کافی پہلے مخدوم امین فہیم کی اہلیہ کیبارے میں خبر آئی تھی کہ ان کے اکاؤنٹ میں پانچ کروڑ روپے کسی نے ٹرانسفر کر دئیے جسکا انھیں علم نہیں تھا، اب شاید ویسی ہی کوئی دوسری خبر بھی گردش میں ہے (ٹی وی نہیں دیکھتا کچھ لوگوں کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے اندازہ لگا رہا ہو)۔ اور بہت سے لوگ اس کولیکر مزاق بنا رہے ہیں کہ ہمارے اکاؤنٹ میں بھی کوئی کروڑوں بھیج دے۔ بھائی مزاق اپنی جگہ اور کم علمی ،جہالت اور بغض اپنی جگہ، اگر تو آپ یہ بات محض مزاق برائے مزاح کر رہے ہیں تو درست ،لیکن اگر آپ مزاق کیساتھ طنز کر رہے ہیں تو یقین جانیں آپ بڑی غلطی پر ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے ایک گوری کی رکویسٹ آئی جس کے ساتھ کچھ مشترکہ دوست بھی ایڈ تھے۔ پروفائل چیک کیا اور وال پر پوسٹس دیکھیں تو وہ آئی فون اور کچھ دوسری اشیاء بیچ رہی تھی۔ یہ دو تین گُن دیکھ کر دس نمبر ظاہری دیکر دووستی کی درخواست قبول فرما لی کہ چلو میری فگریٹو پینٹنگز پاکستان میں تو بِکتی نہیں شاید اس کے ذریعے امریکہ میں ہی بک جائیں۔ فوراً ہوشیار بن کر اُسکو میسیج کر کےآفردی کہ اگر تم میری پینٹنگز بِکوا دو تو اس میں سے چالیس فیصد تمھارا۔ اور ساتھ ہی اپنی پینٹنگز کی تصویریں بھی بھیج دیں۔ چند گھنٹوں بعد اُسکامیسیج آیا کہ ہاں میرے پاس تمھاری پینٹنگز کے لیے ایک سنجیدہ خریدار ہے۔ وہ آرٹ کولیکٹر ہے اور امیر آدمی ہے ، وہ یہ اچھے پیسوں میں خرید لے گا۔ اس لڑکی نے اپنی اشیاء کی خریدو فروخت کے لیے اپنا واٹس ایپ نمبر بھی پروفائل پر دے رکھا تھا۔ میں نے مزید تسلی کے لیے اسے پوچھا ’’کیافون پر بات ہو سکتی ہے؟ تو اسنے جواب دیا کہ’’ بے فکر رہو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا وہ بھروسہ مند قابل اعتماد آدمی ہے، تمھاری اچھی ڈیل ہو جائے گی، (جبکہ جس سے میں بات کر رہا تھا وہ خود بھی کوئی پھپھو کی لڑکی نہیں تھی) تمھیں براہ راست اس خریدار کا نمبر دیتی ہوں جو تمھاری پینٹنگز میں انٹرسٹڈ ہے، تم بے فکر ہو کر اس سے بات کر لو‘‘۔ خیر میں نے اس بندے کو واٹس ایپ میسیج کیا تو اُسنے بتایا کہ ہاں مجھ سے اُسنے تمھاری پینٹنگز کی بات کی ہے۔ میں نے جھٹ سے پینٹنگز اُسکو دوبارہ واٹس ایپ کر دیں اور ساتھ ہی میسیج آیا کہ اپنا پورا سٹاک دے دو جو کچھ بھی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ بس یہی چار پانچ پینٹنگز ہیں ،تو جواب آیا کہ ’’کتنے میں بیچو گے؟میں نے تھوڑا چالاک بنتے لڑکی کا نام لکھ کر کہا،کیا اُس نے تمھیں قیمت نہیں بتائی؟ لڑکی کومیں نے ایک پینٹنگ کی قیمت تیس یا پینتیس ہزار روپے بتائی تھی۔ تو اُس کا جواب آیا کہ اس ہا ں اس نےتیس ہزاربولا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ رقم روپوں میں پانچ پینٹنگز کے لیے ناکافی تھی مگر اُسنے پھر بھی بڑی چالاکی سے پوچھا ’’تمھارا مطلب ہے تیس ہزار ڈالر؟ تیس ہزار ڈالرز کا سن کر پہلے تو میرا دماغ ہی چکرا کر رہ گیا مگر پھر سوچا گورے آرٹ لورز ہوتے ہیں اور پانچ پینٹنگز کے تیس ہزار ڈالرز ہو بھی سکتے ہیں کہ ماڈرن آرٹ کی پینٹنگز توملین ڈالرز میں بھی بک جاتی ہیں۔ مطلب فوراً اوقات سے باہر ،سیدھا پابلو پکاسو کا دادا بن کر اپنی پینٹنگز کی قیمت تیس ہزار ڈالر مان لی (پکاسو کی جو شاہکار پینٹنگ ایک مدت تک دنیا کی سب سے مہنگی پینٹنگ مانی جاتی رہی وہ پہلی بار محض چھ ہزار ڈالرز میں بکی تھی)۔ خیر بندے کو میسیج کیا کہ ہاں میں نے تو یہی رقم طے کر رکھی ہے اپنے ماسٹر پیسسز کی تو اس پر اسکا جواب آیا کہ ’’تیس تو نہیں دے سکتا البتہ اگر چھبیس ہزار میں ارادہ ہو تو بتانا‘‘ اور یہ سچ میں غریب کے بچے کو ہارٹ اٹیک کروانے والی خبر تھی۔ ایک لمحے کو سوچا اگلی تمام عمر اب تم نے سٹوڈیو سے باہر نہیں نکلنا۔ خود کلامی میں خود کو بُرا بھلا بھی کہا کہ ’’ تُو اتنا مہان مصور اور کہاں تُو چار ٹکے کی گرافک ڈیزائننگ اور آدھ ٹکے کی صحافت میں اُلجھا ہوا ہے‘‘چھبیس ہزار ڈالر کو رپوں میں کنورٹ کیا تو تیس لاکھ سے اوپر بن رہے تھے۔ پہلے سوچا سب سے پہلے ہنڈا سوک فلی لوڈڈ نکلوا لوں گا ۔مگر پھر یہ سوچ کر آئڈیا جھٹک دیا کہ نہیں ابھی گھر نہیں بنا سب سے پہلے اپنے دو میں سے ایک پلاٹ پر گھر شروع کراؤں گا۔ پھر اچانک لڑکی کا خیال آیا کہ کہیں اُسنے اپنا چالیس فیصد مانگ لیا تو پیسے تو بہت کم ہو جائیں گے۔ لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ کمینہ پن تجھے زیب نہیں دیتا اور جھوٹ تو نے زندگی میں بولا نہیں تو اگر اللہ نے اُسے وسیلہ بنایا ہے تو دل میں بد دیانتی مت لا۔،اُسے اُسکا پورا طے شدہ حصہ دینا اور جو بچیں ان سے بھلے گھر شروع کروانا یا گاڑی بدل لینا۔ خیر انہی سوچوں میں سارا دن گُزرا اور پھر اُسکو میسیج کیا کہ میں بادل نخواستہ چھبیس ہزار میں ہی اپنی پینٹنگز بیچنے کو تیار ہوں اور پوچھا کہ تم پیسے کیسے بھیجو گے؟ جواب میں اُسنے کہا کہ بڑی اماؤنٹ ہے، اپنے بینک اکاؤنٹ کی مکمل تفصیلات مہیا کرو، بس یہاں سے آ کر اپنی اصل ڈیمانڈ واپس یاد آ گئی اور کچھ سوچ کر اسکو جواب نہیں دیا۔ بڑا بھائی بینکر ہے اور ان دنوں وہ کزن کی بیٹی کی شادی اٹینڈ کرنے کینیڈا گیا ہوا تھا۔ بیگم سے مشورہ کیا تو پہلے ’’بولی دیکھ لو، پھر کہنے لگی تمھیں کیا تمھاری پینٹنگز کے وہ جو مرضی دام دے؟ لوگ کم دام پر پریشان ہوتے ہیں اور تم ہزار گنا زیادہ قیمت ملنے پر پریشان ہو؟‘‘ مگر آرٹسٹ کو مرے مدت بیت چکی اور صحافت ابھی جاری ہے تو اُسے کہا کہ بھلی لوگ آجکل دنیا میں منی لانڈرنگ کو بہت سیریس جرم تصور کیا جا رہا ہے اور اس میں تو پہلے مخدوم آمین فہیم اور پھر میاں صاحب جیسے طاقتور شخص کو بھی دھر لیا گیا اور میری تو اُنکے سامنے حیثیت ہی کوئی نہیں۔ مجھ بیچارے پر ایسا کیس بنا تو چودہ سال تو پکے اور اوپر سے یہ ڈر الگ کہ کہیں کسی دہشت گرد کالعدم تنظیم کے پیسے ٹرانسفر ہوئے تو وہ نکلوانے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ بیگم ڈر گئی اور ہم بڑے بھائی کا انتظار کرنے لگے۔ کوئی دو ہفتے بعد بھائی صاحب واپس آئے اور ان کو ماجرا سُنایا تو پہلے تو بولے دیکھ لو تم تو پینٹنگز بیچ ہی رہے ہو مگر پھر فوراً بولے آجکل بہت سختی ہے کہیں مصیبت میں نہ پڑ جانا، اپنا بینک اکاؤنٹ کبھی کسی سے شئیر نہ کرنا، کوئی بڑی ٹرانزیکشن ہو گئی تو برے پھنس جاؤ گے۔ یہ سن کر ایک طرف خوف اور دوسری طرف دُکھ سے خون خُشک ہونے لگا ’’ ماڑے نو ہر پاسے مار‘‘۔ کڑوا گھونٹ پی کر چُپ سادھ لی۔ بھائی اُٹھ کر جانے لگا تو پُوچھا ،اگر میں اس سے ویسٹرن یونین کے ذریعے رقم منگوا لوں تو؟ انھوں نے کہا کہ وہ دیکھ لو مگر پتہ نہیں اتنے پیسے آ بھی سکتے ہیں اسکے ذریعے کہ نہیں۔ میں نے حل نکالتے ہوئے کہا کہ میں اسے ایک ایک کر کے بیچ دوں گا۔ اس پر انھوں نے کہا کہ بات کر کے دیکھ لو۔
اگلے دن اسکو دوبارہ میسیج کیا اور پوچھا کہ کیا تم ابھی تک میری پینٹنگز میں انٹرسٹڈ ہو؟ چند گھنٹوں بعد "یپ" لکھا آ گیا۔ تھوڑی تسلی ہوئی کہ ڈیل ابھی تک ہری ہے اور سپنا ابھی ٹوٹا نہیں تو کلین بیچنے والے پٹھانوں کیطرح تیس بتیس لاکھ سے سیدھا تین لاکھ پرآگیا اور اُسے آفر دی کہ اگر وہ ویسٹرن یونین کے ذریعے خرید لے تو میں اسکو یہ تمام پینٹنگز لم سم تین لاکھ میں فروخت کرنے کو تیار ہوں۔ اپنی طرف سے حاتم طائی کی قبر کو لات مار کر قیمت گھٹائی کہ لوٹ سیل سمجھ کر گورا فوری راضی ہو جائے گا۔ مگر جواب نفی میں آیا اور کہا کہ ہم بینک اکاؤنٹ کے علاوہ صرف بِٹ کوائن میں ڈیل کرتے ہیں۔ علیم سے بٹ کوائن کے بارے بہت سن چکا تھا قصور زیادتی کیس کے دوران مگر سمجھ کبھی ککھ بھی نہیں آئی تھی۔ البتہ گورے یا کالے کی طرف سے ویسٹرن یونین مسترد کیے جانے پر اندر سے مایوسی کا لیول تقریباً مکمل ہو چکا تھا کہ یہ ڈیل نہیں ہونے کی اور یہ لوگ یقیناً کوئی دو نمبر لوگ ہیں۔ خیر جو موئی مُکی اُمید بچی تھی وہ لیکر علیم کو فون کیا اور ساری روداد سنائی۔ اور علیم جو قصور واقعہ پر بِٹ کوائن اور ڈارک ویب پر تجارت کے قصے سناتے نہیں تھکتا تھا چھوٹتے ہی بولا’’ شاہ جی بالکل نہ کرنا آجکل بٹ کوائن میں بھی بہت جعلسازی شروع ہو چکی ہے،ایویں نقصان کروا بیٹھو گے اپنا‘‘۔ علیم پر اس وقت مجھے پیار بھی بہت آیا اور غصہ بھی کہ پوچھوں کہ یہ بِٹ کوائن کی جعلسازی بھی میری باری پر ہی شروع ہونی تھی کیا؟ کہاں شاہد مسعود نے سینتیس اکاؤنٹ کھلوا دئیے اور کہاں تم لوگ ہم اولڈ جینریشن کو ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کو حقیقی دنیا بتاتے رہے اور اب خود ہی اُسے جھٹلا بھی دیا۔
تو خیر دوستو علیم اور بڑے بھائی نے جو بھی مشورہ دیا وہ میری دانست میں میری بہتری میں ہی دیا۔ باقی خریداروں کی کہانی میں جھول اتنا تھا کہ خود بھی محسوس کر رہا تھا تو تھوڑی اپنی ذہانت یا محتاط رویہ بھی کام آیا۔ مگر ایک بات جو میں یہاں اسکے بعد ہر کسی کے لیے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ’’اگر آپ لالچ نہ کریں تو دھوکے سے بچنے کے بہت امکانات ہوتے ہیں‘‘۔ باقی مجھے یقین ہے کہ کچھ نہ کچھ لوگ بینک اکاؤنٹ کی ڈیٹیل یا خالی نمبر دے کر پھنسے ضرور ہونگے۔ اس لیے اگر کوئی کہے کہ وہ نہیں جانتا کہ اسکے اکاؤنٹ میں پیسے کہاں سے آئے تو لازم نہیں کہ وہ جھوٹ ہی بول رہا ہو!
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...