ایران امریکہ کشیدگی کے تناظرمیں گزشتہ دنوں ایک عسکری ماھرکہہ تھےایران نے کسی مشکل میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔بلکہ ایران خطے میں بھارت کااتحادی ہے۔مگریہ بات ہرپاکستانی جانتاہےپاکستان کوسب سےپہلےایران نےتسلیم کیاتھااوررضاشاہ پہلے غیرملکی سربراہ تھےجنہوں نے پاکستان کادورہ کیاتھا۔
1962میں ایران کےسفیدانقلاب نےپاکستان کوبھی متاثرکیا۔رضاشاہ نےکئی صنعتی اداروں کوحکومتی تحویل میں لیا۔زرعی اصلاحات ہوئیں۔انکےیہ اقدام پاکستان میں قابل تقلیدٹھہرے۔ایوب نےبھی زرعی اصلاحات شروع کیں۔مگر ایران اورپاکستان دونوں میں اقدامات سیاست کی نذرہوئے۔اسی دورمیںRCDکی بنیادرکھی گئی۔
1965میں پاک-بھارت جنگ میں جن ممالک نےامریکی دباؤ کےباوجودپاکستان کواسحلہ سپلائی کیا ان میں ایران اور ترکی شامل تھے۔اس دوران امریکہ نےپاکستان اوربھارت کواسحلےکی سپلائی پرپابندی عائدکی۔مگربھارت کوروس جبکہ پاکستان کو چین اورایران نے اسحلہ مہیاکیا۔اس بات کازکرتمام مورخین نےکیا۔
1969میں مراکش کے شہر رباط میں اسلامی سربراھی کانفرنس کا اولین اجلاس ہوا اس اجلاس میں بھارتی وفد نےشرکت کرنی تھی۔مگر یحیی خان نے بھارت کی شمولیت کو قبول کرنے سے انکار کیا۔اس موقع پر ایران کے شاہ رضا نے پاکستان کا ساتھ دیاتھا۔اب اسی او۔آئی۔سی کا بھارت حصہ ہے۔یہ کس کی ناکامی ہے۔؟
سقوط مشرقی پاکستان کے بعدجولائی1974میں ایران نےپاکستان کوترقیاتی اوربیرونی ادائگیوں کیلئےسب سےبڑی مالی مددفراہم کی۔88کروڑڈالرکی امدادپاکستان کوتین ٹکڑوں میں ملی۔پہلےسال55،دوسرےسال18 اورتیسرےسال15کروڑڈالرملے۔اسکےبعدپانچ سالوں میں یہ قرض واپس ہوناتھا۔شرح سودصرف2.5%تھی۔
1979میں انقلاب ایران کےبعد صورتحال کافی حد تک تبدیل ہوئی۔مگراس دوران امام خمینی کےایک خطبے نےدنیاکوحیران جس میں انہوں نےفلسصین اور کشمیرکوایک جیسامسئلہ قرار دیا۔کشمیرپرایران کےرجعت پسندراہنماآج بھی امام خمینی کی پالیسی کے حامی ہیں۔آیت خامنائی کےخطبات اس بات کی تصدیق کرتےہیں۔
پاک-ایران تعلقات میں دراڑ عراق-ایران جنگ میں آیا۔جب عرب ممالک اورامریکہ کےدباؤ پرپاکستان نےجنگ میں کسی کی حمایت نہیں نہ مذمت۔مگر پاکستان کی ہمدردیاں عراق کیساتھ تھیں۔اخبارات کو
اس معاملے میں کالمزشائع کرنے سےروک دیاگیاتھا۔اگر1980-88تک کےاخبارات دیکھ کراس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
1979کےاسلامی انقلاب کےبعدپاکستان ایران کیخلاف بطور پراکسی ملک استعمال ہوا۔افغان جنگ کی آڑمیں کئی مذھبی تنظیموں نےپاکستان میں ایرانی اثرات کاچرچاکیا۔اس دوران ایران میں کئی دہشتگردحملوں کاالزام پاکستان پرعائدہوا۔اس دوران ایران سےشائع ہونےوالےلٹریچرنےرہی سہی کسربھی نکال دی۔
پاک-ایران کشدگی میں اضافہ جنداللّہ کی وجہ سےتھا۔ایران کادعوی تھاجنداللّہ پاکستانی علاقوں سےآپریٹ کرتی ہے۔اس بات کااہم ثبوت جنداللّہ کےسربراہ عبدامالک ریگی کےپاکستانی شناختی کارڈتھا۔جن پراسکا نام سعیداحمدولدغلام حیدرتھا۔اس دوران انکشاف ہواامریکہ نےجنداللّہ کو400ملین ڈالردیئےتھے۔
جنداللّہ کےسربراہ عبدالماک نےجامعہ بنوریہ کراچی سےتعلیم حاصل کی تھی۔انکی ابتدائی تحریک بلوچوں کےحقوق سےجڑی تھی۔بعدمیں اسکومذھبی رنگ دیاگیا۔حیرت کی بات یہ ہےاس تنظیم کےکئی ممبران پاکستانی بلوچستان اسمبلی کےممبربھی رھے۔2002کےبعدتنظیم نےپاکستان میں بھی کاروائیاں کیں۔
1999میں پاکستان اورایران نےگیس پائپ لائن کامعاہدہ کیا جوپایہ تکمیل کونہ پہنچا۔2009میں اسکادوبارہ اعلان ہوا۔اس سلسلےمیں سابق صدرآصف زرداری اوراکرانی صدراحمدی نژادنےکام کاافتتاح بھی کیا۔یہ منصوبہ پایہ تکمیل کونہیں پہنچ سکا۔اس منصوبےسےپاکستان صنعتوں کوفائدہ ہوسکتاتھا۔
نقلاب ایران کے بعدپاک-ایران تعلقات پر عالمی دباؤ زیادہ رہا ہے۔رجعت پسندوں کا جھکاؤ پاکستان کی طرف رہا۔اصلاح پسندوں نےآزاد خارجہ پالیسی ترتیب دی۔موجودایرانی صدرحسن روحانی بھی اصلاح پسند ہیں۔سو مشرق وسطی کے حالات میں پاکستان کا جھکاؤ شاید ایران کی طرف نہ ہو۔