پاکستان اور دنیا میں سموگ کی کہانی
رحیم یارخان سے لیکر لاہور اور پشاور تک چاروں اطراف دھند ہی دھند ہے ۔جنوبی پنجاب ،سنٹرل پنجاب ،خیبر پختونخواہ کے بہت سے علاقے سموگ کی لپیٹ میں ہیں ۔کچھ سال پہلے ہم جس کو فوگ کہا کرتے تھے ،اب اس کا نام سموگ ہو گیا ہے ۔جب فضاٗ میں دھند،گرد اور گیسز سرد ٹمپریچر کی وجہ سے منجمند ہو جاتی ہے تو اس کو سموگ کہتے ہیں ،آجکل ہم پاکستانی اسی سموگ کا شکار ہیں ۔ہمارے گلے خراب ہورہے ہیں ،آنکھوں میں درد محسوس ہورہا ہے ،بخار اور مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہیں ،اس کی وجہ یہ سموگ ہے ۔سموگ کو اگر اردو میں کوئی نام دینا ہے تو اسے منجمند فضائی آلودگی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے ۔اس سموگ سے کینسر جیسے امراض لاحق ہوجاتے ہیں ۔سموگ سے کیسے نمٹا جائے ،یہی وہ سوال اور بحران ہے جس کے بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں ؟سموگ کی سادہ سی وجوہات تو ہم سب کے سامنے ہے ۔شہروں میں دھواں چھوڑتی زہریلی گاڑیاں ،یہ رکشے ،ٹرک ،کاریں ،ویگنز جو چوبیس گھنٹے دھواں چھوڑ رہی ہیں ،انڈسٹریل کارخانوں سے جو کالا دھواں نکل رہا ہے ،زمینوں کو صاف کرنے کے لئے جو آگ لگائی جاتی ہے ،اس سے جو زہریلا دھواں نکلتا ہے ،یہ تمام وہ وجوہات ہیں جس سے فضاٗ میں سموگ بنتا ہے اور ہم اس کا شکار ہیں ۔کیا قوم ہیں ہم کوڑا کرکٹ کو جلا دیتے ہیں ،کھیتوں کو صاف کرنے کے لئے آگ لگائی جاتی ہے ،ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس آگ سے جو دھواں نکل کر فضا میں جاتا ہے وہ زہریلا مادہ بنکر سموگ بن جاتا ہے جس سے انسان مرتے ہیں ،لیکن ہمیں ان باتوں کا کیا علم ؟یہ سموگ ہے کیا ،پراپر ائیر کوالٹی مانیٹرنگ کے حوالے سے ہمارے پاس سسٹم ہی نہیں تاکہ وجوہات معلوم کی جاسکیں ۔انسانی صحت تباہی کی طرف جارہی ہے ،فضاٗ آلودگی سے مزین ہے ،بزرگ بچے اور خواتین پھیپھڑوں ،سانس کی بیماریوں اور دل کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں اور مر رہے ہیں ،لیکن میڈیا پر سموگ کے حوالے سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں کہ فلاں حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں ،باقی سب خیر ۔یہ ہے میڈیائی معلومات ۔بھائی یہ پبلک ہیلتھ ایشو ہے ،یہ سنجیدہ مسئلہ ہے ،زندگی اور موت کا مسئلہ ہے یہ ایک بہت بڑا بحران ہے ۔لیکن حکومت خاموش ہے ،کوئی پبلک ہیلتھ اسٹڈی نہیں کی جارہی اور نہ ہی میڈیا سوال اٹھاتا ہے کہ کیوں حکومت پبلک ہیلتھ اسٹڈی پر توجہ نہیں دیتی ؟اسپتالوں میں سموگ کی وجہ سے ،فضائی آلودگی کی وجہ سے اموات ہورہی ہیں ،یہ اموات کیسے ہورہی ہیں ،مریضوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے ؟فضا میں کونسا زہریلا مادہ سب سے زیادہ ہے ،سموگ کی وجہ سے علاج معالجے پر کتنا خرچ ہورہا ہے ،اس سب کی سائینٹیفک تحقیق اور مانیٹرنگ کی زمہ داری حکومت پر ہے ،کیا حکومت اس حوالے سے کوئی اقدام اٹھا رہی ہے ؟چین انڈیا وغیرہ یہ ممالک بھی فضائی آلودگی کا شکار ہیں ،لیکن وہاں پر کم از کم اسٹڈی تو ہورہی ہے ۔سموگ ایکشن پلان تو ہے ،وہ زہریلی انڈسٹری بند کررہے ہیں اور عوام میں شعور پھیلا رہے ہیں کہ عوام یہ اقدامات اٹھائیں ۔ہماری حکومت کے پاس وقتی ایکشن پلان تو ہے لیکن لانگ ٹرم پالیسی کا نام و نشان تک نہیں ۔عوام کی صحت کی کیا پرواہ ؟عوام تو بیچارے صرف ووٹ ڈالنے کے لئے ہیں ۔پنجاب میں ایک شعبہ ہے جس کا نام ہے PUNJAB ENVIRNMENT PROTECTION DEPARTEMENT یہ شعبہ فضا میں ائیر کنٹرول کو ہینڈل کرتا ہے ۔لیکن حالت دیکھیں کہ صرف تین مشینیں ہیں جن کا کام ائیر کنٹرول کی مانیٹرنگ کرنا ہے ،لیکن وہ بھی خراب ہیں ،حالانکہ پنجاب کو پانچ سو ائیر کنٹرول مشینوں کی ضرورت ہے ۔اس شعبے کا بجٹ ہے پانچ سو چالیس ملین روپیے جبکہ صرف ان مشینوں کی سروسنگ کا بجٹ اس سے زیادہ ہے ۔آگے آپ خود ہی سمجھ دار ہیں کہ ہماری حکومت پبلک ہیلتھ کے حوالے سے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔چین میں ،بھارت میں ائیر کنٹرول ڈیٹا دستیاب ہے ،لیکن ہمیں اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ۔ائیر کوالٹی ڈیٹا کے بارے میں عوام کو معلومات دینی چاہیئے تاکہ وہ باشعور ہوں ،لیکن یہاں تو ماہرین اس ڈیٹا سے محروم ہیں ۔لوگوں کو یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ فصلوں کو آگ نہ لگائیں ،گاڑیوں کے سیلنسر ٹھیک رکھیں ،گاڑیوں کی بجائے سائیکل کا استعمال کریں ،درخت لگائیں ،گرین ہاوسز بنائیں ،شہروں میں انڈسٹریز کو روکا جائے ،کیا یہ معلومات عوام کو دی جاتیں ہیں ،کیا انہیں خطرات سے آگاہ کیا جارہا ہے ؟بھارت میں دیوالی کے موقع پر پٹاخوں پر پابندی لگادی گئی ،گرین کورٹس پر کام چل رہا ہے ،کھیتوں میں آگ لگانے پر پابندی ہے ،کیا پاکستان میں ایسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ؟ہم کوئلے سے بجلی پیدا کررہے ہیں اور کوئلے کا دھواں فضا میں جاکر آلودگی پیدا کررہا ہے جس سے انسان مرررہے ہیں ،یہ ہے ہماری پالیسی ؟فضائی آلودگی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،لیکن دنیا میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لئے اقدامات بھی کئے جارہے ہیں ،فلپائن ہم سے بھی غریب ملک ہے ،اس کا ایک شہر ہے جس کا نام منیلا ہے ،دنیا کا پانچواں آلودہ ترین شہر کہلاتا ہے ،انہوں نے ایسا پینٹ ایجاد کیا ہے کہ جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ فضا سے زہریلے مادہ کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے ،یعنی ہوا میں جو زہریلا مادہ ہے وہ پینٹ میں جذب ہوجاتا ہے ،اس پینٹ کو منیلا کی درو دیوار پر کیا جارہا ہے ،تحقیق کے مطابق اس سے منیلا شہر میں بیس فیصد فضائی آلودگی کم ہو گئی ہے ۔کیا پاکستان میں اس طرح ہورہا ہے ؟اسی طرح میکسیکو میں جہاں سانس لینا عذاب ہے وہاں پر ورٹیکل انداز میں گارڈن لگائے جارہے ہیں ،فلائی اوورز پر جنگلے لگائے گئے ہیں جن پر پودے لگے ہیں ،ان پودوں کو ائیر پلانٹ کہا جاتا ہے ،پودوں کو دیکھ بھال کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ،یہ ہوا کو صاف کرتے ہیں ۔ہوا میں زہریلے مادوں کو کم کرتے ہیں ،اس سے گاڑیوں کا بیس فیصد شور بھی کم ہوجاتا ہے ،جبکہ درجہ حرارت میں بھی فرق آتا ہے ۔کیا لاہور کراچی میں ہزاروں فلائی اوورز نہیں ہیں ،ہم کیوں ائیر پلانٹس نہیں لگا سکتے ؟چین کو فضائی آلودگی کا گڑھ کہا جاتا ہے ،وہاں پر ائیر کلینگ سائیکل بنائے گئے ہیں جن کے سامنے فلٹر لگا ہوا ہے جو آلودہ ہوا کو صاف کردیتے ہیں اور ماحول کو خوبصورت بنا دیتے ہیں ۔بیجنگ میں سموگ ویکیوم کلینر ٹاور نصب کردیئے گئے ہیں ،ان کی وجہ سے بیجنگ میں اسی فیصد فضائی آلودگی کم ہو گئی ہے۔یہ ٹاور زہریلے مادوں کو جذب کرتے ہیں اور پھر وہ زہریلی کاربن جو ان ٹاور میں جمع ہوجاتی ہے ،پریشر کے بعد یہ کاربن ہیرے میں بدل جاتی ہے پھر ان ہیروں کو فروخت کرکے مزید ائیر پلانٹ ویکیوم ٹاور نصب کئے جاتے ہیں ۔کیا ہمیں چین سے ان باتوں کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟چین میں 2030 تک تمام گاڑیاں پٹرول وغیرہ سے آزاد ہو جائیں گی ،الیکٹرک گاڑیاں چین کی سڑکوں پر چلیں گی ،منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے ،چین کے کئی شہروں میں اب الیکٹرک گاڑیاں چل رہی ہیں ؟فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے تمام ممالک کچھ نہ کچھ کررہے ہیں ،جبکہ ہم صرف عوام کو احتیاطی تدابیر بتا رہے ہیں ؟سوچیئے ہم کیا کررہے ہیں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔