پاکستان:السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اندلس:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پاکستان:آپ کیسے ہیں؟
اندلس:اچھا ہوں،
پاکستان:اتنی بڑی تہذیب اور اتنے بلندوبانگ عروج کے بعد آپ زوال کا شکار کیوں کرہوگئے؟
اندلس:ہمیشہ کا عروج تو صرف اس ذات بارالہ کو ہی زیبا ہے جسے کبھی زوال نہیں۔
پاکستان:پھر بھی کچھ تو وجوہات ہوں گی جوصفحہ قرطاس سے مٹ جانے کا باعث بنیں،ذرا بتائیے تو!
اندلس:جب دوست اوردشمن کی پہچان ختم ہو جائے،نظریاتی اسا س دم توڑ دے،عقیدے اور روایات مغلوب ہوجائیں اورزن،زر اور زمین غالب آجائیں،ایوان اقتدارمیں غداروں کی کھیپ جمع ہوجائے،قوم، ملک،وطن اورمذہب پر ذات،اولاد،خاندان اورقبیلے کوبرترسمجھا جانے لگے توبڑی بڑی قومیں دنیا سے اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔
پاکستان:آٹھ سوسالوں تک ایک شاندار حکومت کرنے کے باوجود کیا ان امراض پر قابو نہ پایا جا سکا؟
اندلس:جب حکومت کا آغازتھا تو جفاکشی،سادگی،علم و ہنر سے دوستی،شمشیروثنا سے تعلق اور مقصدیت کا دور دورہ تھااور جب آرام پرستی،تکلفات،ذہنی عیاشی اور طاؤس و رباب وبے مقصدیت جیسی صفات نے قوم میں جگہ پا لی تو زوال ہمارا مقدر بن گیا۔
پاکستان:کیا آپ بتائیں گے کہ اتنی اچھی صفات کی جگہ ان برے خصائص نے کیسے لے لی؟
اندلس:جب قومیں اپنی اصل بنیاد کو بھول جاتی ہیں،اپنے مقصدوجود کو فراموش کر بیٹھتی ہیں،جس نظریے کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں اسکوپس پشت ڈال دیتی ہیں اور اپنی اصلیت اور حقیقت اور اپنی تہذیب و ثقافت و مذہب پر نادم ہوکرتو دوسری قوموں کی نقالی شروع کر دیتی ہیں تو زمانہ انہیں حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔یہی جواب ہے تمہارے سوال کا۔
پاکستان:لیکن یہ سب کچھ ایک دم تو نہیں ہوگیاہوگا؟
اندلس:ہاں تم صحیح کہتے ہو،جتنی بڑی عمارت ہو اسکو گھن لگ کر گرنے میں اتنی ہی دیر لگتی ہے۔
پاکستان:تو پھر قوم کے بڑوں نے اس بتدریج زوال کا احساس کرکے اسکو روکنے کی کوشش نہ کی؟
اندلس:کسی قوم کی بدبختی ہوتی ہے اسکے شریرلوگ اسکے بڑے بن جائیں،ہمارے ساتھ بھی یہی ہواآہستہ آہستہ قوم کا مزاج بگڑتا گیا،غیر سنجیدگی قوم کی طبیعت میں سرایت کرتی گئی اور قوم نے سنجیدہ طبقات کی بجائے کھلنڈروں کو اپنا قائد بنالیااور وہ لوگ قوم کے سروں پر مسلط ہو گئے جن کا ماضی داغدار،حال بدباطن اور مستقبل مکروہ ارادوں سے بھرپور تھا۔قوم کے سامنے وہ اپنا بہروپ دکھاتے تھے اور دشمن کے سامنے اپنا اصل چہرہ،دشمن کی زبان انکے منہ میں جاری تھی،یہ مصنوعی قیادت قوم کے دشمنوں کو دوست بناکر دکھاتی اور دوستوں کوطرح طرح کے الزامات لگا کر دشمن بناکر قوم کے سامنے پیش کرتی،پس نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔
پاکستان:کیا آخری وقت تک زوال سے بچنے کی کوئی تدبیر نہ کی گئی؟
اندلس:جب دشمن سر پر آن پہنچے اور پانی سر سے اونچاہوجائے توپھر کیا ہوسکتاہے؟
پاکستان:آج میں بھی کم و بیش اسی طرح کی صورتحال کا شکار ہوں،جس نظریے اور عقیدے پر میری بنیاد تھی قوم اسکو فراموش کر چکی ہے،قیادت کا فقدان ہے،قوم کی اخلاقی حالت تیزی سے زبوں حالی طرف گامزن ہے،ایوان اقتدار آئے دن طالع آزماؤں کی بھینٹ چڑھا رہتاہے،چاروں طرف سے دشمن میرے وجود کے درپے ہیں،ایک بازو کٹ چکنے کے باوجودقوم اپنے دشمن کو پہچاننے سے قاصر ہے توکیا میرا انجام بھی آپ جیسا ہوگا؟
اندلس:کیاتمہاری قوم میں کوئی صالح اور محب وطن عنصر موجودہے؟
پاکستان:جی ہاں،لیکن بہت تھوڑااور غیرموثر!
اندلس:کیا یہ صالح اور محب وطن لوگ خاموش ہیں؟
پاکستان:نہیں،شورتو مچاتے ہیں لیکن بس نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند۔
اندلس:کیا قوم انکے وجود کو محسوس کرتی ہے؟
پاکستان:جی ہاں،انکا وجودقوم میں انگارے کی تپش کی طرح محسوس کیا جاتا ہے۔
اندلس:اور کیا وہ لوگ قوم سے پرامید ہیں یا مایوس ہیں؟
پاکستان:ان کی گفتگؤں سے اور تقاریروبیانات سے امید کی کرن پھوٹتی ہے۔
اندلس:کیا تمہاری قوم میں مذہب اور مقامی و قومی تہذیب و تمدن و ثقافت کے اثرات موجود ہیں؟اورکیامذہبی شعائراور بزرگوں کا ادب کیا جاتا ہے؟
پاکستان:جی ہاں!
اندلس:کیاتمہارا دشمن تمہاری قوم کو تقسیم کر سکا ہے؟
پاکستان:کوشش تو بہت کی ہے لیکن ابھی اسے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔
اندلس:کیا تمہارے دشمن نے تمہارے نوجوانوں کے اخلاق بگاڑنے کی کوشش کی ہے؟
پاکستان:جی ہاں،لیکن وہ اس میں بھی بس جزوی طور پرہی کامیاب ہے،کیونکہ اس سب کے باوجود مساجد میں، اصلاحی تحریکوں میں اورمشکل اوقات میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد صف اول میں میں نظر آتی ہے،بس ایک خاص طبقہ ہے جس کے نوجوان بالکل بگڑ چکے ہیں عوام الناس کااکثریتی مزاج ابھی بھی صالحیت کی طرف مائل ہے۔
اندلس:دیکھو،اپنے نوجوانوں کی فکر کرو،وہ تلوار سے غافل ہوکر کتاب کے ہی نہ ہوجائیں اور کتاب سے غافل ہوکر صرف تلوار کے ہی نہ ہوجائیں،”اک ہاتھ میں تلوار ہو اک ہاتھ میں قرآن“کے مصداق انکی تربیت کرو،ایک بات کا خیال کروکہ وہ نوجوان جس زبان میں تعلیم حاصل کریں گے اسی زبان کی بولنے والی قوم کی طرف انکا جھکاؤہوگا،تہذیبی یلغار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تم اگر نوجوانوں کو مسجد کا راستہ دکھادوگے تو نماز انکی حفاظت کے لیے کافی ہے۔
پاکستان:آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟مجھے تو اپنے وجود کے لالے پڑے ہیں۔میرے دشمن آئے روز مجھے زخمی کرتے ہیں،میرے گرد ایک جال بن سادیاگیا ہے،میرا ایک ایک عضوزخموں سے بھرپور ہے،میرے اپنے صبح شام میرے زخم چاٹتے ہیں،میراخون جسم سے نکال کر تومیرے دشمن کے جسم میں بھرتے ہیں،میرے دماغ کی بہترین صلاحیتیں دشمنوں کے لیے کرائے پر اٹھا رکھی ہیں،خود میرے ہاتھوں سے مجھ پر تیشے چلاتے ہیں،ان حالات میں کیا میں باقی بھی بچوں گایادشمن غداروں کے ذریعے میرے ٹکڑے ٹکڑے کر کے توآپس میں بانٹ لیں گے؟
اندلس:اللہ تعالی کانام سب سے بڑانام ہے،تمہاراجسم اسی کے نام پر وجود میں آیاتھا،تم شہدا کی امانت ہو،پس تم نے قیامت تک باقی رہنا ہے،محسن انسانیت ﷺکوشاید تمہاری وجہ سے ہی مشرق سے ٹھنڈی ہوا آیا کرتی تھی،میں تو تلوار کے زورسے فتح ہوا تھا اسی لیے ختم ہوگیا تمہیں تو اولیاء اللہ نے اپنے اخلاق سے فتح کیا ہے تم کبھی ختم نہیں ہو سکتے،تمہیں مٹانے والے پہلے بھی مٹ گئے اور آئندہ بھی مٹ جائیں گے تم ہمیشہ باقی رہوگے،یاد رکھوگزشتہ صدی تین بڑی بڑی طاقتوں کو نگل گئی لیکن تمہاراوجود پھر بھی باقی رہا،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ برے حالا ت تمہیں اونچا اڑانے کے لیے ہیں،تم نے ابھی اقوام عالم کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیناہے،تم امت کی پہلی ایٹمی طاقت ہو،ساری امت کی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں،تمہارا شاندار ماضی تمہارے روشن مستقبل کاضامن ہے،وہ دن دور نہیں جب تمہارے عقیدے سے شرمندہ قیادت کی نحوست تمہارے سر سے اتر جائے گی اور ایک جرات مند،صالح اور دیندارقیادت تمہارے ماتھے کا جھومر بنے گی اور تمہاری قوم دنیا میں سربلندہوگی،میں آسمان کی بلندیوں سے تمہارے مستقبل کا نظارہ کررہا ہوں کہ:
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کا یاد آجائے گا پیغام سجود پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگانغمہ توحید سے انشاء اللہ تعالی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...