پاکستان -آسٹریلیا لٹریری فورم ا اور انجمنِ علم و ادب شکاگوکے اشتراک سے منعقدہ انٹرنیشنل نعت کانفرنس کا آغاز تلاوتِ قرآن سے ہادیہ شمس نے اسلام آبادسے کیا جب کہ شکاگو سے نعتیہ اشعار عنایہ فاروق نے پیش کیے۔
صدرِ مجلس پروفیسر مولا بخش نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے نعت کی اہمیت اور محبتِ رسول ﷺ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نعتیہ کلام کو بھارت کے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔اس کے لیے ایک قرارداد جلد لائی جائے گی۔ بعدازاں محترمہ سیدہ غوثیہ نوری نے استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے تمام شرکائے کانفرنس کو خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد سیدہ غوثیہ کے تازہ مجموعہئ کلام ”آئینہئ جمال“ کی تقریب ِرونمائی کی گئی۔ پروفیسر مولا بخش نے ”آئینہئ جمال“کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ مجموعہئ کلام اس اعتبار سے اہم ہے کہ شاعرہ نے اس میں تین چار اجزاء کو یکجا کر دیا ہے۔ انہوں نے غوثیہ نوری کو ان کے اس کلام کے شائع ہونے پر مبارک باد پیش کی۔تقریبِ رونمائی کے بعد آسٹریلیا سے راقم الحروف نے ”آئینہئ جمال“ کے محاسن بیان کیے کہ:
سیدہ غوثیہ سلطانہ نے نعت جیسی نازک اور مشکل صنف کا انتخاب کرکے رسول اللہﷺسے اپنی دلی وابستگی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔آسان لفظوں میں اگر نعت کی تعریف کی جائے تو آپ ﷺ کے اسوہئ حسنہ، اوصافِ حمیدہ، خصائصِ گفتار، معجزات اور خُلقِ عظیم کی مدح سرائی کانام نعت ہے۔مذکورہ اوصاف پر روشنی ڈالنا کسی شاعر کے بس کی بات نہیں، تاہم ہر نعت گو شاعرآپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے کسی نہ کسی گوشے کو وا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح سیدہ غوثیہ نے بھی بھرپور کوشش کی ہے۔سیدہ غوثیہ کی حمد و نعت ان کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار تو ہے ہی؛ لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ سادگی اور سلاست کے عمدہ مرقعے بھی پیش کرتی ہیں۔اُن کی نعتیں اُن کے فکری انداز اور نبی آخر الزماں ﷺ سے اُن کی گہری عقیدت اور والہانہ محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ ﷺ کے حسن وجمال کی بابت لکھتی ہیں:
حسن و جمال دیکھ کر، عالم نے آپ کا
اپنے دلوں کو نور کا ہالہ بنالیا
آسٹریلیا سے پاکستان آسٹریلیا لٹریری فورم کے صدر افضل رضوی نے اپنا مقالہ ”نعت گوئی: ایک تجزیاتی مطالعہ“ میں حمد ونعت کی اسلامی عقائد میں اہمیت پر روشنی ڈالی اورحمد ونعت کے بنیادی فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ”حمد“ اللہ تعالیٰ کی تعریف وتوصیف بیان کرنے کو کہتے ہیں جب کہ نبی آخرالزماں ﷺکے خصائص وصفات وتعریف کو ”نعت“ کہتے ہیں۔ حمد کہنا اور بیان کر نا یوں آسان ہے کہ اسے جس قدر بیان کرنا چاہیں کر سکتے ہیں لیکن نعت کہنا گویا پل صراط پر چلنا ہے کہ اگر بڑھ جائے تو شرک کا ڈر اور اگر خدانخواستہ کم ہو جائے تو گستاخی کا معاملہ؛نیز نعت کی تاریخ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی نعت کہی جس کا ذکر قرآن میں بارہا کیا گیا ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ محترمہ زیب النسا ء زیبی ؔنے”نعت کی تاریخ، فنِ نعت گوئی اور مقاصد“ کے عنوان کو انتہائی اختصار سے بیان کیا اور کہا کہ نعت میں فنی باریکیوں اور نزاکتوں کا مرحلہ بڑا کٹھن ہو تا ہے۔یاد رہے کہ انہوں نے اردو ادب میں ا یک نئی شعری صنف ''سوالنے '' کے نام سے ایجاد کی ہے۔یہ ایک سہ مصرعی نظم ہے جس کے ہر مصرعے میں ایک سوال ہوتا ہے اور جواب بھی بین السطور ہی مل صورتی جاتا ہے یہ تما م بحور اور اوزان میں لکھی جاسکتی ہے۔
ان کے بعد پاکستان ہی سے ڈاکٹر شگفتہ فردوس نے”حفیظ تائب کی رجائی نظم ایک جائزہ“ پر اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ حفیظ تائب کا تشخص ان کی نعت نگاری سے ہوا انہوں نے مدحتِ رسول ﷺ میں آپ ﷺ کی مساعی کا تذکرہ کیا ہے جو دلوں کو زندگی کی رعنائیاں اور حرارتیں بخشتی ہیں۔پروفیسر حامد نسیم کا کہنا تھا کہ عرفی، رومی، خسرو، غالب اور اقبال سب نے نعتیں لکھیں ہیں۔انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ نعت وہی معتبر ہوتی ہے جس میں توحید ورسالت کے فرق کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ محمد یونس ٹھوکر نے اپنا مقالہ بعنوان ”جموں وکشمیر میں نعت گوئی: ماضی، حال اور مستقبل“پیش کیا۔جب کہ ڈاکٹر سراج نے ”دبستانِ نعت“ کی خدمات اور سرگرمیوں کو نعت سے لنک کرتے ہوئے بتایا کہ ادارہ فروغ و اشاعتِ نعت گوئی کے لیے سرگرم عمل ہے۔
انٹرنیشنل نعت کانفرنس میں دنیا بھر سے دانشوروں اور شعراء نے شرکت کی۔کانفرنس بلا تعطل سات گھنٹے جاری رہی جس کے پہلے حصے میں مقالے پیش کیے گئے اور دوسرے حصے میں شعرائے کرام نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔ مشاعرے کی طوالت کے باعث اسے دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا پہلے حصے کی صدارت ڈاکٹر چندربھان خیال نے کی جو اپنی شہرہ آفاق نظم”لولاک“ کی بدولت اردو کے مؤقر حلقوں میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کی نظم کا مضمون خطبہ حجۃ الوادع پر فوکسڈ ہے جب کہ دوسری نشست کی صدارت شکاگو کے معروف اور بزرگ شاعر حامد امروہوی نے کی۔ مشاعرے کی نظامت سیدہ غوثیہ سلطانہ اور ڈاکٹر شگفتہ فردوس نے کی۔
مشاعرے کی پہلی نشست کے صدر ڈاکٹر چندر بھان نے اپنی نظم اپنے خاص انداز سے نذر ِ سامعین کیا جسے بہت سراہا گیا۔ ان کا ایک شعر سب کی نذر:
یہ کاوش اپنی میں اس آدمی کے نام کرتا ہوں
فرشتے بھی جھکائیں سر اگر انسان بن جائے
علی گڑھ سے پروفیسر مولا بخش نے رسول اللہ ﷺ کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرکے شرکائے مشاعرہ سے خوب داد وصول کی۔ ان کے دو اشعار دیکھیے:
کوئی کسی طرح ہے کوئی کسی طرح ہے
ہوا نہ کوئی جہان میں میرے نبی کی طرح
کہ تیرے نام سے بہتر کسی کا نام نہیں
کوئی بھی شہر نہیں ہے تری گلی کی طرح
راجیو ریاض پرتاپ گڑھی نے اپنے انداز میں آقائے نامدار کے حضور کچھ ان لفظوں میں نذرانہئ عقیدت پیش کیا:
جو بھی سچا حضور والا ہے وہ اندھیروں میں نور والا ہے
ڈوب کر سن رہا ہوں ذکرِ نبی لمحہ لمحہ سرور والا ہے
انجنی کمار گوئل جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا:
مرے لب پہ جو نعتِ مصطفی ہے
مری بخشش کا ساماں ہو گیا ہے
دہلی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اپنی سلاست اور قافیہ پیمائی کی بدولت شعراء کے حلقے میں خاص پہچان رکھتے ہیں۔ان کا ایک شعر سب کی نذر:
ہے وہی جس پر آیاتِ قرآں نزول
ہے دو عالم میں وجہہ کامرانی وہ رسول
ڈاکٹر منیر الزماں منیرؔجو ایک عرصے سے شکاگومیں مقیم ہیں انہوں نے اپنے کلام سے سماں باندھ دیا۔ان کے دو اشعار دیکھیے:
عزت مآب و صاحبِ کردار ہو گئے
وابستہ جو حضور سے اک بار ہو گئے
آقا نے اپنے لطف سے جن کو بلا لیا
وہ خوش نصیب حاضرِ دربار ہو گئے
جبل پور سے تلک راج پارس نے بھی حضور ﷺکے حضور گلہائے عقیدت پیش کیا۔ ان کا درج ذیل شعر رسولِ مقبول ﷺ سے محبت و عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ازل سے اب تک جو کن کا مرکز بنا ہوا ہے وہی نبی ہے
خدا ئے برتر کے نور سے جو بدن ڈھلا ہے وہی نبی ہے
شکاگو کے معروف شاعرساجد چودھری کے نعتیہ کلام کے ایک ایک مصرعے سے نبی ﷺسے ان کی لگن اور محبت جھلکتی ہے۔ ان کے دو شعر نذر قارئین ہیں۔
تشنہ لب تھا سیدھا مدینے گیا
جامِ کوثر لبا لب بھرا مل گیا
تجھکو ساجد بھلا اور کیا چاہیے
جب مقدر سے درِ مصطفی مل گیا
حیدر آباد کے ادبی حلقوں کی پہچان جگجیون ارل سحرؔ بھی اس نعتیہ مشاعرے کا حصہ تھے انہوں نے استعارتی انداز میں محمد رسول اللہ ﷺ سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔
پلا مجھکو ایسی دیارِ مدینہ
نہ اترے کبھی یہ خمارِ مدینہ
ترے بانکپن سے ہے کعبہ کی زنینت
تری ذات سے ہے افتخارِ مدینہ
ڈاکٹر شمشاد جلیل شادؔنے اپنی خوب صورت آواز میں آقائے نامدار ﷺ کے حضور اپنی والہانہ محبت کو نئے لب و لہجے میں پیش کیا، جسے حاضرین نے بے حد سراہا۔
مجھ کو درِ حبیب پہ جانا نصیب ہو
رکنے کا پھر وہاں بھی ٹھکانہ نصیب ہو
آسٹریلیا سے افضل رضویؔ نے آقا ومولا محمدمصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے حضور کچھ ان الفاظ میں گلہائے عقیدت پیش کیا۔
مخفی تھے راز سارے اس کائنات کے
منکشف ہوئے حضورکچھ تیرے ظہور سے
محشر میں بخش دے گا وہ شفاعتِ حبیب سے
مایوس نہیں رضویؔ اس ربِ غفور سے
کراچی سے زیب النساء زیبی ؔنے سرکارِ مدینہ سرورِ سینہ ﷺکی مدح سرائی کچھ اس طرح بیان کی کہ:
بارگاہِ مصطفی میں بازیابی شرط ہے
کھول دوں گی نعت کا میں دفتر سامنے
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری دورِ حاضر کے نثر نگاروں کے ساتھ ساتھ شعراء میں بھی ایک خاص مقم رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ ان کی ایک نظم جس میں انہوں نے سرکارِ مدینہ ﷺ کی عظمت کو سلام پیش کیااس کا ایک بند دیکھیے۔
آنکھیں بصارت کے باوجود
نورِ بصیرت کے لیے ترس رہی تھیں
عقل وشعور پر جہالت کی دھندچھائی ہوئی تھی
دل تو نفرت کے ایسے پتھر بن چکے تھے کہ
جن کے ساتھ انسانیت سر مار مار کر لہو لہان ہو رہی تھی
انٹر نیشنل نعت کانفرنس کے مشاعرے کی دوسری نشست کی صدارت کرنے والے شکاگو کے معروف اور بزرگ شاعر حامد امروہوی نے دلنشین انداز میں اپنا نعتیہ کلام پیش کیا جسے مشاعرے کے شرکاء نے بے حد سراہا۔ان کا ایک شعر آپ سب کے لیے۔
ابرِ کرم نے سارے گناہوں کو دھو دیا
آنسو ذرا بہائے تھے شرمندگی کے ساتھ
حیدر آباد سے تسنیم جوہر کی نعت کا تو ایک ایک لفظ محبت کا پیکر ہے۔وہ کہتی ہیں کہ:
فرشتوں سے بھی بڑھ کر حشر میں ہم شادماں ہو ں گے
حمایت کو ہماری جب رسول اللہ وہاں ہو ں گے
ممبئی کی اوشا بھڈوریا اوشاؔ کا درج ذیل شعر دیکھیے کس قدر محبتِ رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا ہے۔
روشن میری نگاہ میں صورت نبی کی ہے
یہ زندگی نہیں ہے، محبت نبی کی ہے
ڈاکٹر توفیق انصاری کا یہ شعر دیکھیے۔
دن رات دھن ہو سر میں درود وسلام کی
ہو عشق یوں کہ فکر نہ ہو صبح و شام کی
شکاگو کے ایک اور معروف شاعر عابد رشید بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
کہیں کسی نے لیا ہے مرے حضور کا نام
زباں پہ خود ہی رواں ہو گیا درود وسلام
شکاگو ہی سے ایک اور شاعر رشید شیخ کا یہ شعر ان کی رسولِ خداﷺ سے وابستگی کا ثبوت ہے۔
گنبدِ خضرا ہے امت کے دلوں کا ترجماں
ملتِ بیضا کی عظمت اور سطوت کا نشاں
واصف مولجی شکاگو کے ادبی حلقوں کی جان سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مدینے کی گلیوں سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔
حرم کی رہ یہی ہے اور میں ہوں
مدینے کی گلی ہے اور میں ہوں
ڈاکٹر افضال الرحمن افسرؔکا کہنا ہے کہ قلب کی دوا درود شریف ہی میں ہے۔
قلب کی ہے دوا درود شریف
روح کی ہے غذا درود شریف
پریم ناتھ کے کلام سے کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ کسی غیر مسلم کا کہا گیا شعر ہے۔ ان کے دل میں مدینے کی گلیوں میں جانے کی خواہش ہے، جس کا اظہار انہوں نے کچھ یوں کیا ہے۔
میں بھی اک بار کبھی جاکے مدینہ دیکھوں
کالی کملی میں چھپا ہے جو خزینہ دیکھوں
تنویر پھول کاتعلق نیو یارک سے ہے۔ ان کا محبتِ رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا یہ شعر دیکھیے۔
روضہئ پاک پر اشک بہنے لگے حالِ دل ہو گیا سب عیاں آنکھ سے
درپہ پہنچا نکما حقیر امتی چومتا ہی رہا آستاں آنکھ سے
پونے سے مہاجن بسملؔکا درج ذیل شعر اس بات کا غماز اور عکاس ہے کہ آپ ﷺ کا نام نہ لینے والوں کے دلوں میں کدورت کے سوا کچھ نہیں۔
جس کو نامِ محمد سے پر ہیز ہے
اس کا سینہ کدورت سے لبریز ہے
پونے ہی سے ڈاکٹر ممتاز مور کا یہ شعر بھی بہت اعلیٰ ہے۔
رحمت ہیں عالمین کے عرفان دیکھیے
سیرت جو دیکھنا ہو قرآن دیکھیے
تحریر: سیدہ ایف۔گیلانی۔آسٹریلیا