پرانے زمانے میں پاکستان ٹپلیوژن پر موسم کی خبروں میں اور کچھ ہوتا نہ ہوتا یہ خبر ضرور ہوتی کہ ” پورے ملک میں اس وقت موسم خشک ہے جبکہ مالاکنڈ ڈویژن میں ہلکی ہلکی بوندا باندی کے آثار ہیں”. خدا خبر مالاکنڈ کی عوام ہر روز یہ خبر سن کر کیا سوچتی ہو گی؟
مگر آج پورے ملک میں بوندا باندی نہیں بلکہ زارو قطار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ اس وقت دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے گزر رہی ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ان تبدیلیوں سے دنیا کی معیشت پر کس قدر منفی اٹرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کہیں سیلاب آ رہے ہیں تو کہیں طوفان، کہیں قحط سالی ہے تو کہیں پانی اور خوراک کی قلت۔
دنیا میں اس وقت ماحولیاتی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ جرمنی میں حالیہ الیکشن کے نتیجے میں حکومت بنانے والی پارٹیوں میں ماحول دوست گرین پارٹی کی کئی سیٹیں ہیں۔ اسی طرح دوسرے یورپی ممالک جیسا کہ آسٹریا، بیلجیئم ، فن لینڈ، آئرلینڈ اور سویڈن میں بھی ایسی ماحول دوست پارٹیاں اُنکی حکومتوں کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں البتہ اس طرف یا اس منشور پر عوامی سطح پر کوئی خاطر خواہ تحریک نظر نہیں آتی حالانکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے۔
ماحولیاتی تحریکیں یا گرین مومنٹس کی ابتدا ترقی یافتہ مملک میں کافی عرصے سے زور پکڑ رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت تب دیکھنےمیں آئی جب 2018 میں تن تنہا سویڈن کی ایک پندرہ سالہ لڑکی گریٹا تُھنبرگ جمعہ کے روز سکول جانے کی بجائے سویڈن میں پارلیمنٹ کے باہر بیٹھ جاتیں۔ اُنکے دھرنے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے فیصلہ سازوں اور پالیسی سازوں کو باور کرانا تھا اور ان سے بچاؤ کے لیے ہر ممکنہ اقدام کرنے پر زور دینا تھا۔
اُنکی کوشش کامیاب رہی اور جلد ہی اُنہیں مقامی اور بین القوامی فورمز پر ان تبدیلیوں کے حوالے سے بات کرنے کے لئے بلایا جانے لگا۔ اسی تحریک کے باعث 2019 میں یورپ میں کئی یورپی گرین پارٹیوں نے اپنے اپنے ملکوں اور یورپین یونین کے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔
آج دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ کاربن ایمیشن کو کم کر کے ہی زمین کو مستقبل کے انسانوں کے لئے بچایا جا سکتا ہے۔ گو اس حوالے سے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر جس تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اُنکے مقابلے میں یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
2016 کے پیرس معاہدے میں شریک 196 ممالک نے اس عزم کا ایادہ کیا کہ زمین پر 2050 تک کاربن ایمیشن کو صفر تک لایا جائے گا۔ یاد رہے کہ آج دنیا کی کل کاربن ایمیشن 35 ارب ٹن سالانہ کے قریب ہے۔
پیرس معاہدے میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پچھلے دورِ حکومت میں ماحولیات کے حوالے سے اقدامات اُٹھائے گئے جن میں شجرکاری کا منصوبہ اہم تھا۔ مگر اسکے علاوہ بھی پاکستان کو توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے متبادل توانائی کے ذرائع کا حصول یقینی بنانا ضروری ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کو قدرت نے بھرپور نوازا ہے۔ یہاں تقریبآ سارا سال کی سورج کی روشنی پڑتی ہے۔اسکے علاوہ سمندر سے آنے والی ہوائیں بھی ملک کے بیشتر جنوبی علاقوں خاص کر سندھ اور بلوچستان میں چلتی ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان توانائی کے ماحول دوست متبادل جن میں شمسی توانائی اور ہوا شامل ہے سے نہ صرف بھرپور بجلی بنا سکتا ہے بلکہ اسے درآمد کر کے کثیر زرِ مبادلہ بھی کما سکتا ہے۔
2020 میں شمسی توانائی کے حوالے سے ورلڈ بینک کے تعاون سے تیار کردہ رپورٹ یہ بتاتی ہے اگر پاکستان اپنے کل رقبے پر سولر پارکس بنائے تو اس سے اسکی قبے کا
محض 0.07 فیصد کی تمام ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔
یہ رقبہ کتنا بنتا ہے؟
لاہور سے بھی آدھا!!
اس رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان 2030 تک متبادل شمسی اور ہوا کے ذرائع سے 24 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر لےتو اس سے اگلے بیس سال میں پیٹرول کی مد میں 5 ارب ڈالر سے زائد کی بچت ہو سکتی ہے۔ اسکے ساتھ وقت پاکستان متبادل ذرائع سے تقریباً 1500 میگاواٹ بنا رہا ہے جو کل بجلی کی پیداوار کا محض 2 فیصد ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کو ہر ماہ متبادل ذرائع سے 150 سے 200 میگاواث بجلی بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اس سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آئے گیاور روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔
حکومت کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور متبادل توانائی کے شعبے میں ہنرمند پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آنے والا دور اسی کا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...