(Last Updated On: )
قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے شمال مغربی سرحدی صوبے کے دورے کے دوران جب پاک افغان سرحد پر گئے تووہاں موجود افغان فوجی سے ہاتھ ملایا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم بحیثیت امت مسلمہ ایک قوم ہیں جب کہ یہ لکیریں شیطان کی لگائی ہوئی ہیں جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان کے آغاز میں ہی اپنا خصوصی ذاتی نمائندہ افغانستان بھیجا، بعد میں اسی نمائندے کا دفتر پاکستان کا سفارت خانہ بنا دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں افغانستان کے حکمران بادشاہ نے سردار نجیب اللہ خان کو اپنا نمائندہ سفیر بنا کر پاکستان بھیجا۔ افغان سفیر نے 3دسمبر1947ء کو اپنی سفارتی دستاویزات قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کوپیش کیں تو اس موقع پر قائدنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
”پاکستان کے عوام اورحکومت افغان عوام کے ساتھ بہت گہرے اور گرم جوش دوستانہ روابط محسوس کرتے ہیں جوکہ ہمارے قریب ترین ہمسائے بھی ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے صدیوں پرانے اور نسلوں سے قائم تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی بندھن ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنے افغانیوں بھائیوں کے جذبہ آزادی اور مضبوط کردار کی قدر کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے دونوں حکومتیں بہت جلد ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیروشکر ہو جائیں گی اور ہم تمام معاملات کو آپس کے تعاون کی بنیادپر خوش اسلوبی سے حل کرلیں گے“۔
اس سے قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ان جذبات کا احساس ہوتا ہے جو وہ پڑوسی ممالک کے بارے میں رکھتے تھے اور خاص طورپر مسلمان پڑوسی ممالک کے بارے میں جنہیں وہ امت مسلمہ کے حوالے سے باہم ایک تصور کرتے تھے۔ قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے ان فرمودات سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اصول بھی مرتب ہوتے ہیں کہ جن کے مطابق وطن عزیز کی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ مسلمان ملکوں کی اور دیگر امت مسلمہ کے ممالک کی اہمیت دیگرباقی ممالک سے زیادہ ہے۔
پاکستان اور افغانستان کو ”ڈیورنڈ لائن‘کی تاریخی و دستاویزی سرحد ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ یہ 2430کلومیٹر(1510میل) لمبی ہے۔ تاج برطانیہ نے ہندوستان کی سونے کی چڑیا کو اپنے پنجرے میں بند کیا تواسے خطرات لاحق ہوئے اور خاص طور پر شمال سے اسے روس کی بڑی طاقت سے بے حد خطرہ تھا کہ وہ افغانستان کے راستے ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں گڑبڑ کے حالات نہ پیدا کر دے۔ چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں وائسرائے ہند نے افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن سے خط و کتابت شروع کی اور ان کی دعوت پر اس وقت کے برطانوی ہندوستان کے امور خارجہ کے نگران سرہنری یٹیمر ڈیورند (Sir Henry Mortimer Durand)کو کابل بھیجا تاکہ پیش نظر مسئلہ کا کوئی سیرحاصل نتیجہ نکالا جا سکے۔ نومبر1893ء میں دونوں حکومتوں کے درمیان باقائدہ ایک سو سالہ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے نتیجے میں سرحدی پٹی کا تعین کر دیا گیا۔ یہ سرحدی پٹی ”ڈیورنڈ لائین“ کہلاتی ہے۔اس ایک سو سالہ، معاہدے کے تحت واخان، کافرستان کا کچھ حصہ، نورستان، اسمار، مہمند لعل پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کو سونپ دیا گیا جب کہ استانیہ، چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلندخیل،کرم،باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال برطانوی ہندوستان کے حصے میں آگئے۔
قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان اس معاہدے کی پابندی کرتا رہا اور لیکن افغانستان نے اس ڈیورنڈ لائن کو ماننے سے انکار کر دیا اور دریائے کابل تک کے علاقے کا دعوی بھی کردیا۔ وہ اس دعوے کے حق میں انگریز کی آمد سے پہلے سکھوں کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں جب سکھوں کی فوج کشی کے نتیجے میں ان کے یہ علاقے چھین لیے گئے تھے۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ سکھوں نے علاقے چھین لیے اور افغانستان کی حکومت کچھ نہ کر پائی، انگریز نے میز پر بیٹھ کر دستخط کروالیے تو بھی والی افغانستان نے ہاتھ ملا کراپنے علاقے، اگر یہ ان کے اپنے تھے، انگریز کے حوالے کر دیے اور اس شان سے کیے کہ جو انگریز افسریہ علاقے لینے آیا وہ کئی ہفتوں تک افغانستان کے بادشاہ کی میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوتا رہا اور اسے پورے تزک و احتشام کے ساتھ رخصت بھی کر دیا۔ اور اس معاہدے کی مدت بھی پوری ایک صدی تک طے کر دی، جب کہ دستخط کرنے والوں کو یقین کامل تھا اگلے سوسالوں کے بعد تک ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن 14اگست1947کے بعد اپنی طویل قومی، ملی و عوامی جدوجہد کے بعداور صدی کی سب سے بڑی ہجرت کے بعدیہ علاقے حاصل کیے توافغانستان کو ان علاقوں پر اپنا حق ملکیت یاد آگیا؟؟؟
پاکستان نے ان علاقوں پر سکھوں کی طرح زبردستی یا انگریزوں کے طرح چالاکی سے قبضہ نہیں کیا بلکہ بالکل ایک جمہوری انداز سے ان علاقوں کی عوام کی مرضی کے مطابق انہیں اپنے اندر شامل کیا ہے۔ 1947ء کو برطانوی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا جس کے مطابق 15اگست1947ء کو متحدہ ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو جانا تھا۔ اس قانون میں یہ شق بھی موجود تھی شمال مغربی سرحدی صوبے میں ریفرنڈم کے ذریعے عام عوام کی رائے معلوم کی جائے۔ چنانچہ 6جولائی کو اس تمام علاقے میں برطانوی حکومت کے تحت ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا۔نتائج کے مطابق 99.2%رائے دہندگان نے پاکستان میں شمولیت کے حق میں رائے دی اور0.98%رائے دہندگان نے اس سے اختلاف کیا۔ پس افغانستان کے حکمرانوں نے جس حکومت کا ڈیورنڈ لائن کا فیصلہ تسلیم کیا اسی حکومت کے تحت منعقد ہونے والے ریفرنڈم کا فیصلہ کیوں قبول نہیں ہے۔ پھر پٹھان سرداران وعمائدین کے جرگے نے بھی اس ریفرنڈم کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ اور یہ فیصلہ حکومت نے میز پر بیٹھ کر مزاکرات کے نتیجے میں کچھ لواور کچھ دو کے طورپر نہیں کیا بلکہ عوام کی فیصلہ کن اکثریت کے بل بوتے پر کیا ہے۔ اس کے بعد سے پاکستان کی ایک طویل تاریخ ہے جس میں اس علاقے کے لوگ پاکستان کے ساتھ دل و جان سے شریک ہیں، پاکستان کے تمام محکموں میں ان کی نمائندگی موجود ہے،عساکرپاکستان میں اس علاقے کے لوگوں کی قربابانیاں تاریخ نے سنہری حروف سے کنداں کی ہیں۔
افغانستان کی حکومت 14اگست1947سے پہلے اور اس کے بعد بھی متعدد مواقع پر اس ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد کے طورپر تسلیم کر چکی ہے،اور عملاَ گزشتہ ایک صدی سے زیادہ کا تعامل اس پر گواہ بھی ہے۔1905ء کا معاہدہ،1919ء کا معاہدہ اور1921ء کے معاہدوں پر افغان حکومتون کے دستخط اس ڈیورنڈ لائین کو مزید تقویت دینے کے لیے اور اسے ایک بین الاقوامی سرحدکی حیثیت دینے کے لیے کافی ہیں۔ اور اگر اس سے انکار بھی کرنا ہے تو امیرعبدالرحمن کے زمانے سے انکار کیا جائے، اور اگر اس سے بھی پہلے کی تاریخ میں جھانکا جائے تو سکھوں سے بزوربازواس علاقے کو چھین لیا جاتا۔ بھلا صدیوں کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سرحدی حقیقت کو جھٹلا دیا جائے جس میں خود افغانستان کے حکمرانوں کے دستخط موجود ہیں اور انگریزسرکار کی موجودگی تک ڈیورنڈ لائن کے اس پار سے ایک چوں تک کی آواز نہ سنی گئی۔ اگر افغانستان کو اپنی آزادانہ تجارت کے لیے بحیرہ عرب تک رسائی درکار تھی تویہ پہلے سوچنے کی بات تھی، ایک سوسال بعد سوچ کے نتیجے میں تاریخ کے فیصلوں پر وقت کی بہت زیادہ گرد بیٹھ چکی ہوتی ہے اور کسی جغرافیائی خطے میں صدیوں کے بعد فیصلے تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ڈیورنڈ لائین ایک حقیقت تھی اور ہے اور جب تک اللہ تعالی نے چاہا یہ ایک حقیقی سرحد رہے گی۔
افغانستان کے لیے بہترین راستہ وہی ہے جس کی راہنمائی قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریر میں کر دی تھی۔ افغانستان اپنے آپ کو ایک اسلامی ملک سمجھتے ہوئے امت مسلمہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط تر کرے۔ اپنے قومی مفادات پر امت اور ملت کے مفادات کو ترجیح دے۔ ایک مسلمان پڑوسی مملکت کی حیثیت کو مانتے ہوئے پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرے۔ بحیرہ عرب کے دروازے پاکستان کے راستے اگر سوشلسٹ چین کے لیے کھل سکتے ہیں تو مسلمان افغانستان کا اس پر اولین حق ہے۔ اس سے قبل بھی جب روس نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی پاکستان کی سرحدیں افغان بھائیوں کے لیے کھول دی گئی تھیں۔پاکستان کا ظرف بہت وسیع ہے لیکن پاکستانی قوم اس بات کو برداشت نہیں کرسکتی کہ افغانستان کی سرزمین کوپاکستان کے دشمن استعمال کریں اور سرزمین پاکستان پر اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کی نگرانی افغانستان سے بیٹھ کرکیا کریں۔ پاکستان اور افغانستان کو بہرحال یک میز پر بیٹھ کر آپس کے معاملات آپس میں ہی طے کرنا ہوں گے اورکسی بھی پیرونی عنصر کو آپس میں غلط فہمیاں پیدا کرنے سے باز رکھنا ہو گا۔ اوراب وقت آ چکا ہے اور اب آنے والی نسلیں اپنی قیادتوں کو مجبورکر دے گی کہ کہ دونوں اکٹھے ہوں گے، بیرونی عناصر اور ان کے بہی خواہوں اور غداران ملت کو باہر کاراستہ دکھائیں گے اور امت مسلمہ کویہاں سے نوید صبح نوضرور میسر آئے گی، انشاء اللہ تعالی۔