تو کیا بلتستان کے معصوم عوام کو پی آئی اے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے؟
پی آئی اے جیسے بدعنوان اور نااہل ادارے پر تو دشمن کا انحصار بھی خدا کرے نہ ہو۔ پی آئی اے جس طرح شمالی علاقہ جات کے لوگوں کی تذلیل کر رہا ہے۔ ناکوں چنے چبوا رہا ہے‘ اس کی مثال افریقہ کے بدترین ملکوں کے علاوہ کہیں نہ ملے گی۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر سکردو سے اسلام آباد آنا ہو تو سڑک کے ذریعے کتنے گھنٹے لگیں گے؟ دس؟ پندرہ؟ یا بیس؟ نہیں، پورے تیس اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ! بس کو چلاس کے قریب روکا جائے گا۔ بہت سی بسیں اور ویگنیں اکٹھی ہوں گی تو پھر پولیس کی حفاظت میں یہ قافلہ ان علاقوں کو پار کرے گا، جہاں قتل و غارت کا اندیشہ ہے۔ وہ سڑک جسے کبھی شاہراہ قراقرم کہا جاتا تھا، آج گڑھوں اور کھڈوں کا نام ہے۔ تیس پینتیس گھنٹوں کے انتہائی جانکاہ اور خطرناک سفر کے بعد آپ جب اسلام آباد پہنچیں گے تو آپ کے دل میں اپنے ہی ملک کے بارے میں کس طرح کے جذبات اور خیالات نشو و نما پا رہے ہوں گے؟
تیس پینتیس گھنٹوں کی اذیت اور جان کے خطرے سے بچنے کے لیے آپ پی آئی اے کا رخ کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ فلاں تاریخ، مثال کے طور پر، 23 ستمبر کو کوئی نشست اسلام آباد کے لیے مل سکتی ہے؟ پی آئی اے کا بابو ایک کھٹارہ نما کمپیوٹر پر ٹھک ٹھک کر کے بتاتا ہے کہ جی ہاں! 23
ستمبر کو اسلام آباد کے لیے نشست مل سکتی ہے۔ آپ رقم ادا کرتے ہیں اور ٹکٹ لے کر اطمینان سے گھر واپس آ جاتے ہیں۔
23
ستمبر کو آپ اپنا سامان اٹھائے سکردو کے ہوائی اڈے پر پہنچتے ہیں اور بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے کاﺅنٹر پر جاتے ہیں۔ پی آئی اے کا کارندہ آپ کا ٹکٹ دیکھتا ہے۔ کھٹارے پر ٹھک ٹھک کرتا ہے اور ایک لطف اٹھاتے تاثر کے ساتھ بتاتا ہے کہ آپ کی آج 23 ستمبر کی نشست کنفرم نہیں ہو سکی۔ آپ کا سر گھوم جاتا ہے۔ حواس مجتمع کرنے کے بعد آپ پوچھتے ہیں کہ میں نے آٹھ دس دن پہلے نشست محفوظ کرائی تھی اور ٹکٹ اسی لیے دیا گیا تھا کہ نشست موجود تھی۔ آخر وجہ کیا ہے؟ کارندہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتا اور بتاتا ہے کہ جہاز کئی دن نہیں جا سکا اس لیے ان مسافروں کو پہلے بھیجا جا رہا ہے جو مقررہ دنوں پر نہیں جا سکے۔ آپ مزید حیران ہوتے ہیں کہ جس دن میں نے نشست محفوظ کرائی، اس دن سے لے کر آج تک ہر روز جہاز جا رہا ہے۔ اب کارندہ کہتا ہے کہ اس سے پہلے جہاز نہیں جا سکا تھا۔ آپ پوچھتے ہیں کہ اگر اس سے پہلے کے مسافر رہتے تھے تو پھر مجھے 23 کی نشست دی ہی کیوں گئی تھی؟ جب وہ آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تو ترپ کا آخری پتہ پھینکتا ہے۔ ”جناب یہ نشستیں کراچی سے کنفرم ہوتی ہیں۔“ آپ پوچھتے ہیں کہ کیا میں کل جا سکوں گا؟ کارندہ کہتا ہے کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ آپ شام کے وقت ہیلپ لائن سے پوچھیئے، آپ شام کو ہیلپ لائن فون کرتے ہیں جو اسلام آباد جا ملتا ہے۔ ایک خاتون خالص جاگیردارانہ لہجے میں، آپ کو مزارع سمجھتے ہوئے ہدایت دیتی ہے کہ ابھی کراچی والوں نے فیصلہ نہیں کیا۔ آپ رات کو معلوم کریں۔ آپ رات کو پھر فون کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی نشست کل کے لیے کنفرم نہیں ہوئی۔
یہ کھیل آپ کے ساتھ کئی دن کھیلا جاتا ہے۔ پانچ چھ روز کے بعد آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی نشست کنفرم ہو گئی ہے۔ آپ دوسرے دن علی الصبح ایئرپورٹ جاتے ہیں۔ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آج موسم خراب ہے اس لیے اسلام آباد سے جہاز آیا ہی نہیں۔ آپ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ تیز دھوپ سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ ”موسم تو ٹھیک ہے“! ایک اور مسافر آپ کو سرگوشی میں بتاتا ہے کہ عین وقت پر جہاز کو کسی اور شہر کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے!
یہ ہے وہ سلوک جو بلتستان کے عوام سے روا رکھا جا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبا، سرکاری اور نجی شعبے کے ملازم، بڑے شہروں میں علاج کے خواہش مند مریض، سب اس چکیّ میں پس رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں جواب دہی اور
محاسبے کا رواج ہو تا تو پی آئی اے سے پوچھا جاتا کہ آخر سکردو سے اسلام آباد کی نشستیں کراچی میں کیوں کنفرم کی جاتی ہیں؟ کیا پی آئی اے کے وہ کارندے جو سکردو میں بیٹھے ہیں، اس کام کے اہل نہیں۔ اگر اہل نہیں تو انہیں ملازمت سے فارغ کیوں نہیں کیا جاتا؟ پی آئی اے سے یہ بھی پوچھا جاتا کہ اگر ایک دن جہاز نہیں جاتا تو اس سے اگلے دن، ایک زائد جہاز کیوں نہیں بھیجا جاتا؟ پورے نظام کو تہس نہس کیوں کر دیا جاتا ہے؟
سکردو سے شِگر اور خپلو تک، اس کالم نگار نے کئی لوگوں سے بات کی۔ ایک نکتے پر سب متفق تھے کہ پی آئی اے مقامی لوگوں کی تذلیل کر رہی ہے۔ کئی تعلیم یافتہ حضرات نے یقین کے ساتھ بتایا کہ اصل وجہ بدعنوانی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ خراب موسم کی وجہ سے پروازیں منسوخ کرنا پڑتی ہیں لیکن ہر بار یہی وجہ نہیں ہوتی۔ ”اور“ بھی ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک استاد نے اپنا ذاتی تجربہ بتایا کہ اسے نشست نہیں مل رہی تھی لیکن کچھ ”زائد“ رقم دینے پر مہیا کر دی گئی۔ زبانِ خلق نے یہ خبر بھی دی کہ جب بھی پی آئی اے کے علاوہ دوسری ایئرلائنیں یہاں سے پروازوںکا آغاز کرنے لگتی ہیں تو کچھ مافیا اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اس عمل کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ خپلو کے شاہی محل میں، جو اب سرینا ہوٹل کی تحویل میں ہے، ایک ذمہ دار شخص نے بتایا کہ آغا خانی بزنس کمیونٹی شمالی علاقوں میں اپنی ایئرلائن قائم کرنا چاہتی تھی لیکن ایسے ”مطالبے“ پیش ہوئے کہ کمیونٹی پیچھے ہٹ گئی۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان صوبے کے گورنر اور چیف منسٹر کو اس صورت حال کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں۔ جس حکومت کو اس بات کی بھی فکر نہ ہو کہ سکردو اور گلگت میں کوئی میڈیکل اور ڈینٹل کالج نہیں، اسے عوام کے دیگر مسائل سے کیا غرض؟
پی آئی اے کی نااہلی اور نااعتباری کی وجہ سے کئی روٹوں پر خود پاکستانیوں نے پی آئی اے کو خیرباد کہہ دیا۔ آسٹریلیا اور مشرق بعید جانے والے پاکستانی پی آئی اے سے بنکاک جاتے تھے اور وہاں سے دوسرے جہاز لیتے تھے۔ پی آئی اے کا جہاز بنکاک کبھی وقت پر نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اب یہ سارے مسافر تھائی ایئرلائن کو ترجیح دیتے ہیں، جس کا پابندی¿ وقت کا ریکارڈ قابل رشک ہے۔ کینیڈا اور امریکا جانے والے لندن تک پی آئی اے سے جاتے تھے۔ ان کی اکثریت بھی قومی ایئرلائن سے منحرف ہو چکی۔ سوال یہ ہے کہ بلتستان کے عوام کی پی آئی اے سے جان کیسے چھوٹے۔ انجم رومانی یاد آ گئے
انجم غریب شہر تھے، اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی دن بپھرے ہوئے مسافر پی آئی اے کے دفتر پر یا ہوائی اڈے پر حملہ کر دیں اور شدید مایوسی کے عالم میں کچھ کر گزریں۔ پی آئی اے سے اصلاح کی توقع عبث ہے۔ کئی دہائیوں سے سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ”ملازمین“ کا یہ ادارہ ایک بے روح لاش ہے، جو تیزی سے مدفن کی طرف لے جائی جا رہی ہے۔ کیا سپریم کورٹ شمالی علاقوں کے عوام کی تذلیل کا نوٹس لے گی؟ کیا نشستیں محفوظ کرنے کا عمل اور اس پر درآمد، آرمی یا ایئر فورس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا؟ کیا دوسری نجی ایئر لائنوں کو اس روٹ پر نہیں لایا جا سکتا؟ کیا غیر ملکی ایئر لائنوں سے معاہدے نہیں ہو سکتے؟
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں! ہے کہ نہیں!
http://columns.izharulhaq.net/2012_09_01_archive.html
“