(Last Updated On: )
سرسیداحمد خاں کا دو صد سالہ جشن پیدائش عالمی سطح پر نہایت ذی شان، پُروقار نیز منظم طریقے سے منعقد ہوا۔ ان تقریبات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے یہ محفلیں دنوں نہیں ہفتوں پر محیط رہی ہیں۔ سید والا گُہر سے وابستہ بز م آرائی علی گڑھ سے لے کر دہلی، بمبئی، لکھنؤ، حیدرآباد، اور لندن وبرلن سے لے کر نیویارک واشنگٹن اور دبئی سے لے کر جدہ اور ریاض تک اور کراچی سے لے کر لاہور واسلام آباد تک دنیا کے بیشتر ممالک کے بیشتر شہروں میں سجیں۔ اِس جشن کو ایک تعلیمی اور قومی نہیں بلکہ عالمی تیوہار کی طرح مختلف اداروں، مکتبہ ہائے فکر اور زبانوں کے بولنے والوں نے جوش وخروش کے ساتھ منایا جس کی مثالیں آرٹس، پینٹنگ، ڈبیٹ، مضمون نگاری، شعری نشستیں، بیت بازیاں، سمینارز، کانفرنسیز، کتابوں کی نقاب کشائی ،نمائش اور خصوصی ڈاک ٹکٹ کے اجراء کی شکل میں نظر آئی۔ امر خوش آئند یہ کہ اِس سیّدی جشنِ بہاراں کا سلسلہ اگلے سال (۲۰۲۰ء) یونیورسٹی کے قیام کے سو سالہ جشن سے منسلک ہوجائے گا۔ قابل ذکر ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سرسید کی تہذیبی و فکری عطا اور علمی ومعاشرتی خدمات کو مختلف اداروں اور مختلف بستیوں نے اپنے اپنے منفردانداز میں پیش کیا۔ اس کے ساتھ فکر انگیز مکالمے ، تمحیص اوربحث ومباحثہ کے نئے دروازے وا ہوئے۔ یعنی معاملہ صرف مدح سرائی وقصیدہ گوئی تک محدود نہیں رہا۔ یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ اِس مرتبہ سرسید کی خدمات کا احاطہ بڑے ہی معروضی انداز میں کیا گیا، اُن پر جائز مگرباادب تنقید بھی ہوئی اور اُن کی مذہبی نیز سیاسی فکر کو بھی زیر بحث لایاگیا۔ جس کی مثال کئی بڑے سمینار ہیں۔ فطری امر ہے کہ جب مختلف حلقوں میں جلسے ہوئے تو کچھ سوالات بھی قائم ہوئے، کچھ نئے نکتے بھی اُٹھائے گئے۔ اگرچہ اِس بیچ دروغ گوئی اور مہمل کلامی کے نمونے بھی سامنے آئے اور کچھ فرضی وقیاسی معروضات کو حقیقت بناکر پیش کرنے کی بھی کوشش کی گئی حالاںکہ تاریخ گواہ ہے کہ اِس طرح کی کوششیں ہر کامیاب اور موثر عملی شخص کے ساتھ ہوئی ہیں۔بھلے ہی دلائل حقائق سے سروکار نہ رکھتے ہوں مگر تہمت لگانے سے زمانہ کب باز آیا ہے۔ اب جشن زریں اپنے بالکل آخری مراحل میں ہے۔ آمدکا مطلع کچھ کچھ صاف ہورہا ہے اور سیدی فکر آئینہ بن کر بین الاقوامی اُفق پر جلوہ نما ہوچکی ہے تو سوال کُنندگان کے اعتراضات کا جواب بھی مکمل شرح صدر کے ساتھ ، علمی حلقوں میں زیر گفتگو ہے۔ معترضین کی صفیں ایک عجیب کشمکش کی شکار ہیں۔ اعتراض برائے اعتراض ہمیشہ سے نکتہ چینوں کا مشغلہ رہا ہے لیکن کسی نکتے کو بے بنیاد طول دینا ، اپنے طور پر اسے ثابت کرنے کا ناکام جتن کرنا اور پھر خود ساختہ رائے کو دوسروں پر زبردستی تھوپنا غیراخلاقی عمل ہی نہیں، بلکہ تاریخ سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج ہمارا میڈیا اور خصوصاً الیکٹرانک میڈیا ایک بے سرپیر کی فوج اور ایک شتر بے مہار ہے۔ بازاریت اتنی حاوی ہوچکی ہے کہ اب لوگوں کو بھی مرچ ومصالحہ دار چیزیں ہی زیادہ پسند آتی ہیں اور ہمارے میڈیا باز رائی کو پربت بنانے کی کوشش میں کبھی کبھی ہیرو کو ولین اور ولین کو ہیرو کی شکل میں پیش کرنے کی بساط بھر کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اِس جدوجہد میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو ایک تصوراتی عمارت کا پورا ڈھانچہ ریت پر کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اِس فہرست میں ادیب، صحافی، دانشور اور سماجی کارکن سبھی شامل ہیں جواکثر وبیشتر اعتراض برائے اعتراض ہی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہندی کے ایک مشہور ومعروف اخبار تھا کہ ’’انگریزوں کا وِشواس جیت کر سرسید ۱۸۶۷ء میں ایک عدالت کے جج بنے‘‘۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خالصتاً اُن کی لیاقت اور قابلیت کی بنا پر اُن کی عدالت خفیفہ (Small Cause Court) کے جج کے منصب پر ترقی دی گئی تھی۔ سرسید کی ملازمتی ترقیات بتدریج تھی، اور اُن کی اہلیت وتدبیر کے علاوہ اُن کی محنت شاقہ پر منحصر تھی۔ تاریخ ان تمام امور کی شاہد ہے۔ حقائق سے چشم پوشی کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ ’’اپریل ۱۸۶۹ء میں سید احمد خاں اپنے بیٹے کے ساتھ انگلینڈ گئے جہاں ۶؍اگست کو اُنھیں ’آرڈر آف دا اسٹار آف انڈیا‘ سے سمّانت کیا گیا‘‘۔ یہاں بھی پیش کش کے انداز سے موصوف کی شخصیت کو خوشامد پسندبناکر پیش کرنے کی کوشش ظاہر ہے۔ درحقیقت ہندوستانیوں کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ ملک کے ایک فرزند جلیل کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں یہ ذکر لطفِ سے خالی نہ ہوگا کہ سرسید نے خود ’’خوشامد‘‘ کے عنوان سے انشائیہ رقم کیا ہے جس میں بڑے خلاقیت کے ساتھ خوشامد اور خوشامدیوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیاہے۔ ۱؎ اصل منظرنامہ یہ تھا کہ سرسید نے لارڈلارنس سے ہندوستانی طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے سلسلہ میں وظائف مقرر کرنے کی درخواست کی تھی۔ جو منظور ہوئی تھی اور اس کے تحت یکم اپریل ۱۸۶۹ء کو حکومتِ ہند کی جانب سے مختص ایک وظیفہ پر سید محمود اعلیٰ تعلیم کی غرض سے انگلستان جارہے تھے۔ سرسید اُن کے ساتھ اِس وجہ سے جانے کے لیے تیار ہوگئے تھے کہ وہ نہ صرف اپنے بیٹے سید محمود کی تعلیم اور رہائش وغیرہ کا بندوبست کرنا چاہتے تھے، بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وہاں کے نظامِ تعلیم سے بھی و اقفیت حاصل کرنا چاہتے تھے جس میں سید محمود معاون ہوسکتے تھے۔۲؎ سرسید کے تعلیمی مشن اور اصلاحی بیداری کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے اُنھیں ۶؍اگست ۱۸۶۹ء کو سی۔ایس۔آئی کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ انڈیا آفس میں منعقد ایک تقریب میں وزیر ہند ڈیوک آرگائل نے جو سائنٹفک سوسائٹی کے سرپرست بھی تھے، انھوں نے سرسید احمد خاں کو ’نجم الہند‘ کا تمغہ پہنا کر عزت افزائی کی تھی۔بلکہ علمیت ، لیاقت اور ذہانت کا صلہ تھا۔ اس کے بعد ۱۸۸۷ء میں لارڈ ڈفرن نے اگر اُنھیں سول سروس کمیشن کا ممبر مقرر کیا تو صرف اس لیے کہ وہ اس کے مستحق تھے، اور بعد ازاں سرسید نے کئی مفید تجاویز پیش کرکے اپنی اعلیٰ سطحی لیاقت کا ثبوت بھی فراہم کیا۔ لہٰذا یہ انگریز حکومت کی نوازش یا کرم فرمائی نہیںتھی بلکہ علمیت، لیاقت اور ذہانت کا صلہ تھا۔ اسی طرح مئی ۱۸۸۸ء میں انھیں سی۔ایس۔آئی کے خطاب سے نوازتے ہوئے سند اور تمغہ پیش کیا گیا اور سرکا سابقہ اُن کے نام کا جُز بن گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تہنیتی رسم آج بھی برقرار ہے ، اورحکومتِ ہند اپنے لائق فائق شہریوں کو کچھ اِسی انداز میں اعزازات سے سرفراز کرتی ہے اور کم وبیش نائٹ کے خطاب کے انداز میںپدم ایوارڈ عطا کیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب ’’پیٹریاٹک ایسوسی ایشن‘‘ کے قیام کا مقصد ہندوستانیوں کے خیالات ونظریات سے حکومتِ برطانیہ کو باخبر رکھنا تھا جس میں ان گنت غیر مسلم بھی شامل تھے۔ اِس تنظیم کی کارکردگی کی تعریف وتحسین محض رفقائے سرسید ہی نے نہیں بلکہ منشی نولکشور نے بھی کی تھی۔ اگر ہم حال کے منظر نامہ کو دیکھیں تو ابھی گزشتہ اکتوبر میں امریکہ، افریقہ، ایشیا کے ان گنت اداروں میں منعقد ہونے والے سمینار اور جلسوں نے ثابت کردیا ہے کہ سرسید کی مثبت سوچ، تعلیمی مشن اور وژن کے قائل سبھی ہیں۔ ہر مکتبہ فکر کے اکابرمصلحین نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ سرسید عظیم مفکر اور جدید تعلیم، نیز سائنسی تعلیم کے مبلغ اور ایک تعلیمی انقلاب کے بانی تھے۔ خود ہمارے ملک میں جشنِ سرسید کے موقع پر دانش وروں، ادیبوں، فن کاروں ، سرکاری نمائندوں اوراکابرین ملک وملت نے جو پیغامات دیئے ہیں اُن سے تنگ نظروں کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ دوصد سالہ یومِ پیدائش سرسید کے موقع پر سابق صدر جمہوریہ ہند عزت مآب پرنب مکھرجی نے اپنی تقریر میں بانئ درس گاہ کی روشن خیالی کا اِحاطہ کرتے ہوئے ان کے حب الوطنی اور یکجہتی کے جذبے کو واضح کیا۔ اس کے علاوہ مشہور تاریخ داں پروفیسر عرفان حبیب نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ ’سرسید جدید تصورات اور زندہ اقدار کے حامی تھے۔ اُن کی روشن فکر کو آج پھر سے زندہ کرنے اور عمل میں لانے کی شدید ضرورت ہے‘۔ ابھی حال ہی میں برلن (جرمنی) سے تشریف لائے بُزرگ ادیب عارف نقوی نے شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکر تمام سرحدوں کو توڑتی ہوئی سرسید کی مقبولیت اور عظمت کا اعتراف کیا، اور اُن کے اصلاحی اور تعلیمی مشن کو اور آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رتن لعل ہانگلو نے ایک پُروقار تقریب کے موقع پر حقائق کی روشنی میں کہا کہ ’’سرسید اِس ملک کی روح ہیں، ہمیں انھیں باریکی سے سمجھنا ہوگا‘‘ تبھی ہم اُن کا اصل مقصد اور مشن سمجھ پائیں گے، اور تبھی تمام درپیش مسائل سے نجات حاصل کرسکیں گے‘‘۔مؤرخ ومفکر پروفیسر آدتیہ مکھرجی نے اپنے خطاب میں تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کو موضوع بناتے ہوئے نوآبادیاتی نظام کو موردِ الزام ٹھہرایا جس نے گنگا جمنی تہذیب کو نقصان پہنچاتے ہوئے تقسیم کا بیج بویا اور مذہبی ولسانی بنیادوں پر نفرت وتعصب کو ہوادی۔ انھوں نے فرمایا کہ ’’انگریزوں کے لیے ہندوستان اس اعتبار سے منفرد ملک تھا کہ یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار اور مختلف زبانیں بولنے والے ایک ساتھ خوشی خوشی رہتے تھے بلکہ ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں خلوص دل سے شریک ہوتے تھے۔ یہ تصور اُن کے لیے حیرت واستعجاب میں مبتلا کرنے والا تھا جسے مجروح کرنے کے لیے انھوں نے امکانی جتن کیے‘‘۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ ’’انگریزوں نے انیسویں صدی میں ایسی پالیساں اپنائیں جس میں فردوسماج کی شناخت میں مذہب اور زبان کو بنیادی درجہ حاصل تھا۔ انھوں نے اِس جانب بھی اشارہ کیا کہ اردو، ہندی کا تنازعہ ہو یا بنگالی، ہندی کا یہ سب انگریزوں کے ذریعہ شروع کیا گیاجس نے رفتہ رفتہ خطرناک شکل اختیار کرلی۔ جب کہ سرسید نے امن وانسانیت اور محبت ومساوات کی آواز بلند کی کیوں کہ اُن کے اندر فرقہ پرستی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ سید والا گُہرنے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کی اور تازندگی اس پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ سرسید کی فکری وراثت پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسرمکھرجی نے کہا کہ سرسید نے اندھی تقلید، غیر عقلیت اور توہم پرستی کی شدید مخالفت کی، نیز جدید سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کو اپنانے پر زور دیا۔ انھوں نے سرسید کی دُور رسی اور مفاہمت کی پالیسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عصر حاضر کے منظر نامہ سے متاثر ہوکر سرسید نے درمیانی راستہ نکالتے ہوئے سبھی کی ترقی وخوشحالی کے لیے جدید سائنسی علوم کو ناگزیر قرار دیا اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے پر زور دیا۔ پروفیسر آدتیہ مکھرجی نے خاص قسم کے مؤرخین، جنھوں نے سرسید پر الزامات لگائے ہیں، اُنھیں حقائق و دلائل سے ردّ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ سرسید نے ہمیشہ غیر مسلموں کو ساتھ لے کر عملی اقدامات کیے کیوں کہ وہ اتحاد و اتفاق کے علم بردار تھے‘‘۔۳؎
مذکورہ بالا نکات کو سامنے رکھیں توسرسید کو ملنے والے اعزازات وخطابات سے کوئی اور معنی نکالے جائیں، اسے صرف سعی مہمل ہی کہا جاسکتا ہے۔ دادابھائی نوروجی، راجہ جے کشن داس، سُریندرناتھ بنرجی، شیوبرت لال ورمن، لالہ لاجپت رائے، مہاراجہ بھوپیندر سنگھ، راجہ ایشوری پرساد، جیسے بے شمار ذی علم، فرزندانِ ملک، سرسید کے کارہائے نمایاں کے معترف ہیں۔ ایسے میں معترضین کی نکتہ چینیوں کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ یقینا ایسی بے معنی باتوں سے موجودہ پُرامن ماحول کو پراگندہ اور زہر آلود بنایا جاسکتا ہے جو اسکولی بچوں کے کمسن ذہنوں میں تنفر وانتشار کا زہر گھول سکتی ہیں اور بالغ ذہنوں کو بھی ورغلا سکتی ہیں، ایسی فکر سرسید کے مشن کے قطعاً خلاف ہے۔آج کے اِس تناؤ بھرے ماحول میں ہم سب کو اِس منفی سوچ کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے۔ دُور بیٹھ کر تیرونشتر کے بجائے حقائق کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔بقول حالیؔ
کبھی آکر یہاں دیکھا بھی ہے اے نکتہ چیں یارو
بُرا کہنا گھر میں بیٹھ کر اچھا نہیں یارو
٭٭٭
حواشی
۱؎ اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی آپ خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہرچیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کرکر اپنے دل کو خوش کرتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے۔ پھر یہی محبت ہم سے باغی ہوجاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جاملتی ہے اور جو محبت ومہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے تھے وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا سمجھتے ہیں اور ان کی اس قدر قدر کرتے ہیں جب کہ ہمارا دل ایسا نرم ہوجاتا ہے اور اس قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آجاتا ہے تو ہماری عقل خوشامدیوں کے مکروفریب سے اندھی ہوجاتی ہے اور وہ مکر و فریب ہماری بیمار طبیعت پر بالکل غالب آجاتاہے۔(از تہذیب الاخلاق، بابت یکم ذی الحجہ، ۱۲۸۹ھ)
۲؎ سرسید معاملہ فہم،دور رس اور دوربین انسان تھے۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے سید محمود کی ذہانت، لیاقت اور قابلیت سے واقف تھے۔ اِسی لیے اُنھیں اپنے ساتھ رکھتے۔ سید محمود بچپن سے اردو اور عربی میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد میں انگریزی میں مہارت حاصل کی۔ انھوں نے تعلیم اور قانون کے علاوہ بعض فقہی کتابوں کے ترجمے کیے۔ بائیس برس کی عمر (۱۸۷۳ء) میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک جامع اور وسیع منصوبہ تیار کیا۔انتیس برس میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج ہوئے۔ اور بیالیس سال کی عمر میں ہندوستان گیر پیمانے پر مغربی تعلیم کے نفاد کا مکمل جائزہ مع اعداد وشمار کے تیار کیا۔
۳؎ سرسید نے جب بھی اور جہاں بھی کوئی ادبی، اصلاحی یا تعلیمی کمیٹی بنائی اُس میں بغیر کسی تخصیص وتمیز کے سبھی کو شامل کیا۔ اُن سے چندہ لیا، عہدے دیے، مشوروں پر عمل کیا۔ اداروں میں شروع سے انگریزی، عربی اور فارسی کے ساتھ سنسکرت کو شامل رکھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایم۔اے۔او۔ کالج کے پہلے ہیڈ ماسٹر ایک انگریز (H.G.I. Siddon) ، پہلے وزیٹر ایک سکھ دانش ور مہاراجہ مہندر سنگھ (پٹیالہ) اور پہلے گریجویٹ ایک ہندو طالب علم بابو ایشوری پرساد (۱۸۸۱ء) تھے۔ اورجب ایم۔اے۔او۔ کالج یونیورسٹی میں تبدیل (۱۹۲۰ء) ہوا تو اُس کی چانسلر ایک ماہرتعلیم خاتون نواب سلطان جہاں بیگم منتخب ہوئیں۔
٭٭٭