وزیر باتدبیر نے درست کہا کہ اللہ نے نوازشریف کو عزت دی ہے۔
یہ عزت پاکستان کی بدولت ہے۔ جو بھی پاکستان کا حکمران ہوگا وہ اس حوالے سے ہمارے لیے قابل عزت ہوگا کہ ہمارے ملک کا حکمران ہے۔ بھارت کئی گنا بڑا ملک ہے مگر ہم اس کے حکمران کی اتنی تکریم نہیں کرتے ۔اپنے ملک کی عزت اور محبت ہمارے دلوں میں ہے۔ اسی رشتے سے اس کا وزیراعظم ہمارے لیے معزز ہے۔
یہ عزت جنرل پرویز مشرف کو بھی ملی۔ پھر قسامِ ازل نے یہ عزت آصف زرداری کو بخشی۔ بطور آصف زرداری ان کی جو بھی شہرت تھی، وہ الگ قصہ ہے۔ لیکن جب تک وہ پاکستان کے صدر تھے، ملک کے حوالے سے اہل وطن کی تکریم کے سزا وار تھے۔
یہ اور بات کہ عزت اللہ ، اس کے رسول ؐ اور مسلمانوں کے لیے ہے۔ عزت دینے والا بھی خدائے قدوس ہے اور نہ دینے والی یا دے کر واپس لے لینے والی ذات بھی وہی ہے۔
تو کیا عزت اقتدار سے عبارت ہے؟ یا عزت وہ ہے جو دلوں میں ہو اورفرشتے کسی کے لیے ، جس کے بارے میں حکم ہو، فضا میں عام کردیں؟
اگر کوئی حکمران یہ سمجھے کہ چونکہ وہ معزز ہے اس لیے حکمران ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ ہر آمر یہی سمجھتا ہے کہ وہ مامور من اللہ ہے اور معزز ہے۔ سفید فام اقوام غالب ہوئیں تو دعویٰ کیا کہ وحشیوں اور بدتہذیبوں کو مہذب کرنے کے لیے انہیں ’’مقرر‘‘ کیاگیا ہے اور یہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ فرعون نے معزز ہونے کے ساتھ خدائی کا دعویٰ بھی کردیا۔ ابو الفضل اور فیضی کی تصانیف پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ اتنا علم اور پھر اتنی پستی کہ بادشاہ کا ذکر یوں کرتے ہیں جیسے نعوذ باللہ دنیا اسی نے بنائی تھی! کیلنڈر تک بند کرکے طاق پر رکھ دیے گئے۔ مہینوں ، برسوں کا حساب تخت نشینی کے حوالے سے ہونے لگا کہ فلاں واقعہ اکبر کے بادشاہ بن جانے کے اتنے سال بعد ہوا اور فلاں کی موت ’’ جلوس‘‘ (یعنی تخت نشینی) کے اتنے ماہ بعد ہوئی۔ اس سے زیادہ ’’عزت‘‘ کیا ہو کہ جہاں پناہ کے حضور سجدہ ریزی بھی ہو او رتقویم بھی دست بستہ کھڑی ہو!!
لیکن کیا واقعی یہ عزت تھی؟ کیا ہم یہ کہیں کہ اللہ نے آمروں اور خدائی کے دعویداروں کو عزت دی؟ آخر معیار کیا ہوگا؟ ہمارے حکمرانوں کے مقابلے میں ، کرۂ ارض کے طاقت ور ترین ملک نے بھارتی حکمران کی زیادہ آئو بھگت کی۔ تو پھر کیا مودی کو زیادہ عزت بخشی گئی ہے ؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ حافظ شیراز نے کہا تھا ؎
مشکلِ خویش برِ پیر مغان بردم دوش
کو بتائیدِنظر، حلِ معما می کرد
کل میں اپنی مشکل پیرمغاں کے پاس لے گیا۔ اس لیے کہ وہ تائید نظر کے ساتھ مسئلہ حل کردیتا تھا۔
دیدمش خرم و خندان، قدحِ بادہ بدست
واندران آئنہ، صد گونہ تماشا می کرد
میں نے اسے ہاتھ میں شراب کا پیالہ پکڑے خوش اور ہنستا ہوا پایا۔ پیالہ کیا تھا، آئینہ تھا اور وہ اس میں سینکڑوں چیزیں دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔
گفتم این جام جہان بین بتو کی داد حکیم؟
گفت آن روز کہ این گنبد مینا می کرد
پوچھا،یہ جام، جس میں تو دنیا بھر کو دیکھ رہا ہے، تجھے کب عطا ہوا؟ کہنے لگا، یہ تو اسی روز مل گیا تھا جس روز یہ گنبد مینا(آسمان) بن رہا تھا!
حافظ شیراز نے تو اپنے پیرمغاں کا تذکرہ کیا۔ چھ دن پہلے پوری قوم نے اپنے پیرمغاں کا دن منایا۔ تقریریں ہوئیں، تقاریب کا انعقاد ہوا۔ پرنٹ میڈیا میں مضامین چھپے، ٹیلی ویژن چینلوں پر نظمیں اور غزلیں گائی گئیں؛ تاہم جو مجموعی رویہ ہمارے پیرمغاں کے ضمن میں ہے اس کا ذکر ضمیر جعفری (کہ ان کے بعد مزاحیہ شاعری نے ہم سے منہ موڑ لیا) سے بہتر کسی نے نہیں کیا ؎
بپا ہم سال میں اک مجلسِ اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں، وہ قوال کرتے ہیں
فیصل آباد میں 9نومبر کے دن تعلیم یافتہ اصحاب کے ایک بڑے اجتماع میں پوچھا۔ جاوید نامہ (اصل یا ترجمہ) کس کس نے پڑھا ہے؟ جواب نے،جو سچا تھا، اداس کردیا۔ یاس میں ڈوبی ہوئی اداسی !! تفصیل پھر کبھی !
پیرمغاں سے پوچھا عزت کا حدود اربعہ کیا ہے؟ جیسے خلافت ہی کی بات لے لیجیے، خلافت انہیں بھی ملی تھی جنہوں نے جاگیریں ہڑپ کرلیں اور اس عمر بن عبدالعزیز کو بھی ملی تھی جس نے جاگیریں واپس کردی تھیں۔ تو کیا دونوں معزز تھے ؟ پیرمغاں نے ہاتھ سے پکڑا اور اپنے پیر، پیر رومی کے پاس لے گیا۔ رومی نے ایک لمحے کے لیے توجہ دی۔ صرف ایک لمحے کے لیے… لیکن کیا لمحہ تھا! اس لمحے میں زمانے ہمارے قدموں میں بیٹھ گئے۔ جہانوں نے اپنے آپ کو سمیٹا اور سرنگوں ہوگئے۔ کیا ادائے استغنیٰ تھی جس کے ساتھ پیر رومی گویاہوا۔ بدنصیبی کہ گویا ہوتے وقت اس کی نظر ہم پر نہیں تھی۔ وہ تو خلا میں دیکھ رہا تھا، ان منظروں کو جو اسے دکھائی دے رہے تھے اور جنہیں دیکھنے سے ہم قاصر تھے۔ بخت نے یاوری کی ہوتی تو ایک ایسی نگاہ ہم پر بھی پڑجاتی جیسی شمس تبریز نے رومی پر ڈالی تھی ! ؎
یک زمانہ صحبتِ با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بی ریا
لیکن توقف کیجیے۔ ایک لحظہ توقف۔ اردگرد دیکھیے ! جو ’’ روحانیت‘‘ آج اہل وطن کے درپے ہے۔ اس اعتبار سے تو اقبال پیر مغاں ہے نہ رومی مرشد ! دکانداری نہ کتاب فروشی ! مجمع بازی نہ روحانیت اور فقیری کے نام پر استحصال۔ کسی کے ماضی کو برہنہ کرنا نہ کسی کے مستقبل میں جھانکنا !!
کیا ادائے استغنیٰ تھی جس کے ساتھ پیر رومی گویا ہوا ؎
بال بازان را سوئی سلطان برد
بال زاغان را بگورستان برد
پھر ایک دھند چھاگئی۔ چھٹی تو پیر رومی غائب تھا۔ ہاں ایک خوشبو تھی جو چاروں طرف رقص کررہی تھی۔
عقاب ہو یا کوا، بال وپر تو وہی ہوتے ہیں۔ دونوں کے پاس ایک سے بال وپر! یہ اور بات کہ وہی بال وپر کوے کوقبرستان لے آتے ہیں! وہی خلافت جو ایک کو نیک نامی کی قبا قیامت تک پہنا دیتی ہے، وہی دوسرے کو ذم اور نفرت کے انبار تلے دفن کردیتی ہے۔ حکمرانی تو وہی ہے جو محمد علی جناح کے پاس تھی لیکن محمد علی جناح نے بیت المال کی ایک ایک پائی کو قوم کی امانت سمجھا۔ بستر مرگ سے بھی پسند کے باورچی کو واپس بھجوا دیا۔ جورابیں مہنگی لگیں تو لوٹا دیں۔ کابینہ کی میٹنگ میں چائے رکھنے کی اجازت نہ دی۔ وہی حکمرانی نوازشریف اور آصف علی زرداری کو ملی، جنہوں نے اندرون ملک اور دساور میں جائیدادیں، پائونڈ اور ڈالر جمع کرنے کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے !
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
اشکال یہاں یہ ہے کہ فن خوشامد میں یکتائی حاصل کرنے والے شہرت کو بھی عزت سمجھ لیتے ہیں!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“