اس وقت تقریباً آدھی رات تھی جب ہمارے جہاز کے پہیوں نے پاک سرزمین کو چھوا۔ اسلام آبادائیرپورٹ کی کھلی فضا میں اس وقت اوس بھری خنکی تھی۔ چاندنی او رائیرپورٹ کی روشنیوں میں خاصے فاصلے پر چندجہاز کھڑے نظر آتے تھے۔ لیکن کہیں ہل چل نہیں تھی۔ ہرطرف خاموشی کا راج تھا۔ خاموشی کے اس سحر کو توڑتی ہوئی شٹل بس جہاز کے سامنے آ کر رُکی۔ ہم حجازِ اقدس کی پا ک سرزمین سے آ کر دوسری پاک سرزمین پر قدم رکھنے والے تھے۔ یہ زمین بھی میرے لیے مقدس تھی۔ اس پاک سرزمین پر میرا جنم ہوا تھا۔ میں اس کی خاک، اس کی فضائوں اور اس کی ہوائوں میںپروان چڑھا تھا۔ اس زمین سے میرا ازلی رشتہ تھا۔ یہ زمین میرے پرکھو ں کی وارث تھی۔
میں نے سیڑھیوںسے اُتر کر زمین پر قدم رکھا تو ایک ٹھنڈک سی رگ وپے میں دوڑ گئی۔ یہ ٹھنڈک میری مٹی اور اس کے پیار کی تھی۔ میرے وطن اور اس کی فضائوں کی تھی۔ ان فضائوں میں ایک نور سا گھلتا محسوس ہوا ۔ یہ پورے چاند کی چاندنی کا کمال تھا یا میرے دل میں انگڑائی لینے والے کسی قومی نغمے کا سرور تھا۔یہ چاندنی، یہ خنکی، یہ خاموشی اور دور کھڑے سرو کے درخت جیسے سحر زدہ کر رہے تھے۔ جی چاہتا تھاکہ جوتے اتار کر ننگے پائوں اس دودھیا روشنی میں چہل قدمی شروع کر دوں۔ میں نے سر اٹھاکر چاند کی طرف دیکھا تو یوں لگا جیسے مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہا ہو۔
چاند تو ہر جگہ اور ہر ملک میں اپنی چاندنی بکھیرتا ہے لیکن یہ منظر کہیں اور نظر نہیں آیا۔ یہ میرے اندر چھپا پیار تھا کہ مجھے باہر کا منظر یوں حسین لگ رہا تھا۔یہ میرے وطن کی مٹی اور ا س کی فضائوں کا کمال تھا جس نے میرے قلب و روح میں گلزار بسا دیا تھا ۔
اپنے آبائی وطن سے محبت انسان کے خون میں رچی ہوتی ہے۔روزگار اگر ہمیں وطن سے دور لے بھی جاتا ہے تو ہمارے دل وطن سے دور نہیں ہوتے بلکہ اس کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ پردیس میں رہنے والے تمام پاکستانی چاہے وہ پچاس سال سے ہی باہر کیوں نہ رہ رہے ہوں پاکستان کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ اگر وطن پر ذرا سی آنچ آتی ہے تو انہیں تشویش اور فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ اگر وطن سے اچھی خبریں آتی رہیں تو ان کے دل کو تسلی رہتی ہے۔
یہ تمام پردیسی دیار غیر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قومی دن اور قومی تہوار جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ قومی مشاہیر کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ قومی زبان اور اس کے ادب کی ترویج وترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور پاکستان سے
ادبی شخصیات کو بلا کر ان کے لیے ادبی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ وہ پاکستان سے آنے والی ہر ہم شخصیت کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور اسے اپنے سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اپنے ملک کی قومی ٹیموں کی بھرپور پذیرائی کرتے ہیں۔
یہ پاکستانی پاکستان کے اندر ہر فلاحی ادارے کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ اپنے اہل خانہ ، اپنے عزیزواقارب اور احباب کی مدد کرتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں چاہے خود ان کو کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنا پڑے۔ زرمبادلہ کی مسلسل ترسیل کے ذریعے وہ پاکستان کی معیشت بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی ملک سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی ملک کے اندر رہنے والے۔ لہٰذا ان کی وفاداری اور حب الوطنی پر سوال اٹھانے سے پہلے ذرا سوچ لینا چاہیے کہ ایسے کلمات سے لاکھوں پاکستانیوں کی دلآزاری ہوتی ہے۔ آپ ان پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیتے ،نہ دیں۔ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے ،نہ دیں۔ لیکن ان کی حب الوطنی پر شک نہ کریں۔
دوسرے لوگ جس میں سرکاری اور نیم سرکاری اہلکار، کاروباری افراد، سفارت کار، کھلاڑی اور صحافی باہر جا کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی اور نہ ہے۔ اسی طرح عام پاکستانی بھی بہتر روزگار حاصل کرنے اپنی اوراپنے خاندان کی بہتر کفالت کرنے اور بیرون ملک جا کر رہتے ہیں تواس سے ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کیوں کھڑا کردیا جاتا ہے۔
اگر یہ سارے پاکستانی وطن واپس آ جائیں تو اس سے ملک کو کیا فائدہ ہو گا ۔ اس سے پاکستان کی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو زرمبادلہ کی ترسیل بند ہو جائے گی اور دوسرا ان تمام لوگوں کے لیے روزگار کا بندوبست کرناپڑے گا۔ گویا ان لاکھوں پردیسیوں نے باہر جا کر وطن کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے بالواسطہ طور پرروزگار فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
بیرون ملک رہنے الے پاکستانیوں کے بارے میں اخبارات اور ٹی وی پر دل آزار باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ افسو س کی بات ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو ملک کے دماغ ، آنکھیں اور زبان ہیں یعنی صحافی، دانشوراور اینکرحضرات۔ ان کی زبانی یہ باتیں سن کر نہ صرف دل دکھتا ہے بلکہ افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہ سب خلاف حقیقت اور گمراہ کن باتیں ہوتی ہیں۔ہم آپ کی نظروں سے دور ہوئے ہیں ہمیں اپنے دل سے دور تو نہ کریں۔اللہ کرے کہ وطن عزیز میں روزگار کے اتنے مواقع حاصل ہوجائیں کہ کسی کو وطن نہ چھوڑنا پڑے۔ کسی کو اپنوں کی جدائی کا غم نہ سہنا پڑے۔ اللہ کرے کہ کسی کو اپنے وطن سے دور کسی غیرمٹی میں نہ دفن ہونا پڑے۔میرا ایک شعر ہے :
جن سے ہزاروں گھروں کے چراغ جلتے ہیں
وہی مسافر بے وطن اور بے گھر پھرتے ہیں