قدیم زمانے سے وسط ایشیا برصغیر پر حملہ کرنے کے لیے افغانستان کے راستے سے آتی رہیں ہیں ۔ ان قوموں کا نام اب صرف تاریخ کے صفحوں پر رہ گیا ہے ۔ ان حملہ آور قوموں میں کچھ لوگ افغانستان اور پاکستان کے شمال مغربی علاقہ میں بھی ٹہر گئے ۔ ان قوموں کی باقیات بظاہر نست و نابود ہوگئیں ہیں ۔ مگر حقیقت میں یہ نئے نت ناموں کے ساتھ وجود میں آگئیں ہیں ۔ اگرچہ وقت کے فاصلوں نے ان کے نام ہی نہیں بلکہ ان کی مذہبی اور لسانی صورتیں بھی بدل گئیں ۔ کیوں کہ مختلف نسلی اور لسانی گروہ کسی جغرافیائی خطہ میں آباد ہوئے تو ان کے مفادات بھی مشترک ہوگئے ۔ اس طرح ان کے صدیوں کے میل جول سے یک نسلی اور لسانی قوم وجود میں آگئیں ۔ ان کے نسلی تعلق کے لئے مختلف فسانے گھڑے گئے اور ان کی نسلی برتری کے لیے مختلف دعویٰ کئے گئے ہیں ۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں کے تغیرات سے ایسے انقلابات وجود میں آتے ہیں ۔ بلاشبہ یہی اقوام موجودہ پٹھانوں اور افغانوں کے اسلاف ہیں یہ قومیں مختلف ادوار میں وسطہ ایشاء سے آئیں اور اس علاقے میں آباد ہوئیں ۔
پختونوں یا افغانوں کے اسلاف دراصل وہ روائتی یا افسانوی نام ہیں جو اپنے شجرہ نسب میں انہیں مورث تسلیم کرتے ہیں ۔ ان شخصیات کو برصغیر اور وسط ایشیا کی اکثر اقوام بھی کسی نہ کسی حوالے سے اپنا مورث مانتی ہیں ۔ اس طرح یہ نام حقیقت میں افسانوی نہیں ہیں ۔ حقیقت میں یہ نام مختلف قبائل اور قوموں کے ہیں جن کی شکلیں اب مسخ ہو چکی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ان ناموں کو اپنانے والے قبائل کا تعلق ماضی میں ان اقوام سے ہے ۔ اس طرح یہ افغانوں کے اسلاف ہیں اور افغان مسلمان ہونے کے بعد اس حقیقت کو بھول گئے ۔ اگرچہ یہ نام ان کی روائیتوں میں زندہ رہے اور شجرہ نسب ترتیب دیتے ہوئے انہیں اپنے شجرہ نسب میں انہیں مورث تسلیم کرتے ہوئے جگہ دی ۔ مثلاً یادو کی نسبت سے خود کو یہود النسل کہا ، تور کی نسبت سے ان گمان طالوت کی جانب گیا ، کش سے قیس ، سور سے سرابند ، اس طرح کی بہت سی مثالیں ہم پیش کرسکتے ہیں ۔
عربوں کے حملے کے وقت یہاں یہاں بت پرست آباد تھے اور چوتھی صدی ہجری تک یہاں اسلام نہیں پھیلا تھا ۔ محمود غزنوی کے کے دور میں یہاں اسلام پھیلنا شروع اور یہ عمل غوریوں کے عہد تک جاری رہا ۔ جس کا حوالہ ہم غوری میں دے چکے ہیں ۔ افغانستان کے علاقہ میں اسلام پھیل جانے سے جہاں مذہب میں تبدیلی واقع ہوئی وہیں جغرافیائی حدبندیوں کی بدولت لسانی اور رسوم و رواج میں بھی قدرتاً تبدیلیاں واقع ہوئیں اور مسلمانوں کے زیر اثر افغانستان اور برصغیر کے شمالی علاقوں سے ہندی ثقافت کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اور اس طرح ان علاقوں میں رہائش پزیر مختلف اقوام کے لوگ مشترک مذہبی اور لسانی ثقافت کے تحت یکجا ہوگئے ۔
یہ اقوام جو افغانستان سے برصغیر تک پھیل گئیں تھیں ۔ اس طرح افغانستان سے لے کر برصغیر کے باشندوں مشترک نسلی سرچشمہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ عہد قدیم میں ان کا مذہب اور ان کی زبانیں تقریباً ایک تھیں ۔ لیکن افغانستان میں آباد ہونے والی یہ اقوام مسلمان ہوگئیں ۔ جبکہ برصغیر میں آباد ہونے والے گروہ بت پرست ہونے کی وجہ سے باآسانی مقامی اقوام میں جذب ہوگئے اور جلد ہی وہ بھی مقامی مذہبی اساطیر کا حصہ بن گئے ۔ مگر اس کے باوجود برصغیر کی قوموں کی روایات افغانوں کی روایات سے ملتی ہیں ۔ ان سے یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں آباد اور برصغیر کی حملہ آور قوموں کا نسلی سرچشمہ ایک ہی ہے ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران ، افغانستان اور برصغیر کی اکثر اقوام کا تعلق مشترک نسلی سرچشمہ سے ہے جو کہ اب ایک علیحدہ نسلی تشخص کی دعویٰ دار ہیں ۔
بارویں صدی میں منگولوں کا حملہ قدتاً تبدیلوں کا سبب بنا ۔ کیوں کہ اس حملے کی بدولت جہاں سیاسی تبدیلیاں واقع ہوئیں وہیں افغان یا پٹھان قومیت کی تشکیل کا پیش خیمہ بنا ۔ کیوں کہ منگولوں کے حملے کی باعث مقامی حکومتیں ختم ہوگیں اور مختلف نسلی گروہ منشر ہوگئے اور وہ آپس میں اختلااف رکھنے کے باوجود قومی اور مقامی سطح پر اتحاد کے لئے مجبور ہوگئے ۔ وہاں کے مختلف نسلی گروہ جو مسلمان ہوچکے تھے متحد ہو کر منگولوں کے خلاف مزاحمت کی ۔ اس طرح قدرتاً منگولوں کا حملہ افغانوں کی قومیت کی تشکیل کا سبب بنا اور اس طرح مختلف نسلی اور لسانی گروہ جن کی روایات اور شناخت مختلف تھیں اس اتحاد کی بدولت مشترک ہوگئیں اور انہوں نے رفتہ رفتہ یک جدی یا یک نسلی کا روپ دھار لیا ۔ جو کہ اب پختون یا افغان نام سے پہچانی جاتی ہیں ۔ ان کے نسلی تعلق کے لئے مختلف فسانے گھڑے گئے اور ان کی نسلی برتری کے لیے مختلف دعویٰ کئے گئے ہیں ۔