پیشہ
آریوں کا پیشہ سپہ گری ، زراعت اور غلہ بانی تھے ۔ راجپوتوں کے پسندیدہ پیشہ سپہ گری ، زراعت ، غلہ بانی اور تجارت ہیں ۔ مغلوں کی سپاہ کی اکثریت راجپوت تھی اور انہوں نے مغلوں کے لئے بے شمار فتوحات کیں ۔ راجپوت بھی سپہ گری کے بعد تجارت کو پسند کرتے ہیں اور راجپوتوں کی بہت سی اقوام نے مکمل طور پر تجارت اختیار کرلی ہے ۔ جب کہ جاٹ سپہ گری کے بعد زراعت کو پسند کرتے ہیں
افغانوں کے پسندیدہ پیشہ سپہ گری ، زراعت اور غلہ بانی ہیں ۔ ترکوں کی برصغیر میں فتوحات کا دارو مدار پٹھان لشکریوں پر تھا ۔ ان کی فوج کے بیشتر سپاہی اور سالار پٹھان تھے ۔ زراعت اور غلہ بانی کو بھی یہ پسند کرتے ہیں اور ان کے بعض قبائل تجارت پیشہ ہیں اور تجارت کے لئے برصغیر تک جاتے تھے ۔
جھنڈا
آرین لکھتا ہے کہ سکندرکے حملے کے وقت یہاں کی قوموں میں دستور تھا کہ جب وہ اپنے غلاموں کو سلطنت دیتے تھے تو جھنڈا بطور نذر دیتے تھے ۔ راجپوتوں میں حکمرانی کے امتیازی نشان چھتر ، پرچم اور نقارہ تھے ۔ یہ رسم ترکوں اور پٹھانوں میں بھی ہے ۔ جب غیاث الدین محمود خلجی نے اپنے غلاموں کو آزاد حکمرانی عطا کی تو منشور کے ساتھ جھنڈا بھی دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ غوریوں میں حضرت علیٰ اور دوسرے حکمرانوں سے حکمرانی کا منشور اور جھنڈا لینے کی روایات وضع کی گئیں ہیں ۔
خال
برصغیر کے باشندوں کی طرح افغانوں میں خال گدوانے کا رواج ہے ۔ خاص کر لڑکیاں ماتھے ، منڈی ، گال اور ہونٹوں پر خال گدواتی ہیں اور عموماً انہیں پسند کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ شہر میں رہنے والی لڑکیاں اسے اب پسند نہیں کرتی ہیں ہیں ، مگر دیہاتوں میں لڑکیاں اب بھی پسند کرتی ہیں ۔ یہ خال چونکہ سبزی مائل نیلا ہوتا ہے ۔ اس لئے شین ( ہرا ) یا شتکے کہلاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے لڑکیاں ’ شین خلو ‘ ’ شین خالی ‘ کے رومانی نام سے پٹوں مصرعوں اور لوگ گیتوں میں بیان کی جاتی ہیں ۔
خال گدوانے کا برصغیر کی قوموں میں عام ہے ۔ ہندؤں میں خاص کر نچلی زاتوں میں اس کا رواج عام ہے ۔ خال گدوانے کے شوقینوں میں عورتوں کے علاوہ مرد بھی شامل ہیں ۔ یہ خال ناموں کے علاوہ پھولوں ، بوٹوں اور مختلف اشکال کی شکل میں گدائے جاتے ہیں اور برصغیر میں قدیم زمانے سے رائج ہیں ۔
خان
افغانوں میں خان لائقہ اور سابقہ بھی استعمال ہوتا ہے اور بطور سابقہ ایک نشان امتیاز ہے ۔ کلمہ خان کی اصل قان ہے جو کہ ترکی کلمہ ہے اور خان اس کا معرب ہے اور اس کے معنی حاکم کے ہیں ۔ ترکوں میں یہ ضروری تھا کہ یہ لقب کسی دوسرا قان عطا کرے ۔ جب کہ قاخان اس کی جمع ہے ، یعنی قان کا قان یا حکم اعلیٰ ۔ منگول حکمران قاقان کہلاتے تھے ۔ قان کا خطاب کوئی اور قان دیتا تھا ۔ جب کے قاخان کے لئے ضروری تھا کہ بہت سے قان مل کر قاقان منتخب کریں ۔ جیسا کہ چنگیر خان نے اپنے کو منتخب کرایا تھا ۔
افغانستان میں ترکوں کا نفوذ چھٹی صدی عیسویں میں ہوا تھا ۔ جب ایران کے شہنشاہ نوشیروان عادل نے ہنوں کے خلاف ترکوں کی مغربی سلطنت سے مدد لی تھی اور بعد میں ہنوں کی شکست کے بعد ترک پورے افغانستان پر چھاگئے تھے ۔ ان کے حکمران بھی خان کہلاتے تھے ۔ بعض کتابوں سے پتہ چلتا ہے خان کا لائقہ خیبر بختون خواہ کے علاقہ میں مقامی حکمران جو کہ ہندو تھے استعمال کرتے تھے ۔
یہ مقامی ترک حکمران غالباً خان کہلاتے تھے اور بعد میں یہ کلمہ سپہ سالاروں گورنروں کو بھی دیا جانے لگا ۔ بعد میں یہ کلمہ اعزازی طور پر مختلف لوگوں کو دیا جانے لگا اور اس کلمہ کا لقب یافتہ معتبر تسلیم کیا جانے لگا ۔ یہ کلمہ خطاب یافتہ لوگوں کی اولاد بھی استعمال کرنے لگیں ۔ مگر سابقہ کی حثیت سے یہ نشان امتیاز ہے اور صرف معتبر ہی اس کو لگاتے ہیں ۔
اللہ بخش یوسفی نے اپنی کتاب ’یوسف زئی پٹھان ‘ میں لکھا ہے کہ سومنات پر پٹھانوں کے دلیرانہ حملے نے سلطان محمود غزنوی سے یہ الفاظ کہلاوائے کہ خان کہلانے کا مستحق صرف پٹھان ہیں اس وقت سے پٹھان خان کہلانے لگے ۔ اس کی کسی ماخذ سے تصدیق نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی خان معینی بہادر کے ہیں اور کلمہ پٹھان سولویں صدی سے پہلے کے کسی کتاب میں ملتا ہے ۔ اس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ اس روایت میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
خیل
خیل کے پشتو میں معنی گروہ خاندان اور نسل کے ہیں ۔ یہ کلمہ افغان قبائل اور ان کی شاخوں کے ناموں میں بطور لائقہ استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کلمہ وسط ایشیا میں بھی ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ مغلوں کے خانگی ملازمین خاصہ خیل کہلاتے تھے ۔ سندھ میں خاصخیلی قبیلہ آباد ہے ۔ یہ غالباً مغلوں کے خاصہ خیل تھے ، جس میں مختلف گروہ اور قوم کے افراد شامل تھے اور بعد میں یہ ایک قبیلے یا قوم میں تبدیل ہوگیا ۔
زئی
افغانوں کے بہت سے قبائل اور ان کی شاخوں کے ناموں میں زئی کا لائقہ استعمال ہوتا ہے ۔ زات کو پشتو ذات اور اوستا میں زات ، فارسی میں زاد اور ہند آریائی میں جات استعمال ہوا ہے ۔ جس کے معنی پیدا شد کے ہیں ۔ زئی اسی کلمہ سے مشتق ہے ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ آریائی کلمہ ہے اور اس کو استعمال کرنے والے آریائی ہیں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...