کوئی دوہفتے پیشتر، جب روس کا فوجی دستہ پہاڑی جنگی مشقوں کے لیے پاکستان پہنچا تھا پھر چند روز پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کے مقام اڑی میں دہشت گردی ہوئی تھی اور قبضے کی لکیر کے دونوں جانب سے بیان داغے جا رہے تھے، تب ایک ٹی وی ٹاک شو شروع ہونے سے قبل ایک فارغ شدہ لیفٹیننٹ جنرل صاحب روس کے فوجی دستے کے "خاص وقت" پر پہنچنے کو روس کی جانب سے پاکستان کے حق میں ایک اشارہ باور کر رہے تھے بلکہ دوسروں کو باور کرانے پر جنرلوں کی طرح بضد بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی اشارہ وشارہ نہیں تھا بلکہ دو ملکوں کے درمیان طے پائے دو طرفہ سمجھوتوں پر عمل درآمد کیے جانے کی طرح پہلے سے طے شدہ سرگرمی تھی۔
پھر جب ہندوستان نے "سرجیکل سٹرائیک" کرنے کا واویلا کیا ہوا تھا تو ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے میری رائے جاننے کی خاطر مجھ سے رابطہ کرکے بتایا تھا کہ روس کی وزارت خارجہ نے ہندوستان کی سرجیکل سٹرائیک کی توثیق کیے جانے سے متعلق بیان دیا ہے۔ میں چونکہ یہاں پاکستان میں ہوں اس لیے روسی میڈیا سے بالکل منقطع ہوں۔ میں نے رائے دینے سے پہلے کچھ مہلت مانگی تھی اور روس کی وزارت خارجہ کا آفیشل ویب سائٹ کھنگالا تھا مگر مجھے ایسا کوئی بیان نہ مل سکا تھا۔
مذکورہ نشریاتی ادارے کے کسی جذباتی پاکستان نژاد پریزنٹر نے فون کیا تھا۔ میں نے بتایا تھا کہ ایسا کوئی بیان نہیں ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ بیان ہندوستان میں متعین روس کے سفیر نے دیا ہے اور ساتھ ہی تکرار شروع کر دی تھی کہ ایسے بیان دینا سفارتی آداب کے منافی ہے، انہوں نے ایسا بیان اپنی حکومت کے ایماء پر دیا ہوگا۔ ظاہر ہے میں روس کا وزیر خارجہ نہیں ہوں چنانچہ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا بس اپنی رائے دے سکتا تھا جو دے ڈالی تھی۔
بعد میں ہندوستان میں متعین روس کے سفیر کا بیان جاننے کی خاطر دہلی میں روسی سفارت خانے کا آفیشل ویب سائٹ دیکھا تو اس پر یہ بیان یوں درج تھا،" نئی دہلی: پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں ہندوستان کی سرجیکل سٹرائکس کی حمایت کرتے ہوئے ہندوستان میں روس کے سفیر الیکساندر ایم کداکین نے کہا کہ روسی فیڈریشن واحد ملک تھا جس نے صاف لفظوں میں کہا کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔
سی این این 18 نیوز کو ایک تخصیصی انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی کو روکے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ملک سرحد پار دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے ضمن میں ہمیشہ ہندوستان کا حامی رہا ہے۔
"جب ہندوستان میں دہشت گرد فوجی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں اور پرامن شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں تو انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ ہم سرجیکل سٹرائیک کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے" روسی سفیر نے کہا۔
ہندوستان کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ اسے روس پاکستان فوجی مشقوں کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ روس پاک فوجی مشقیں پاکستان کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاست جموں کشمیر میں نہیں ہو رہی ہیں"
" پاکستان کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاست جموں کشمیر" کے الفاظ کا استعمال بہت زیادہ اہمیت لیے ہوئے ہو سکتا ہے۔
"ہندوستان کو روس پاکستان فوجی مشقوں سے متعلق تشویش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ مشقیں دہشت گردی مخالف عمل کے ضمن میں ہو رہی ہیں۔ یہ ہندوستان کے حق میں ہے کہ ہم پاکستانی فوج کو سکھائیں کہ وہ خود کو ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہ کرے۔ اور یہ مشقیں کسی حساس یا متنازع خطے جیسے پاکستان کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاست جموں کشمیر میں نہیں ہوئیں" روسی صدر نے کہا۔ ۔ ۔"
یہ خبر سی این این 18 نیوز کی ہے جو ہندوستان میں روس کے سفارت خانے کی آفیشل سائٹ پر موجود ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
مجھے سمجھ میں نہیں آئی کہ سفیر موصوف نے سفارتی آداب کی کون سی خلاف ورزی کی ہے۔ روس ریاست جموں و کشمیر کو ہندوستان کی ریاست مانتا ہے۔ پاکستان سے ملحق کشمیر کو پاکستان کے زیر قبضہ مانتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہے اور سرحد پار دہشت گردی کا شدید مخالف ہے جو کسی بھی مناسب رویہ رکھنے والے ملک کو ہونا چاہیے۔
اب آتے ہیں تازہ ترین اور عجیب و غریب بیان کی جانب جو وزیر اعظم پاکستان کے خصوصی ایلچی برائے جناب مشاہد حسین نے دیا ہے۔ یہ بیان بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر یوں درج ہے: " " امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کے خصوصی ایلچی مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر اگر پاکستان کی نہیں سنی گئی تو اس کا جھکاؤ روس اور چین کی جانب ہو جائے گا۔"
ایک جانب پاکستان سمجھتا ہے کہ روس اس سے اچھے تعلقات کا نہ صرف آرزو مند ہے بلکہ اس کے لیے سعی بھی کر رہا ہے دوسری جانب ایسے بیان دیے جاتے ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو اگر امریکہ نے اہمیت نہ دی تو وہ روس کی جانب مائل ہو جائے گا۔
یقین کیجیے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف تدبر میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے پاسنگ بھی نہیں ہیں جبکہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کے ہم پلہ کوئی ایسا وزیر یا مشیر نہیں جو خارجہ پالیسی کے اسرار و رموز سمجھ سکتا ہو چنانچہ ان کے لیے ایسے بیانات اچنبھا نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان سے متعلق بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کیا ہے، کیا کر رہا ہے، کیا کرنا چاہتا ہے بلکہ یہ بھی کہ اصل میں کیا کرے گا۔ اسی لیے تو صدر روس ولادیمیر پوتن نے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا بیان دیا تھا کہ دورہ پاکستان کی کوئی ٹھوس وجوہ نہیں ہیں۔
بیلا روس کے صدر الیکساندر لوکا شینکو کے دورہ پاکستان کو یہ نہ سمجھا جائے کہ پاکستان کے روس کے ساتھ بھی تعلقات اچھے ہیں۔ بیلا روس ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کا انحصار روس کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد پر ہے۔
روس کو پاکستان کی ضرورت اگر ہے تو دو حوالوں سے ایک افغانستان کے حوالے سے کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان کی شرکت کے بغیر افغانستان کے مسئلے کا حل ہونا ممکن نہیں۔ افغانستان کے مسئلے کے حل میں روس کی دلچسپی اس لیے ہے کہ اگر افغانستان میں حالات بہت خراب ہوتے ہیں تو اسلامی بنیاد پرستی بڑھ سکتی ہے جو رس کر وسط ایشیا کی ریاستوں بالخصوص ازبکستان اور کرغیزستان میں پہنچ سکتی ہے یوں روس پر وسط ایشیا کے ساتھ اپنی سرحدوں کی کڑی نگرانی کا ایک اضافی بوجھ پڑے گا اور بہت ممکن ہے کہ بنیاد پرستی روس کی ان ریاستوں تک جا پہنچے جہاں مسلمان اکثریت میں۔ وسطی ایشیائی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ماسکو، سینٹ پیٹرز برگ اور دوسرے شہروں میں بھی موجود ہے۔
دوسری وجہ روس کا اپنی تجارت کو متنوع کرنا ہے جس میں خاص طور پر تیل و گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر اور جوہری بجلی گھر تعمیر کیے جانے کی تجارت ہے۔ ان دونوں کے لیے پاکستان کوئی بری منڈی نہیں ہے۔ مگر معاشی تعلقات تب ہی بہتر ہوا کرتے ہیں جب میزبان اور مہمان دونوں ملکوں کی حکومتوں اور زعمائے سیاست کے رویے درست ہوں۔ گسپادین کداکین نے سرجیکل سٹرائیکس کے بارے میں جو بیان دیا ہے اس کے بعد مشاہد حسین کو روس کی جانب راغب ہونے کا بیان دیتے ہوئے سوچنا چاہیے تھا۔
روس اور پاکستان کے تعلقات برے ہرگز نہیں ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ روس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں کوئی مناسب بات نہیں۔ سوویت یونین میں ہندوستان کا سفارت خانہ آزادی سے پہلے کھل چکا تھا اور ہندوستان کی جانب سے پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن لکشمی وجے پنڈت آزادی سے پہلے ہی وہاں بطور سفیر پہنچ چکی تھیں۔ اس کے برعکس پاکستان سرد جنگ کے دوران مسلسل امریکہ کا حلیف اور سوویت یونین کا حریف رہا تھا۔
یقین کیجیے جب تک کشمیر میں سرحد پار دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاتا روس کے تعلقات پاکستان کے ساتھ اچھے ہونے سے رہے بالکل ویسے جیسے جب تک افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کی سرحدیں پار کرکے کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو نہیں پالیتے، ان دونوں ملکوں کے تعلقات بھی شاندار ہونے سے رہے۔
“