افغانوں اور برصغیر کی دوسری اقوام خاص کر راجپوتوں میں بہت سی عادات و رسومات اور دوسرے امور مشترک ہیں ۔ جو کہ ہمارے موقف کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ یہ قوام مشترکہ نسلی سر چشمہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان میں سے ہم کچھ معملات کی طرف ہم توجہ دلارہے ہیں ۔
آبا اجداد پر فخر
مولانا عبدالقادر مرحوم کا کہنا ہے کہ پٹھان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا تعلق کسی نہ کسی قبیلے سے ہو ۔ پٹھان اپنے نام کے ساتھ قبیلے یا خیل کا نام بطور لائقہ لگاتے ہیں ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے ابا اجداد پر فخر کرتے ہیں۔ جیمز ٹاد کا کہنا ہے کہ غریب سے غریب راجپوت اپنے ابا اجداد پر فخر کرتا ہے ۔ اگرچہ اس کو ورثہ میں یہی کچھ ملا ہو ۔
آریاؤں میں مذہب سے مراد گویا قوم اور خاندان کی پرستش تھی ۔ آبا اجداد دیوتاؤں کا درجہ رکھتے تھے ۔ شادی اور توالد وتناسل مذہبی و متبرک افعال تھے ۔ بلا بیٹا چھوڑے مر جانا آریوں میں مصیبت عظمیٰ سمجھا جاتی تھی ۔ قوم سے بے قوم ہونا گویاسلسلہ آبا اجداد کو قطع کردینا ۔
آریاؤں میں کوئی فرد اپنے آبااجداد سے جدا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ فرد کوئی چیز نہیں تھا ، فرد کوئی خالص انسان نہیں تھا ، بلکہ وہ ماں باپ کی اولاد اور اس کے پیچھے کی پشتیں ، جن سے وہ پیدا ہوا ہے اور اس کے آگے کی وہ جھولیں جو اس کے بعد آنے والی ہیں ۔ آریوں میں باپ کا احترام اس لئے نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ باپ ہے بلکہ اس احترام کے پیچھے وہ پرکھے بھی شامل ہیں ، جن سے یہ خاندان وجود میں آیا ۔ یہی وجہ ہے پٹھانوں میں کوئی بھی شخص بھی اپنے نام میں سابقہ میں عموماً قبیلہ یا خاندان کا نام لگاتا ہے ، چاہے وہ کتنے ہی کمتر قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ بقول مولانا عبدالقادر کے پٹھان کے لیے لازمی ہے کہ اس کا تعلق کسی قبیلہ سے ہو اور یہ قبائلی نام سابقہ کی صورت میں پٹھانوں کے ناموں میں لازمی استعمال ہوتا ہے جو کہ اس بات کی نشادہی کرتا ہے کہ یہ آریائی نژاد ہیں ۔
اسلحہ سے محبت
راجپوت اپنے آلات حرب کی پرستش کرتا ہے وہ فولاد کی قسم کھاتا ہے ۔ وہ ڈھال و تلوار اور برچھی کو سجدہ کرتا ہے ۔ راجپوتوں میں ترسنگھ کی داستان مشہور ہے ۔ پرستش تلوار ( ایسی ) وسط ایشیا میں قدیم زمانے میں کی جاتی تھی ، جس کہ باعث ہیروڈوٹس نے اس براعظم کا نام ایشیا رکھا ۔
افغان اپنے آلات حرب سے بہت محبت کرتے ہیں اور اور انہیں عزیز رکھتے ہیں اور انہیں جس طرح سنوارتے اور سجاتے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے ، یہ قدیم زمانے میں آلات حرب کی پوجا کرتے تھے
ٍ باگہ لولی
بچے اکٹھے ہوکر لکڑی کے چمچہ میں مٹی بھر کر اس میں آنکھوں کے لئے دو کوڑیاں لگا دیتے ہیں اور ایک چھوٹی سی لکڑی اڑھا کر باندھ کر کسی بچی کا کرتا پہنا دیتے ہیں ۔ پھر بچوں کا یہ گروہ گھر گھر لئے پھرتے ہیں اور اسے یا باگہ لولی کو نچا نچا کر بارش کی التجائیں دھراتے ہیں اور اس کا حصہ مانگتے ہیں ۔ کوئی مٹھی بھر آٹا ، گہیوں، جوار ، گڑ یا پیسے دیتا ہے ۔ بچے یہ سب جمع کرکے دوکاندار کے ہاتھ بیچ کر گھی ، آتا اور گڑ لے کر اس کا حلوہ پکا کر کھاتے ہیں ۔
برصغیر میں جب بادل آتے ہیں تو بارش کا امکان پیدا ہوتا ہے تو بچے گلی میں شور لگاتے آپ نے سنا ہوگا کہ اللہ میاں بارش دے سو برس کی نانی دے ۔ ہم نے بچپن میں دیکھا ہے ، کہ بچے کپڑے کے گڈا اور گڑیا بنا کر اس کا جلوس نکالتے تھے اور نعرے لگاتے پھرتے تھے ۔ یہ دراصل افغانستان سے لے کر برصغیر کے علاقے کی مختلف رسومات ہیں جو کہ قدیم زمانہ میں آریا بارش کے لئے کرتے تھے ۔ جو اب بچوں میں باقی رہے گئی ہیں ۔
برصغیر کی قوموں کا خیال یا عقیدہ تھا ، اس ان کی ادائیگی سے بارش ہونے لگتی ہے ۔ مثلاً پونا میں بارش نہ ہونے کی صورت میں لڑکے اپنے کسی ساتھی کو ننگا کر کے اسے بتوں سے دھک دیتے ہیں ، اور اسے بارش کا بیٹا کہتے ہیں ۔ پھر وہ اسے لے کر گھر گھر پھرتے ہیں ، گھر والا یا اس کی بیوی اس پر پانی چھڑکتی ہے اور اسے کھانے کی چیزیں دیتی ہے ۔ جب یہ تمام گھروں کا دورہ کرلیتے ہیں تو بارش کے بیٹا کا لباس اتار دیا جاتا ہے اور تمام اشیاء چٹ کر جاتے ہیں ۔ اس طرح مدراس میں کاشت کاروں کی ایک قوم کاپو یا ریڈی ہے ۔ جب اگر بارش نہ ہو تو اس برادری کی عورتیں جمع ہو کر ایک مینڈک پکر لیتی ہیں ، اور اسے گھر گھر لئے پھرتی ہیں اور گاتی پھرتی ہیں مینڈکی خانم کو نہانا ہے ، اے بارش کے دیوتا اس کے لئے ٹھوڑی سی بارش دیدے ۔ گھر والی مینڈک پر پانی ڈالتی ہے اور انہیں خیرات دیتی ہے ۔
بارش کی بالاالذکر رسومات جو قدیم زمانے میں برصغیر کے علاوہ افغانستان میں منائی جاتی تھیں اور یہ ہندؤں میں اب بھی رائج ہیں ۔ یہ آریائی رسومات ہیں اور اب اس علاقہ کے بچوں میں باقی رہے گئیں ہیں ۔
بدلہ
راجپوتوں میں خون کا بدلہ خون ہے اور وہ اس سے کم پر راضی نہیں ہوتا ہے ۔ دشمنی ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مجرم خود معافی چاہے ، تو اس کے پیروں پر گر پڑے اور اپنے کو اس کے حوالے کردے کہ تم جو چاہو سو کرو ۔ دشمنی ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنی لڑکی اس سے بیاہ دی جائے ۔ اس طرح بھی دشمنی ختم ہوجاتی ہے ۔ اس طرح قصاص کے بدلے زمین لینے کا بھی دستور ہے ۔ پٹھانوں میں خون کا بدلہ خون ہے اگر مجرم بچ جائے تو معاوضہ بھی لے لیا جاتا ہے ۔ اس طرح معاوضہ میں لڑکیاں بھی دی جاتی ہیں اور مجرم خود کو حوالے کردے تو اسے معاف کردیا جاتا ہے ۔
پانچ طبقات
راجپوت پانچ طبقات یا گروہ میں تقسیم ہیں ۔ ( ۱ ) سورج بنسی ( ۲ ) چندر بنسی ( ۳ ) آگ بنسی یا اگنی کل ( ۴ ) ناگ بنسی یا تکشک ( ۵ ) جٹ ۔ افغان بھی اپنے کو پانچ طبقات میں تقسیم کرتے ہیں ۔ ( ۱ ) سربنی یا سرابند (۳ ) ۲ ) غرغشتی یا گرگشت ( ۳ ) بٹنی ( ۴ ) متو ( ۵ ) کڑرانی یا کڑلانی ۔ ان کی روایات کے مطابق ان طبقات میں تین صلبی ہیں یعنی سرابند ، غڑغشت اور بٹن ۔ دو وصلی ہیں یعنی متو اور کڑرانی ہیں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...