زناکاری
اگر کوئی عورت پر بڑی نظر ڈالے تو راجپوت اسے قتل کرڈالتے ہیں ۔ پٹھان بھی زانی اور زناکار کو قتل کردیتے ہیں ۔ لیکن زانی بچ جائے تو معاوضہ پر راضی ہوجاتے ہیں ۔ اس معاملے میں جاٹوں اور بلوچوں کا یہی طرز عمل ہے ۔
سر کونڈی
افغانوں میں رواج ہے سر کے کسی حصہ کے بال کسی بزرگ کی مذر کے طور پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ سر کے بال چھوڑنے کا رواج ہندؤں ، بدھوں کے علاوہ وسط ایشیا ، چینیوں اور منگولوں میں ہے ۔ یہ اپنے سر کے بال عموماً کسی منت کے علاوہ مذہبی رسم کے تحت چھوڑتے ہیں ۔ افغانوں میں سر کے اس طرح بال چھوڑنے کا رواج اس وقت کی یاد گار ہیں ۔ جب یہ ان مذاہب پر قائم تھے؛۔ یہ آریائی اقوام کی رسم ہے ۔
سود خوری
راجپوتوں میں ماڑواری ساہوکار سود خوری کے لئے مشہور ہیں اور ان کی سود خوری ضرب و مثل مشہور ہے ۔ پٹھانوں میں بھی ایک گروہ سود خوری کے لئے مشہور ہے اور ان کی سود خوری بھی ضرب مثل مشہور ہے ۔
عقل کا استعمال
راجپوت ان کاموں میں الجھنا پسند نہیں کرتے ہیں ، جن میں عقل درکار ہوتی ہے ۔ جب انہیں غصہ آتا ہے تو اپنا غصہ اور غضب کسی پر بھی نکالتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ وہ قصور وار ہے کہ نہیں ۔ بعض اوقات سازش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔
افغان ان کاموں میں الجھنا پسند نہیں کرتے ہیں جن میں عقل درکار ہوتی ہے ۔ اور جب اپنا غصہ کسی پر نکالتے ہیں تو وہ بھی اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ قصور وار ہے کہ نہیں اور بعض اوقات سازش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔
غلامی
یہ عام غلاموں کی طرح نہیں ہوتے ہیں ۔ یہ اپنے آقا کی زمینوں پر کام کرتے ہیں اور اس کے بدلے صرف خوراک ملتی ہے ۔ یہ زمینوں سے قدم باہر نکال نہیں سکتے ہیں ۔ یہ عموماً کسی ضرورت کی وجہ سے رقم کے بدلے غلامی قبول کر لیتے ہیں ۔ بعض اوقات ان کا پورا خاندان غلام ہوجاتا ہے ۔ یہ چوں کہ خوراک کے بدلے کام کرتے ہیں ، اس لئے یہ خود کو غلامی سے آزاد نہیں کرا نہیں سکتے ہیں ۔ ان کا آقا اگر چاہے تو انہیں فرخت کرسکتا ہے ۔ عموماً ان کی فروخت خاندان سمیت ہوتی ہے ۔ غلامی کی یہ صورت اب بھی سرحد کے علاوہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں بھی پائی جاتی ہے ۔
راجپوتوں میں اس طرح کی غلامی کا رواج ہے ۔ یہ بسی کہلاتے ہیں قحط سالی اس کا سب سے بڑا سبب ہوتا ہے اور خوراک کے بدلے یہ خود کو فروخت کردیتے ہیں ۔ ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کہ بہت سی آبادیاں ان سے آباد ہوگئیں ۔ یہ مورثی غلام ہوتے ہیں اور خود کو آزاد نہیں کرا سکتے ہیں ۔ ہاں آقا چاہے تو ان کو آزاد کرسکتا ہے ۔
کلی
پشتو میں کلی گاؤں کے لئے مستعمل ہے ۔ کیپٹن رابنسن کا کہنا ہے کہ یہ لفظ گاؤں کے باشندوں لئے استعمال ہوتا ہے چاہے وہ ایک جگہ مقیم ہوں یا خانہ بدوش ۔ کیرو کا کہنا ہے کہ پٹھان قوم اپنی جبلت کے لحاظ سے سخت انفردیت پسند ، آزاد طبعیت اور خود سر واقع ہوئی ہے ۔ یہاں تک ان کی خالص آبادی کو کوئی بڑا شہر آج تک نمودار نہیں ہوا ہے ۔ ان کے الگ الگ گاؤں ( چند گھر ) افراد کے نام سے بنتے ہیں ۔ یعنی فلاں کی کلی ۔
راجپوتوں میں بھی خاندان کے لیے کلی کا کلمہ استعمال ہوتا ہے ۔ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی ( شاہی خاندان ) مشہور ہیں ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ راجپوتوں اور افغانوں کا کلی ہم معنی لفظ ہے اور اس کے معنی خاندان کے ہیں اور بعد میں یہ کلمہ افغانوں میں گاؤں لئے استعمال ہونے لگا ۔
گرام
افغانوں کے علاقے میں بہت سے گاؤں و دیہات کے ناموں میں گرام کا کلمہ آتا ہے ۔ مثلاً کافی گرام ۔ گرام پشتو اور ہند آریائی میں گاؤں کے معنوں میں آتا ہے اور آریاؤں میں سماج کو گرما اور گھر کے بزرگ کو گرامی کہتے تھے ۔ پنجابی کا گرائیں اور اردو کا گھرانہ اسی سے مشتق ہے ۔
گھوڑا
پشتو میں گھوڑے کو اشپو کہتے ہیں اور راجپوت گھوڑے کو اشو کہتے ہیں اور اس کی پرستش گھوڑے ( اسپو ) زمانہ قدیم میں کرتے تھے ۔ افغانوں اور راجپوتوں میں اس مشترک نام سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قدیم زمانے میں مشترکہ نسلی سرچشمہ سے تعلق رکھتے تھے ۔
گری
صوبہ سرحد میں یہ کلہ شہر کے ناموں میں ملتا ہے ۔ مثلاً کافر گری ، شہباز گری ، گڑھی حبیب اللہ ، گڑھی نجیب اللہ وغیرہ ۔ طبقات ناصری میں یہ کلمہ گیری آیا ہے بہقی نے اس کلمہ کو کیری لکھا ہے ۔
افغان پانڈوں کی عارضی رہائش گاہوں کو عموماً کژوئی ( یعنی بکریوں کے بالوں سے بنا ہوا خیمہ ) کہا جاتا ہے ، اس کے علاوہ سوتی خیموں کو کیری بھی کہلاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور عام لفظ کدہ یا کدی استعمال ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کسی پانڈے خاندان کا سامان اور جانور وغیرہ ہیں ۔ اس کے علاوہ کلی بھی جس کے معنی پشتومیں گاؤں کے ہیں پانڈوں کے چلتے پھرتے گاؤں کے لئے بھی مستعل ہے ۔
بلوچستان کے خانہ بدوشوں کی عارضی رہائش گاہیں گدام کے علاوہ گدان بھی کہلاتی ہیں ۔ راجپوتانہ میں عاضی راہش گاہیں کو گد کہلاتی ہیں ۔ یہ کلمہ قدیم ایران کے اکثر شہروں کے ناموں میں آیا ہے مثلاً ’ پارگد ‘ وغیرہ ۔ یہ کلمہ برصغیر میں گڑھ آیا ہے جس کے معنی آبادی کے ہیں ۔
اس بالاالذکر بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کدہ ، کیری ، گری ، گڑھی ، گد ، گدام ، گدان اور گڑھ ہم معنی الفاظ ہیں اور قدیم زمانے سے آریائی قومیں انہیں رہاہش گاہوں کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں ۔ یہ قومیں چونکہ ابتدا میں خانہ بدوش تھیں اور یہ الفاط ان کی رہائش گاہوں کے لئے مستعل تھے ۔ بعد میں انہوں نے اپنی تمذنی زندگی اختیار کی تو ان الفاظ کو اپنی مستقل رہائش گاہوں کے لئے استعمال کرنے لگیں ۔ جب کہ خانہ بدوش بدستور ان الفاظ کو اپنی عارضی راہش گاہوں کے لئے استعمال کرتی رہیں ۔ اس کلمہ کی مختلف شکلیں ہیں اور برصغیر سے ایران تک میں یہ استعمال ہوتا رہا ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کلمہ آریائی ہے اور اس کو استعمال کرنے والی آریائی اقوام ہیں ۔ (جاری ہے)
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...