پاکستان اور ڈینگی وائرس
ڈینگی وائرس پر لکھنا میرے لئے اس لئےبھی ضروری ہے کہ میں خود اس خونی وائرس کا شکار ہو چکا ہوں ،یہ وائرس کس حد تک خوفناک ہے ،زاتی طور پر مجھے اس کا تجربہ ہوچکا ہے ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ وقت پر نہ پہنچتے تو تمہاری جان بھی جاسکتی تھی ۔تقریبا ایک ماہ میں بستر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں رہا تھا ۔اس لئے آج اس موذی مرض پر بات کرتے ہیں ۔گزشتہ تین ماہ کے دوران خیبر پختونخواہ میں ڈینگی سے 55 افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔اس وقت سولہ ہزار سے زائد افراد خیبر پختونخواہ میں ڈینگی کا شکار ہیں ،یہ تمام لوگ خیبر پختونخواہ کے مختلف اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔محکمہ صحت خیبر پختونخواہ کی رپورٹ کے مطابق اگست سے اکتوبر تک خیبر پختونخواہ کے 22 سے 15 اضلاع میں ڈینگی وائرس پھیلا ،سول ہزار سات سو چار افراد ڈینگی کا شکار ہوئے ۔پشاور میں پندرہ ہزار چھ سو سات افراد ڈینگی کا شکار ہوئے ،مردان میں 304,مالاکنڈ میں 235,بنیر میں 139,ایبٹ آباد میں 130,صوابی میں 98،ہری پور میں 63,مانسہرہ میں 50,نوشہرہ 42,کرک9,کوہاٹ 4,بنوں اور لکی مروت میں ایک ایک فرد ڈینگی کا شکار رہا ۔ان میں سے 55 افراد موت کی وادی میں جاپہنچے ۔ان میں پشاور میں 51 اموات ہوئیں اور ایبٹ آباد میں چار افراد ڈینگی کی وجہ سے جان سے گئے ۔کچھ سال پہلے پنجاب کے شہر لاہور میں ہزاروں افراد ڈینگی کی وجہ سے بیمار ہوئے ،ان میں سینکڑوں افراد صرف لاہور میں ہلاک ہو گئے تھے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے پہلے پاکستان کے شہر کراچی میں ڈینگی وائرس نمودار ہوا ،یہ 1994 کی بات ہے ،اس کے بعد دو ہزار پانچ اور دو ہزار چھ میں راولپنڈی شہر پر ڈینگی وائرس نے حملہ کیا ۔جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔دو ہزار دس اور دو ہزار گیارہ میں پنجاب میں ڈینگی خونی انداز میں ظاہر ہوا اور 257 جانیں نگل گیا ۔سب سے زیادہ ہلاکتیں پنجاب کے شہر لاہور میں ہوئیں تھی ۔اب دو ہزار سترہ ہے اور ڈینگی خیبر پختونخواہ پر حملہ آور ہے ۔بھیا ڈینگی موت ہے ،اس سے سینکڑوں افراد مر گئے ہیں ،حکومتوں ،میڈیا کو چاہیئے کو وہ اس حوالے سے ایک بہت بڑی کمپین شروع کریں جو ہمیشہ جاری رہے ،صرف پاکستان کا میڈیا اور حکومتیں اس وقت جاگتی ہیں جب ڈینگی مچھر حملہ کردیتا ہے ۔اور یہی سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے ۔کیا میڈیا نیوز چینل پر ہر روز یہ کمرشل مہم جاری نہیں کی جاسکتی کی ڈینگی مچھر کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے ،عوام کو باشعور کرنے کا زمہ دار میڈیا ہے ،لیکن ہمارا میڈیا تو ماشااللہ نواز،عمران ،زردار اور مریم میں پھنسا ہوا ہے ،ان کی حرکات و سکنات اور جلسے جلوس دیکھانا ،زندہ باد مردہ باد دیکھانا اس کا کام رہ گیا ہے ،اسی لئے میں اسے جاہل میڈیا کہتا ہوں کیونکہ ہمارا میڈیا غنڈوں میں پھنسا ہوا ہے ۔رضیہ تو کب کی غنڈوں سے آزاد ہو چکی ،اب بیچارہ میڈیا غنڈوں میں پھنس گیا ہے ۔کیا ہر روز میڈیا یہ نہیں بتا سکتا کہ ڈینگی مچھر سے پھیلتا ہے ،لیکن لگتا ہے ڈینگی نے میڈیا کو کاٹ لیا ہے اور اسے ہیجڑا بنادیا ہے ۔یہ مچھر یا تو صبح سویرے کاٹتا ہے یا پھر شام کو اور ڈینگی مچھر صاف پانی میں نشوونما پاتا ہے اور صاف پانی بھی وہ جو سٹور کیا جاتا ہے ۔اس کی علامات یہ ہیں کہ بخار ہوجاتا ہے ،جسم میں درد ،آنکھوں میں خارش ،جسم پر داغ دھبے وغیرہ ،یہ سب کچھ آسان زبان میں ٹی وی کمرشل کی شکل میں عوام تک ہر روز پہنچانے میں کیا حرج ہے ؟ڈاکٹروں کے مطابق ڈینگی مچھر کی افزائش زیادہ تر گھروں میں ہوتی ہے اور وہ بھی ان گھروں میں جہاں پانی سٹور کیا جاتا ہے ،چاہے وہ پانی پینے کے لئے ہو یا پھر نہانے کے لئے ۔اس لئے پانی کو ڈھانپ کر رکھا جائے ،اتنی سادہ سی باتیں ہیں ،عوام کو آگاہ کیا جائے ،بیچارے مر رہے ہیں ۔لیکن میڈیا غنڈوں کے غول سے باہر نکلے تو ۔اس لئے میں بار بار اپنے میڈیا پر لعنت بھیجتا ہوں ۔ایک مچھر ہے جو صاف پانی میں ایک خونی لاروا چھوڑتا ہے جس سے ڈینگی وائرس جنم لیتا ہے جو انسانوں کی موت کا سبب بنتا ہے ۔ٹی وی مالکان کھربوں کما رہے ہیں ،صرف مفت میں ان انسانوں کے لئے ایسا کمرشل کیوں نہیں چلا سکتے جن سے وہ ریٹنگ لیتے ہیں ۔اس لئے میڈیا اور سیاستدانوں سے میری اپیل ہے کہ ڈینگی مچھر غیر سیاسی ہے ،اسے سیاست کے لئے استعمال نہ کرے ۔بلکہ عوام کو مرنے سے بچائیں ،باقی بھیا آپ کی مرضی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔