے مارکیٹ میں آتے ہیں۔ اس کے بعد ہاپس، دسہری، لنگڑا، مالدہ جون کے مہینے میں تقریبا اسی ترتیب کے ساتھ بازار آتے ہیں۔ یہ ذائقے، بو اور مٹھاس ان تینوں میں بھرپور ہوتے ہیں۔
آم کی پوری مارکیٹ پر بھی انھی کا بول بالا رہتا ہے۔ کچھ لوگ 15 جون سے جولائی کے آخر تک کو آم کا اہم موسم مانتے ہیں۔ ویسے ساون کے مہینے کے خاتمے کے ساتھ آم کا موسم بھی جاتا رہتا ہے۔ بہر حال جب مون سون نے لگ بھگ پورے ملک کو بھگانا شروع کر دیتا ہے تو آم بازار میں آتے ہیں جو ذائقہ اور مٹھاس میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتے ہیں۔
اگر اچار، چٹنی، آم پاپڑ، کھٹائی، آمچور، گلکا، گلما وغیرہ میں استعمال ہونے والی بہت سی قسمیں کو چھوڑ دیا جائے تو باقی بچے آم انھیں دنوں کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں ہوتے ہیں۔
فراموش کردہ دیسی آم
دیسی یا تکمی آم ہر علاقے میں مختلف نظر آتے ہیں۔ بازار میں زیادہ کامیاب ہونے والے آموں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ذائقے اور روپ میں یکسانیت ہے۔ ایک ہی درخت یا باغ کے تمام آم میں ایک جیسا ذائقہ ہوتا ہے، جیسے یہ کسی فیکٹری میں بنایا گیا ہو۔ لیکن تکمی آم کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ایک درخت کو تو چھوڑیے اگر ایک ڈال پر چار آم ہوں تو چاروں مختلف ہو سکتے ہیں۔ کچھ کم میٹھا، کچھ بہت میٹھا، کچھ کھٹا اور کچھ بہت کھٹا۔
ذرا ماضی میں جائيں تو گاؤں اور قصبوں میں ان آم کی بہت مانگ ہوتی تھی۔ وہ سینکڑے کے حساب سے فروخت ہوتے تھے۔ لوگ انھیں ایک بالٹی میں رکھ کر کھاتے تھے اور ان کو کھانے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ لیکن اب ان کی پوچھ نہیں رہی۔ نہ بازار میں اور نہ ہی گھروں میں۔ جس طرح سے ان کے باغات کا رقبہ کم ہورہا ہے وہ جلد ہی معدوم آموں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔
ایسی کئی اور اقسام بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک آم لکھنؤ سفیدہ ہے۔ اگرچہ یہ آندھرا پردیش سے آنے والی سفیدہ آم سے کہیں زیادہ چھوٹا ہوتا ہے لیکن یہ ریشے اور مٹھاس میں اس سے کہیں زیادہ گودے دار ہوتا ہے۔ دسہری کے سیزن کے اختتام پر آنے والے اس آم کا مقابلہ اگر کسی سے ہو سکتا ہے تو وہ ملیح آبادی سفیدہ ہے جو سائز میں اس سے قدرے بڑا ہوتا ہے۔
ملیح آباد ضلع لکھنؤ کا ایک قصبہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ایک چھوٹے سے علاقے میں آم کی کتنی اقسام تیار کی گئیں ہیں۔ بہت سارے آم ہیں جو اپنی مختصر شیلف لائف کی وجہ سے بڑی شناخت نہیں بنا سکے اور اب انھیں مقامی سطح پر بھی فراموش کیا جارہا ہے۔
آخر میں جس آم کا ذکر کرنا سب سے اہم ہے وہ فضلی ہے۔ آپ کو شاید ہی آموں کا کوئی ایسا شوقین ملا ہو گا جو کہے کہ اسے فضلی یا فجری پسند ہے۔ یہ بھاری آم جو موسم کے اختتام پر آتا ہے اپنے میلے کچیلے رنگ روپ کی وجہ سے اپنی جانب کسی کو راغب نہیں کرتا ہے۔
فضلی سے ملنا مغربی اتر پردیش کے کسی پرانے کسان سے ملنے کے مترادف ہے۔ تمام اقسام کے آموں کی نمائش کے بعد یہ بالکل آخر میں آتا ہے جس طرح ہندی کے معروف کہانی لکھنے والے بھگوتی چرن ورما کی کی کہانی میں 'دو بانکے' کے آخر میں ایک لمبا تڑنگا دیہاتی ہاتھ میں لاٹھی لیے آتا ہے اور کہتا ہے 'مولا سوانگ خوب بھریو'۔ اگر آپ اپنی پسند اور ناپسند کو چھوڑ کر ایک بار اس کڑے ذائقے اور مٹھاس سے بھرپور آم کھائیں تو یہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا، بلکہ یہ ایک نیا تجربہ بھی دے گا۔ یہ جلد ہی مارکیٹ میں ہوگا، چند ہفتوں کی ہی تو بات ہے۔
آم کا گھر ہندوستان ہے
انڈیا میں آموں کے تنوع کو بچانا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ آموں کی جائے پیدائش ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ آم پہلے کب وجود میں آیا تھا لیکن سائنس دانوں نے 2000 قبل مسیح تک آم کا ثبوت ڈھونڈ لیا ہے۔ یعنی انڈیا میں آم کی افزائش اور پھلنے پھولنے کی تاریخ کم از کم چار ہزار سال پرانی ہے۔
اس طویل تاریخ میں آم ملک کے ہر جغرافیے کے ساتھ ڈھلا اور پھل پھول رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں آم کی سینکڑوں اقسام ملتی ہیں، جس سے بہت ساری ہائبرڈ اقسام بھی ابھری ہیں۔ یعنی جو آم آج ہمارے سامنے ہیں وہ صرف پھل ہی نہیں ہیں بلکہ انڈیا کی بائیو پراپرٹی کی کہانی بھی سناتے ہیں اور اس کی تاریخ بھی بتاتے ہیں۔ لہذا کسی بھی طرح کے آم کا غائب ہونا صرف ایک اہم بایو پراپرٹی کا غائب ہونا ہی نہیں ہے بلکہ تاریخ کے ایک صفحہ کا کھو جانا بھی ہے۔
آم کی جڑیں نہ صرف انڈیا کی سرزمین میں بلکہ اس کی ثقافت میں بھی گہری پیوست ہیں۔ انڈیا کے دیہاتوں میں امرائی کی اپنی ایک اہمیت ہے، لہذا آم کے پتے بہت سے یگیوں (مذہبی تقاریب) اور پوجاوں میں سب سے اہم مادہ ہیں۔ آم کے نیچے کچھ دیوتاؤں کا مسکن سمجھا جاتا ہے۔ جب انڈینز پوری دنیا میں پھیل گئے اور اگر وہ آم اپنے ساتھ نہ لے جاسکے تو وہ آم کی ثقافت کو اپنے ساتھ ضرور لے گئے۔
ہند نژاد انگریز مصنف وی ایس نیپول کی بہت ساری کہانیاں میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوبیگو میں ان کے بچپن کا تذکرہ ہے جہاں پوجا صرف اس لیے روک دی گئی ہے کہ آم کے پتے آئیں گے تو وہ ہوگی۔ ان کے بچپن کا ذہن مسلسل یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو درخت یہاں نہیں ہیں ان کے پتے کیوں اہم ہیں۔
آم انڈیا سے ہی نکل کر پوری دنیا کے بہت سارے ممالک خصوصا ایشیاء کے بہت سارے ممالک میں پھیلا ہے۔ ویسے تو یہ برازیل تک پہنچ چکا ہے لیکن یہ صرف ایشیائی ممالک ہی ہیں جو آم کی عالمی منڈی میں ہندوستان کو سخت مقابلہ دیتے ہیں۔ آم کی تجارت میں توسیع 14 ویں اور 15ویں صدی کے بعد ہی ہوئی اور 20 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں یہ چین تک پہنچ گیا۔
آم کیسے چین پہنچا
آم کے چین پہنچنے کی کہانی چین بہت دلچسپ ہے۔ پاکستان نے محسوس کیا کہ چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہیے۔ اس وقت تک انڈیا اور چین کے مابین 1962 کی جنگ لڑی جا چکی تھی۔ یہ سنہ 1968 کا موسم گرما تھا جب پاکستان کے وزیر خارجہ سید شریف الدین پیرزادہ چینی رہنما ماؤ سے ملنے خصوصی طیارے میں بیجنگ پہنچے۔ بطور تحفہ وہ اپنے ساتھ اچھے معیاری قسم کے آم کی 40 پیٹیاں لے گئے۔ اس وقت تک یہ ایک ایسا پھل تھا جس سے چین میں زیادہ تر لوگ واقف ہی نہیں تھے۔
اب ماؤ اتنے سارے آموں کا کیا کرتے اس لیے انھوں نے وہ تمام آم ان مزدور رہنماؤں کو بھیج دیے جو اس وقت شنہوا یونیورسٹی پر قبضہ کیے بیٹھے تھے۔ آم ملنے پر ان رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ کامریڈ ماؤ کا ایک قیمتی تحفہ ہے لہذا ان میں سے ایک ایک بیجنگ کی تمام فیکٹریوں میں بھیجا جانا چاہیے۔ آم کا ذائقہ تو ہر کوئی نہیں لے سکا لیکن چین میں یہ کہانی پھیل گئی آم مزدوروں سے ماؤ کی محبت کی علامت ہے۔
ایک بار جب آم لوگوں کے قصے اور کہانیون میں پہنچا تو وہ جلد ہی ان کے کھیتوں میں بھی پہنچ گیا۔ اب آم چین کی بیشتر علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ انڈیا آم کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہوسکتا ہے لیکن اب چین دوسرے نمبر پر ہے۔
یہ سچ ہے کہ انڈیا اب بھی آم کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے اور انڈیا کے آم معیار اور ساکھ کے معاملے میں بہت آگے ہیں۔ لیکن برآمدات کا جو انفراسٹرکچر اور رسد کا جو انتظام چین کے پاس ہے وہ انڈیا کے پاس نہیں ہے۔ اس کے باوجود فلپائن جیسے ممالک بھی اس شعبے میں انڈیا کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فلپائن نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس کے ذائقہ اور شیلف زندگی کو بڑھانے کے لیے جینیٹک انجینئرنگ کے ساتھ آم کی نئی اقسام تیار کررہا ہے لیکن اس کی کوشش کے نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں آم کی پیداوار پانچ کروڑ ٹن سے زیادہ ہے جس میں سے انڈیا دو کروڑ ٹن سے زیادہ اور چین تقریباً 50 لاکھ ٹن آم پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور میکسیکو ہیں۔ یعنی دنیا کے ہر دس میں سے چار آم ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔
عام طور پر جلدی خراب ہو جانے کے سبب آم کی کھپت زیادہ تر مقامی سطح پر ہوتی ہے۔ انڈیا سے آم کی برآمدات صرف 18 اور 20 لاکھ ٹن کے درمیان ہیں جو کل پیداوار کا صرف پانچ فیصد ہے۔
امریکہ آم کا سب سے بڑا درآمد کرنے والا ملک ہے۔ جغرافیائی قربت کی وجہ سے، یہ برازیل سے سب سے زیادہ آم حاصل کرتا ہے اس کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے۔
ڈیڑھ دہائی قبل تک جراثیم کش ادویات کے بڑے پیمانے پر استعمال کی وجہ سے امریکہ نے انڈیا سے آم کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ لیکن یہ معاملہ اب حل ہو گیا ہے۔ تاہم انڈین آموں کی سب سے بڑی منڈی مغربی ایشیا ہے۔
بہر حال اتنی بڑی منڈی، اتنے سارے امکانات اور گہری ثقافتی جڑوں کے باوجود انڈیا میں آم پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے۔
لکھنؤ کے قریب رحمان کھیڑا میں ایک مینگو ریسرچ سنٹر ضرور ہے جو سینٹرل ہارٹیکلچر انسٹی ٹیوٹ کی شاخ کے طور پر کام کرتا ہے لیکن اس کے پاس بھی بتانے کے لیے بہت کامیابیاں نہیں ہیں۔
“