بوکھلاہٹ طاری ہو جائے تو ہر قدم الٹا پڑتا ہے۔ ہر کام غلط ہوتا ہے۔ ابھی تو یہی طے نہیں ہوا کہ ماڈل ٹائون میں چودہ لاشیں گرانے کا ذمہ دار کون ہے۔ اس سے زیادہ ضروری کام حکمرانوں کو یہ لگ رہا ہے کہ کینیڈا کی حکومت کے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کی غیر ملکی شہریت کا معاملہ اٹھائیں اور یہ تفتیش کریں کہ اس مذہبی لیڈر کے ٹیکس کے کیا واجبات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے ایک ایک پائی واجبات وصول کرنا تو آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے آپ نے پہلے طاہرالقادری کو چھوٹ کیوں دی؟ اور اس بات کا انتظار کیوں کیا کہ وہ لاہور پر چڑھائی کریں پھر آپ کی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری حرکت میں آئے؟ رہی غیر ملکی شہریت تو اگر آپ کی حکومت کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ آئینی مناصب پر غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد متمکن ہیں جن کے سامنے حساس دفاعی اداروں کے مکمل کوائف پیش کیے جاتے ہیں تو کسی اور پر اس حوالے سے کیا اعتراض کر سکتے ہیں!
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جو بھی حکومتِ وقت ہو گزشتہ حکومتوں سے سبق نہیں سیکھتی۔ ہر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کنٹینر اور پولیس اسے بچا لیں گے۔ کراچی میں کنٹینروں سے شہر کو سیل کر کے لاشیں گرائی گئیں تو جنرل پرویز مشرف نے اسے ’’عوامی طاقت‘‘ کا نام دیا۔ وہی زبان اب حکومتی عمائدین استعمال کر رہے ہیں۔ دو وزیروں کے بیانات پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ حضرات سیاسی گہرائی رکھتے ہیں؟ وزیراعظم کی صاحبزادی فرما رہی ہیں کہ احتجاج کرنے والوں نے پولیس اہلکار کو شہید کر ڈالا۔ حکومت اسلامی احکامات کے مطابق اس فتنے کو کچل ڈالے۔ اس پر ایں خانہ ہمہ آفتاب است کے علاوہ کیا کہا جائے۔ پولیس اہلکار کی شہادت یقینا افسوسناک ہے۔ اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن ماڈل ٹائون کے چودہ افراد کی شہادت کو تو اس سے بھی بڑا فتنہ قرار دیا جانا چاہیے۔ اُس فتنے کے بارے میں ’’اسلامی احکام‘‘ کیا ہیں؟ اور یہ جو پریس میں چرچا ہے کہ ذاتی دوستوں کو لانے کے لیے ٹیکس دینے والے عوام کے خرچ پر سرکاری ہیلی کاپٹر اڑائے جا رہے ہیں تو اس ضمن میں اسلامی احکام کیا کہتے ہیں‘ یہ بھی قوم کو بتا دیا جائے۔
اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان خانہ جنگی کی صورتِ حال ہے۔ اس صورتِ حال سے کوئی آئی جی اور کوئی کنٹینر نہیں نمٹ سکتا۔ اس سے وزیراعظم کی سیاسی حکمت عملی‘ دانش مندی اور احساسِ ذمہ داری نمٹ سکتا ہے۔ اس قسم کے بیانات کہ طاہرالقادری اور عمران خان کے درمیان آگ اگلنے کا مقابلہ ہے‘ پولیس اہلکاروں کو عوامی تشدد سے نہیں بچا سکتے۔ ایک طرف اگر زبانیں آگ اگل رہی ہیں تو دوسری طرف بھی گلاب نہیں اگلے جا رہے۔ شعلے پانی سے بجھتے ہیں۔ ہوا دینے مزید بھڑک رہے ہیں۔
اَلَیْس مِنْ کُمْ رَجُل الرشید؟ کیا کوئی تھنک ٹینک وزیراعظم کو بتانے والا نہیں کہ آخر عوامی غیظ و غضب کا سبب کیا ہے؟ اس بات کو ایک لمحے کے لیے بھول جایئے کہ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے معتقدین ہیں۔ جس کے بھی معتقد ہیں‘ عوام میں سے ہیں۔ کیا حکومتی صفوں میں کوئی تجزیہ کار نہیں جو اس جوشِ انتقام کا تجزیہ کرے جو عوام میں پایا جا رہا ہے۔ کہاں گئے وہ گیلپ سروے کرنے والے جو ہمیشہ بتاتے تھے کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے۔ سچے ہمدرد وہ ہوتے ہیں جو گلاس کے خالی حصے کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن اگر منزلِ مقصود یہ ہو کہ کیبنٹ بلاک میں ایک کمرہ‘ ایک نائب قاصد اور ایک گاڑی مل جائے تو پھر کمرِ زریں بچانے کے لیے وہی بات کہنا پڑتی ہے جو اقتدار کی سماعت کو خوش آئے۔ فری لانسنگ کا دعویٰ کرنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہنروری کا آغاز تو فری لانسنگ سے کرتے ہیں لیکن درمیان میں آ کر کیبنٹ بلاک کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ تو پھر ہنروری پر بھروسہ ہی نہ کرتے! مقابلے کا امتحان دے کر پکے پکے اہلکار بن جاتے اور نائب قاصد اور کمرے کا مستقل انتظام ہو جاتا!
ایک طرف عوام کو ناکوں چنے چبوائے جا رہے ہیں۔ اوپر سے ایسے اشتہارات‘ جو اسّی فیصد عوام کی سمجھ سے باہر ہیں۔ خدا کے بندو! پولیس اہلکار اور عوام پورے ملک میں ایک دوسرے کے گلے پکڑے ہوئے ہیں۔ سول وار کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے۔ بوڑھی عورتیں کنٹینروں کے نیچے سے رینگ رینگ کر فاصلے طے کر رہی ہیں اور تم یہ چھپوا رہے ہو کہ مارکیٹ کیپیٹل کتنا ہے‘ تجارتی خسارہ کتنا ہے اور جی ڈی پی کی شرح ترقی کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے یہی دانشور اگلی حکومت کے لیے ایسی ہی میڈیا مارکیٹنگ تیار کر رہے ہوں گے۔ اندازہ لگایئے‘ اقتدار کی ہوش مندی کا‘ عوام کے گھروں میں گھپ اندھیرا ہے‘ ہاتھوں سے پنکھے چلائے جا رہے ہیں۔ سی این جی اور پٹرول کے لیے میلوں لمبی قطاریں لگی ہیں۔ لوگ گاڑیوں سے باہر کھڑے ماتھوں سے پسینے کے دریا بہا رہے ہیں اور انہیں بتایا یہ جا رہا ہے کہ مارکیٹ کیپیٹل کتنا ہے اور جی ڈی پی کی شرح کیا ہے؟ ایسے باہوش اقتدار کو طاہرالقادری اور عمران خان جیسے دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے!
عوام اس وقت تین عذابوں سے گزر رہے ہیں۔ ارباب حکومت کو ان تین عذابوں کی خبر ہے نہ اندازہ‘ خبر ہو بھی تو درد کی شدت سے بے خبر ہیں۔ وزیراعظم اگر صرف تین اقدامات کر لیتے تو آج طاہرالقادری کے غبارے میں ہوا ہوتی نہ عمران خان کے اشارے پر لاکھوں لوگ پابہ رکاب ہوتے۔ اول‘ وہ حکم دیتے کہ وزیراعظم ہائوس‘ وزیراعظم آفس‘ منسٹر کالونی اور پورے ریڈ زون میں لوڈشیڈنگ اسی طرح ہوگی جس طرح باقی شہروں میں ہو رہی ہے۔ صوبوں کے لیے بھی ایسے ہی احکام ہوتے۔ دوم‘ ان کے وزرا بے شک قطار میں کھڑے ہو کر سی این جی نہ ڈلواتے لیکن وزیراعظم حکم دیتے کہ وزرا‘ قطاروں میں گھنٹوں کھڑے عوام کے پاس جائیں گے۔ ان کی تکلیف بانٹیں گے اور یہ احساس دلائیں گے کہ حکومت ان کے کرب سے آگاہ ہے۔ سوم‘ کم از کم وزرا تو بازار سے سودا سلف خود خریدتے! تب وہ کابینہ کے اجلاس میں بتا سکتے کہ آٹے دال کا بھائو کیا ہے اور بے بضاعت عوام پر کیا گزر رہی ہے۔ اسلامی احکام کا حوالہ دینے والی وزیراعظم کی ازحد قابلِ تعظیم صاحبزادی آخری مرتبہ کب بازار تشریف لے گئیں اور کیا انہیں معلوم ہے کہ چنے کی دال‘ ٹماٹر‘ مٹن اور چکن تو چھوڑ دیجیے‘ گائے کا گوشت کیا بھائو ہے؟ رمضان لوگوں نے کس طرح گزارا؟ اندھیرا اور خالی دسترخوان!! دوائیں رسائی سے باہر ہیں۔ دارالحکومت کے ہسپتال مذبح لگ رہے ہیں۔ ضلع اور تحصیل سطح کے ہسپتال کیسے ہوں گے!
یہ جن تین اقدامات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے‘ انہونے نہیں ہیں۔ نہ ہی ناقابلِ عمل۔ برطانیہ جیسے ملکوں کو تو چھوڑ دیجیے جہاں وزیراعظم ریل میں کھڑا ہو کر سفر کرتا ہے اور مسافروں میں سے کوئی اس کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ بھارت کو دیکھیے‘ مہنگائی کے خلاف جلوس نکلا تو اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی بیوی جلوس میں شامل تھی‘ اس لیے کہ وہ گھر کا سودا سلف خود خریدتی تھی۔ اسرائیل میں بجلی بند ہو تو وزیراعظم کا گھر اس سے مستثنیٰ نہیں ہوتا! اگر کل کو ریڈ زون میں کوئی دوسرا گروہ متمکن ہوتا ہے اور اپنے طرزِ زندگی کو اسی نہج پر رکھتا ہے جس پر موجودہ گروہ نے رکھا ہوا ہے تو کوئی اور طاہرالقادری‘ کوئی اور عمران خان عوام کو باہر نکال لائیں گے ؎
بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا
یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔