پیغام آفاقی — پیغام آج ہمارے درمیان نہیں ہیں ، لیکن جب جب مداخلت اور ادب پر گفتگو ہوگی ،، احتجاج کی صدا گونج پیدا کرے گے ، ہم پیغام کو یاد کرتے رہیں گے . وہ ہم سب کے دوست تھے اور یہ خیال بھی غلط نہیں کہ وہ بہت جلد ہم لوگوں کو چھوڑ کر چلے گئے . اس نیی دنیا میں ، جو ان کے جانے کے بعد شروع ہوئی ، ہم نے آفتاب کو سوا نیزے پر دیکھا ، انسانیت کو پہلے سے زیادہ شرمسار ہوتے ہوئے اور لہو لہو دیکھا ، پھر ہم اس عذاب کی زد میں آ گئے جہاں زندگی نے سیاہ راتوں کا خوفناک سایہ ہم پر مسلط کر دیا ، میرا ذاتی خیال ہے ، اس پر آشوب موسم میں پیغام خاموش نہیں رہتے . وہ چیختے ، ہنگامہ کرتے ، دوسروں کو بیدار کرتے ، دوستوں سے لڑتے جھگڑتے اور اپنی باتوں کو سلیقے سے پیش کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتے . ہم کتنے ہی سیمیناروں میں ساتھ رہے . جھگڑے بھی ہوئے مگر دوستی قائم رہی . پیغام بڑے آی پی ایس افسر تھے مگر غرور نہیں تھا . علیگڑھ کی ادبی فضا میں غضنفر ، طارق چھتاری جیسے دوست ملے تو پیغام کے اندر کا فنکار بھی جاگ گیا .کہانیاں لکھیں . نظمیں لکھیں . اور پہلے ناول مکان سے ہی موضوع گفتگو بن گئے . اچھی بات یہ تھی کہ عینی آپا پر سمٹ کر رہ گیی گفتگو نے، نیے ناولوں میں ابھرتے تیور کے ساتھ رنگ تبدیل کیا ورنہ حقیقت یہ تھی کہ ناول اور فکشن پر گفتگو کبھی عینی آپا سے آگے نہیں بڑھتی .مکان کو مقبولیت ملی اور پیغام ادب میں سر گرم ہو گئے . سیمیناروں میں خوب بولتے تھے . فیس بک پر آئے تو یہاں بھی پرچم لہرا دیا . موجودہ لہو لہو فضا میں ہم سے جینے کا حق چھین لیا گیا — اکیسویں صدی کی طرف چھلانگ لگاتی دنیا میں ہندوستان بھی ایک ملک ہے، جہاں مذہب کے نام پر اقلیتوں کا خون بہا . قتل عام، ناانصافی کی اس فضا میں کچھ چہرے ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔میں نے وحشت اور دہشت کے ان مقامات پر بھی پیغام کو بولتے ہوئے سنا ہے .وہ بہت اچھے مقرر نہیں تھے مگر دلائل اور مضبوطی کے ساتھ اپنی بات رکھتے تھے . مکان کے پیچھے بھی ایک مکان کا درد تھا اور یہ مکان تھا ، ہندوستان . پھر انہوں نے ایک دوسرا ناول لکھا ، پلیتہ . پلیتہ کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی . مگر مجھے پلیتہ مکان سے آگے کا سفر نظر آتا ہے .
چھ سو صفحات پر مشتمل پیغام آفاقی کے ناول پلیتہ میں آپ نئی صدی کی بازگشت کو بہ آسانی محسوس کرسکتے ہیں۔
”اچانک اسے محسوس ہوا جیسے وہ بلند آواز میں چلاتے ہوئے بے خبر سوئی ہوئی پوری دنیا کو خالد کی قبر دکھائے۔ وہ اس وقت جو کچھ محسوس کررہاتھا وہ اسی طرح کاعرفان تھا جو عظیم فلسفیوں اور پیغمبروں کو صدیوں میں کبھی کبھی ہوتا ہے۔ ایسا عرفان جو انہیں اپنی شدت اورمتانت سے چیخنے ،چلانے اور لوگوں کو بیدار کرنے کیلئے جھنجھوڑنے پر مجبور کردیتا ہے۔
اپنے پیچھے بے شمار صدیوں کو چھوڑتی ہوئی ،دنیا ابھی ابھی اکیسویں صدی میں داخل ہوئی تھی— اوراس کو آگے کا سفر طے کرتے ہوئے مزید صدیوں سے گزرنا تھا۔ اس کے لیے اسے ہرقدم پر بہترین راستے کا انتخاب کرتے جانا تھا۔ جیلانی نے محسوس کیا کہ اس سلسلے میں اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے ایک پیغام ہے۔ “
چھ سو صفحات پر پھیلی یہ دنیا جو سزائے کالا پانی کے پس منظر سے جب آج کی دنیا کا تعاقب کرتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کہیں کچھ بھی بدلانہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے گلوبل گاﺅں میں داخل ہونے کے باوجود یہ دنیا شر، فساد اور جنگوں کی بھوکی دنیا اب تک بنی ہوئی ہے۔ نظام وہی ہے۔ انصاف کی عمارت وہی — شاید اسی لیے پیغام آفاقی نے بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ اس ناول کو بارودی سرنگوں کے نام منسوب کیا ہے— پلیتہ کی کہانی نو جوان خالد سہیل کی پراسرار موت سے شروع ہوتی ہے۔ مو ت کے بعد خالد سہیل کی کچھ تحریریں اس کے کمرے سے پائی گئیں اور یہ خیال کیاجارہا تھا کہ ان تحریروں میں کچھ ایسی باتیں ضرور ہوںگی— جس کی وجہ سے نئی کتاب، کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔ غور کیا جائے تو خالد سہیل کا کردارمحسن حامد کے شہرہ آفاق ناول The Reluctant Fudamentalist کے کردار چنگیز سے بالکل الگ نہیں ہے—چنگیز جسے امریکہ جیسے ملک میں اپنے لیے ایک بڑی کمپنی کی کرسی تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چنگیز جسے اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ جو داڑھی رکھتاتھا— لیکن ۱۱۹ کے حادثے کے بعد اس کی شخصیت نہ صرف آفس والوں کی نظر میں مشکوک ہوگئی بلکہ اسے نوکری سے بے دخل بھی ہونا پرا۔ مذہب، دہشت گردی اوربنیادپرستی سے پیداشدہ سوالوں میں ہمیں امریکہ کا ایسامسخ شدہ چہرہ دکھائی دیتا ہے جہاںخوف ہے، ڈپریشن ہے— اوراسی لیے امریکہ ہر بار چنگیز جیسے ذہین نوجوانوں سے خطرہ محسوس کرتا ہے— پلیتہ میںخالد سہیل کی شکل میں یہی سلگتی ہوئی آگ ہمیں قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے۔
’اس دنیا سے حکمرانوں کا اقتدار ختم ہونا چاہئے۔‘
..
’میں اپنا یہ دعویٰ پیش کرنا چاہتاہوں کہ میری مرضی کے خلاف میرے اوپر کوئی حکومت تھوپی نہیں جاسکتی۔
…
اس دنیا کو ایسے فلائی اوورس کی ضرورت ہے جس سے ہوکر ہم دنیا کو باٹنے والی لال بتیوں کے اوپر سے گزر جائیں۔
سول سوسائٹی کے لوگوں کی ایک نئی صبح نمودار ہورہی ہے— اورخالد سہیل اس صبح کی علامت بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ خالد کی موت کے بعد تفتیش شروع ہوتی ہے۔ اورناول نگار اس تفتیش کے بہانے ہمیں انڈمان کے جزیرے اور کالاپانی کی سیر کراتا ہے۔ اور یہ اندھیریگ ماضی سے حال کی بوسیدہ زمین تک ہمیں اس طرح نگل جاتا ہے کہ جدید جمہوری نظام کا مکروہ چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ برٹش حکومت اورجزائر انڈمان کی خوفناک تنہائیوں میں سزا پانے والے مجرم— ایک سفر شروع ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے کل اورآج کی جدید جمہوریت کے خدوخال ابھرتے ہیں اورخالد سہیل کی موت کی ایسی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
مکان کی اشاعت کے ۰۲۔۸۱ برس بعد پلیتہ کاشائع ہونا میرے نزدیک کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ پیغام آفاقی نے نہ صرف اسلوب پرمحنت کی ہے بلکہ ماضی اورحال کے تصادم سے ایک نئی بستی یا ایک نئی دنیا آباد کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اوراس دنیا میں ہر وہ مسئلہ ناول کا حصہ بنتا ہے جو ہمارے آج کے عہد سے وابستہ ہے۔ فیمننزم، مارکیٹ اکانومی، گلوبلائزیشن، کرپشن، انسانی ولسانی حقوق، کارپوریٹ کلچر، ورلڈ واریا ورلڈ وار کی طرف بڑھتے قدم، پولرائزیشن، اوران کے مابین حیات انسانی کے فلسفوں کی تلاش نہ صرف اس ناول کے مطالعہ کے لیے مجبور کرتی ہے بلکہ بنیادی مغالطوں سے بھی ہمیں باہر کا راستہ دکھاتی ہے کہ اردو ناول میں بڑے موضوعات شامل نہیں کیے جارہے ہیں۔ پیغام نے آج کے عہد کی بدنظمی، لاقانونیت، بد امنی اور دیوالیہ پن کی جو تصویر ہمارے سامنے رکھی ہے، وہیں سے ایک نئے معاشرتی وسیاسی نظام کا چہرہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اورشاید اس لیے کہ سچا ادیب امیدو یقین کے سورج پر نگاہیں مرکوز رکھتا ہے اور وہ اپنی تحریروں سے اس تاریکی کو بدلنے کا ہنر جانتا ہے۔
”جیلانی نے اپنا اکاﺅنٹ کھولا تو ہزاروں چھوٹے چھوٹے میسج آئے پڑے تھے جو اس سے اگلے بلاگ کا تقاضہ کررہے تھے لیکن ادھر جیلانی نے لیپ ٹاپ کھولاہی تھا اپنا نیا بلاگ بھیجنے کے لیے کیونکہ اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے ایک بامعنی خبر تھی۔
اس نے بلاگ لکھا اور پبلش کا وہ بٹن دبادیا جس کے دبتے ہی اس کے قارئین کے موبائل فونوں تک بلاگ کے پبلش ہونے کا میسج پہنچ جاتا تھا۔
بلاگ کا عنوان وہی تھا جو پہلے ٹی۔ وی چینلوں پر جا چکا تھا۔ “
Shall we contribute to a bloodless revolution- an evolution, a metamorphosis- unfurling flag of a tension free society. shall we fight out the tension That killed Khalid Suhail?
پلیتہ ، موضوعات کے پرانے بتوں کو توڑتے ہوئے تہذیبی ارتقا کے عمل میں، جنگوں کے امکانات سے الگ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان ابھی مرا نہیں ہے۔ مایوسی کفر ہے۔ پلیتہ، نے ابھی آگ نہیں پکڑی ہے اورزندہ رہنے کی خواہش ہی نسلِ انسانی کاسب سے بڑا تحفہ ہے۔
پیغام زندہ ہوتے تو وبا کے دنوں میں ان کا قلم خاموش نہیں رہتا .پلیتہ پھر آگ پکڑتا مگر افسوس وہ بہت جلد ہماری دنیا سے دور نکل گئے .