بختیاری
شیر محمد گنڈا پور لکھتا ہے کہ ایک جوان سیّد زادہ اسحاق اوش سے کوہ سلیمان میں شیرانی کے ملک میں آگیا ۔ یہاں اس نے ایک عورت شاہ بختی سے شادی کرلی ۔ اس عورت سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اس نے ابوسعید رکھا ۔ ابو سعید کے دل میں اپنے وطن کی محبت دامن گیر ہوئی ۔ وہ شیرانیوں سے اجازت لے کر معہ اپنی بیوی اور ابوسعید کے وطن روانہ ہوا ۔ جب وہ کاکڑوں کے ملک میں پہنچا تو بیمار ہوا اور راہ عالم بقاء ہوا ۔ شاہ بختی وہ ابوسعید کے شیرانیوں کے ملک واپس آگئی ۔ چند دنوں کے بعد میانی پدر درم بن چار بن شیرانی نے شاہ بختی سے نکاح کرلیا ۔ میانی کو مال و دولت میں بڑی ترقی ہوئی ، وہ اسے ابوسعید کی برکت کہتا تھا ۔ اس لئے وہ اسے ابوسعید کی بختیاور کہتا ہے ۔ رفتہ رفتہ لقب نام پر حاوی ہوگیا اور بختیاور بختیار ہوگیا ۔ بختیار قوم اسی نسبت سے مشہور ہوئی ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیارؒ کاکی اوشی اسی قوم سے ہیں ۔
نعمت اللہ ہراتی نے شیرانی عورت کا نام شیخی اور لڑکے کا نام سیّد حبیب لکھا ہے جو کہ ابو سعید کے نام سے مشہور ہوا اور اس کا شجرہ نسب اس طرح دیا ہے ۔ سیّد اسحٰق بن جعفر بن نظام بن عیسیٰ بن محی الدین بن محمد بن حافظ بن نور بن جمال بن بو علی بن یدگار علی بن نشان علی بن زین العابدین ۔ افغانوں کے شجرہ نسب جہاں خرافات پر مبنیٰ ہے وہاں سیّد اسحٰق کا شجرہ نسب بھی خرافات پر مبنیٰ ہے اور اس بیان میں فاش غلطیاں ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔
شاہ بختی یا شیخی نے میانی جس سے نکاح کیا تھا اس کی اور قیس کے درمیان پانچ پشتیں ہیں اور میانی چھٹی پشت پر بتایا جاتا ہے ۔ جب کہ اسحٰق اور حضرت علیؓ تک چودہ پشتیں ہوئیں اور اسحٰق پندرویں پشت پر تھا ۔ ایک پشت کو ماہریں انساب نے چالیس سال مانا گیا ہے ۔ اس طرح یہ مدت دوسو سال بنتی ہے اور جب ہم اسحٰق کی پشتوں کا حساب لگاتے ہیں تو یہ چھ سو سال بنتے ہیں ۔ جب کہ قیس کو حضور ﷺ کا ہمعصر بتاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن ہے اسحٰق میانی کا ہم عصر کس طرح ہوسکتا ہے ۔ اگر میانی کے دور کو دیکھتے ہیں تو اس دور میں مسلمان ہرات اور بست سے آگے نہیں بڑھے تھے اور وہ کوہ سلیمان کے علاقے میں بالکل نہیں آئے تھے ۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیارؒ کاکی اوشی ۵۸۳ ہجری میں پیدا ہوئے تھے ۔ اس حساب سے اسحٰق حضرت خواجہ قطب الدین بختیارؒ کاکی اوشی کا ہم عصر ہوتا نہ کہ آپؒ کااسلاف ۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیارؒ کاکی اوشی قدس سرہ قبضہ اوش ماوارالنہر میں پیدا ہوئے تھے ۔ بختیار نام قطب الدین لقب عرف عام میں کاکی کہلاتے تھے ۔ حسینی سادات میں سے ہیں ۔ آپؒ کا سلسلہ نسب یہ ہے ۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیارؒ کاکی اوشی قدس سرہ بن سیّد کمال الدین بن سیدموسیٰ بن سیّد احمد حسام الدین بن سیّد رشید الدین بن سیّد جعفر بن حضرت تقیؒ الوجود بن حضرت علی موسیٰؒ رضا بن حضرت موسیٰ کاظمؒ بن حضرت جعفر صادقؒ بن حضرت محمد باقرؒ بن حضرت زین العابدینؒ بن حضرت امام حسینؓ بن حضرت علیؓ ۔
حضرت زین العابدین کے کسی لڑکے کا نام نشان علی نہیں تھا ، پھر نعمت اللہ ہراتی کا یہ نشان علی کہاں سے آیا ہے ؟بالالذکر بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیارؒ کاکی اوشی قدس سرہ کا افغان نژاد قبیلہ سے تعلق نہیں ہے ظاہر ہے بختیار آپؒ کا لائقہ نہیں ہے بلکہ نام ہے اور بختیار نام ہونے سے افغان قبیلہ سے تعلق نہیں ہوجاتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بختیاری سیّد النسل نہیں ہیں ۔ بلکہ انہیں قدیمی تقدس کی بناء پر سیّد تسلیم کیا گیا ہے اور اسے سچ ثابت کرنے کے لئے روائیتں اور شجرہ نسب گھڑا گیا ہے ۔ حیات افغانی کے محمد حیات خان اور الفسٹن کا خیال ہے کہ ان کا تعلق ایرانی قبیلہ بختیاری سے ان کا تعلق ہے اور یہ ایران سے آکر افغانستان میں آباد ہوگئے ہیں ۔ یہ محض قیاس ہے جو درست نہیں ہے ۔ کیوں کہ بختیاری قبیلہ بہت بعد میں صفیوں کے دور سے کچھ پہلے ایران آیا تھا ۔ پھر انہیں آخر کس بنیاد پر سیّد قرار دیتے ۔ غالباً قدیم زمانے میں ان کا تعلق کسی مذہبی پیشوائی یا تقدس آمیز خاندان سے تھا اور اسلام کے بعد بھی یہ تقدس برقرار رہا اور اسی تقدس کے پیش نظر انہیں سیّد کا لبادہ پہنا دیا گیا ۔ (جاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...