روس کے شہر وورونیژ سے شائع ہونے ولے اخبار " کمیونا" میں پندرہ دسمبر 2016 کو پرپورٹر وکتور رودینکو کی تیار کردہ خبر یوں ہے:
آج پاکستان کے شہر پشاور میں روس کے لیے ایک ثقافتی کنج کا افتتاح کیا گیا جہاں روس کے معروف اور عظیم شاعر الیکساندر پشکن کی یادگاری تختی نصب کی گئی۔
ہمیں یقین ہے کہ اس واقعے سے متعلق پشاور سے دور بسنے والے لوگوں کو بھی معلوم ہو جائے گا، معروف شخصیت اور نیشنل عوامی پارٹی کے ایک رہنما واجد علی خان نے کہا۔ یہ روس کے ساتھ ثقافتی روابط کو ترقی دیے جانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس تاریخی واقعے کے گواہ بنے ہیں۔ روس اور پاکستان کے شعرا کی یادگاریں بنانے کا خیال اسی برس تب آیا تھا جب نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے شہر وورونیژ کا دورہ کیا تھا۔
"اور اب ہم آپ کو خوشی کے ساتھ مطلع کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین نے کچھ ہی عرصہ پیشتر صوبہ وورونیژ کے گورنر الیکسی گوردی ایو کو لکھا ۔ ۔ ۔ نیشنل عوامی پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ پشاور، خیبر پختون خواہ، پاکستان میں روس کے معروف شاعر الیکساندر سرگئیوچ پشکن کی یادگاری تختی نصب کی جائے جو مستقبل میں ہمارے ملکوں کے ثقافتی روابط کو ترقی دیے جانے اور ہمارے ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے سے متعلق جاننے کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہو۔ ہم روس کے لیے ایک ثقافتی کنج کا اہتمام کرنے کے بھی خواہاں ہیں ۔ ۔ ۔ "
الیکساندر پشکن کی یادگاری تختی نصب کیے جانے اور روس کے لیے ثقافتی کنج مختص کیے جانے کا کام "باچا خان مرکز" میں کیا گیا جو نیشنل عوامی پارٹی کا ثقافتی مرکز ہے۔ اس مرکز میں لائیبریری، تحقیقی ادارہ اور شعبہ تعلیم ثقافت بھی شامل ہیں۔ خوشگوار ماحول میں ہوئی اس تقریب میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما جمیل گیلانی، بشیر مٹا اور افراسیاب خٹک شامل تھے۔
روس کی جانب سے نمائندگی شہر وورنیژ میں واقع پشتون ثقافتی و کاروباری مرکز " پشتون" کے ڈائریکٹر نوید محمد نے کی جو وورونیژ گورنمنٹ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور جن کی کتاب " پشتون" سے متعلق اخبار "کمیونا" نے اپنے قارئین کو تھوڑا عرصہ پیشتر آگاہ کیا تھا جس میں روسی قارئین کو پشتون عوام کی رسوم و روایات، سماج اور عادات کے علاوہ پشتو زبان کے نامور شاعر غنی خان سے متعارف کرایا گیا ہے۔
اس اخبار کا لنک مجھے نوید محمد خان نے بھیجا ہے۔ نوید بہت فعال انسان ہیں۔ اب تک کئی اردو کتابوں کے تراجم روسی زبان میں کروا چکے ہیں۔ ان کی سعی ہے کہ ماسکو میں نہ سہی کم از کم وورونیژ گورنمنٹ یونیورسٹی میں ہی ایک "اقبال چئیر" بن جائے۔ اسی طرح انہوں نے غنی خان جیسے معروف شاعر کو روسیوں سے متعارف کروایا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں وہ غنی خان کی شاعری کا ترجمہ بھی روسی زبان میں کر ڈالیں۔
مسئلہ روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا ہے کیونکہ افغانستان، ایران اور ہندوستان تینوں ہی کے حوالے سے روس ایک اہم ملک ہے۔ روس بھی آگاہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے تناظر میں اہم ہی نہیں بلکہ اہم ترین ہے۔ افغانستان میں حالات کا مستحکم ہونا خطے بھر میں استحکام پیدا ہونے کا موجب بنے گا۔ تعلقات کو ترقی دیے جانے کی خاطر پہلا قدم ثقافتی تعلقات کو فروغ دیا جانا ہوتا ہے۔ علم و ادب، آرٹ، ویژیول آرٹ جس میں فلمیں، دستاویزی فلمیں، ڈرامے، گیتوں کے کلب اور بہت کچھ آتا ہے کو ایک دوسرے کے عوام میں متعارف کرا کے مقبول بنانا ہوتا ہے۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں اتنی خوشگوار خبر ہمیں روس کے اخبار سے مل رہی ہے۔ میں نے آج تمام اخباروں کا حسب معمول مطالعہ کیا ہے۔ ممکن ہے کہ کہیں اس سلسلے کی کوئی چھوٹی سی خبر ہو جو میری نظر سے چوک گئی ہو۔ ایسی خبر کو جلی الفاظ میں ہونا چاہیے۔
الیکساندر پشکن روس کے لیے اسی طرح ہیں جس طرح ہمارے لیے علامہ اقبال۔ روس میں پشکن کے نام سے باقاعدہ سب سے بڑا لینگویج انسٹیٹیوٹ ہے جہاں دنیا بھر کی زبانیں پڑھائی جاتی ہیں اور جہاں دنیا بھر سے نہ صرف طالب علم بلکہ عالم و فاضل لوگ روسی زبان پڑھنے آتے ہیں۔
ثقافتی روابط کو جس قدر ترقی دی جائے گی دوسرے ملکوں کے لوگوں کے اذہان سے اس قدر ہی پاکستان سے متعلق غلط فہمیاں دور کی جا سکیں گی۔ روس میں نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک لوگ یہ کوششیں کر رہے ہیں جو مستحسن ہیں۔ ہمیں ان کی ان کوششوں کو سراہنا چاہیے اور خاص طور پر نوید محمد کو جنہوں نے سبھوں کو ایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ آفرین نوید محمد خان۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1656557451037025
“