میں جب کسی کام کا بیڑہ اٹھاتا ہوں تو پھر محنت ، احساسِ ذمہ داری اور کار کردگی کی انتہا پر پہنچ کر دم لیتا ہوں۔ اب کُل جماعتی کانفرنس [ اے پی سی ] ہی کو لے لیجیے، میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جہاں تک میرا بس چلے گا ہر پاکستانی کو اس کانفرنس کی اہمیت سے آگاہ کروں گا۔ آخر ملک کا مستقبل اسی کُل جماعتی کانفرنس ہی پر تو منحصر ہے۔
یہی احساس ذمہ داری تھا جس نے مجھے اس نوجوان لڑکے سے گفتگو کرنے پر مجبور کیا جو سخت گرمی میں مکان کے باہر تھڑے پر بیٹھا تھا۔ میں نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور اُس گندی چھوٹی گلی کے دوسری طرف اُس کے پاس باقاعدہ چل کر گیا۔ پسینے سے اس کی قمیض اس کے بدن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ اس سے بو آرہی تھی۔ پھر بھی میں اس کے نزدیک ہئوا اور پوچھا ۔" نوجوان تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ کُل جماعتی کانفرنس ہو رہی ہے جو ملک کی سلامتی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔"
اُس نے قمیض کے بازو کے ساتھ ماتھا پونچھا اور عجیب ہونق انداز میں کہنے لگا " کون سی کُل جماعتی کانفرنس؟"
پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گیارھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پھر بھی اسے کانفرنس کے بارے میں کچھ علم نہیں
" کیا اخبار نہیں پڑھتے ؟ ٹیلی ویژن پر خبریں نہیں سنتے؟"
" چاچا اخبار ہمارے ہاں نہیں آتا۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ اب اخبار کا بل بھی ادا کرنا شروع کر دیں۔ رہا ٹیلی ویژن تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اس شدید گرمی میں باہر کیوں بیٹھا ہوں ؟ دو گھنٹوں سے بجلی غائِب ہے۔ اور دن میں کئی بار ایسا ہوتا ہے۔ جب ٹی وی چلتا ہی نہیں تو خبریں کیسے دیکھیں اور سنیں۔ لیکن یہ بتائو کہ کل جماعتی کانفرنس میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں کیا فیصلہ ہئوا ہے؟ مہنگائی کم کرنے کے کے متعلق ہمارے رہنمائوں نے کیا کہا ہے؟ اور یہ جو دن دہاڑے چوریاں ہو رہی ہیں اور ڈاکے پڑ رہے ہیں اس کا کل جماعتی کانفرنس نے کیا حل سوچا ہے؟"
مجھے اس پر غصّہ آیا۔ ایک تو اس نے مجھے چاچا کہہ کر مخاطب کیا جو عجیب سا لگا۔ میرے بچوں کے دوست تو مجھے انکل کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ چاچا ماما خالہ ماسی کے الفاظ پڑھے لکھے لوگ نہیں استعمال کرتے۔ اوپر سے وہ کُل جماعتی کانفرنس کو لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں نے اُس سے مغز ماری جاری رکھی۔
" یہ جو کانفرنس ہو رہی ہے یہ امریکی دھمکیوں اور ممکنہ امریکی حملے کے پیش نظر منعقد کی جا رہی ہے۔ کیا تم امریکی دھمکیوں سے پریشان نہیں۔؟"
اس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میں دنیا کا احمق ترین انسان ہوں۔
" چا چا امریکہ کا دماغ نہیں خراب جو ہم پر حملہ کرے حملہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ ملک کو تباہ کر دیا جائے ۔ تو تباہ تو ہم امریکی حملے کے بغیر ہی ہو رہے ہیں۔ رہی کل جماعتی کانفرنس تو اس کا فاِئدہ صرف یہ ہئوا کہ کچھ امیر لوگوں کو اپنی خوش پوشی دکھانے کا موقعہ مل گیا۔ سنا ہے کہ وزیر اعظم کے ایک ایک سوٹ کی قیمت لاکھوں روپے میں ہے۔کیا کانفرنس میں دعوت اڑانے والے "عقل مند" رہنمائوں کو نہیں معلوم کہ ملک کی کیا حالت ہے؟ کیا ہمارے ملک کا مسئلہ نمبر ون امریکہ ہے؟ ریلوے موت کے گھاٹ اتر رہی ہے۔ پی آئی اے بد عنوانی اور نا اہلی کا گڑھ ہے۔ واپڈا کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ اپنے ملازمین کو مفت بجلی فراہم کرے۔ سیلاب زدگان جانوروں کی سی زندگی گذار رہے ہیں۔ ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیلاب آنے سے پہلے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ۔ڈینگی سے لوگ مر رہے ہیں۔ سپرے جعلی ہو رہے ہیں۔ رہائشی علاقے گائے بھینسوں اور ان کے گوبر پیشاب سے معمور ہیں۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں مویشی شہروں سے باہر مخصوص علاقوں میں رکھے جاتے ہیں۔ اور جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے بھی مخصوص علاقے ہیں۔ یہاں ہر گھر کے سامنے گوبر ہے اور آنتیں اور اوجھڑی بھی پڑی ہے۔ یہ مسخرے جو امریکہ کا نام لے کر آئے دن جلوس نکالتے ہیں اور شاہراہیں بند کر کے رہگیروں کو اذیت پہنچاتے ہیں ان مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام کیوں نہیں پیش کرتے؟ اور حکومت سے اس ضمن میں بات کیوں نہیں کرتے؟ ایک عام پاکستانی کا مسئلہ امریکہ ہے نہ طالبان۔ اس کا مسئلہ بجلی اور گیس ہے ۔ روٹی ہے ۔ امن و امان ہے اور انصاف ہے۔"
اب میں اس پاگل لڑکے سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور وہ خاموش ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سانس لینے کو رکا تو میں نے اس سے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے اور میں جا رہا ہوں۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیااور کہنے لگا " مجھ سے تو تم پوچھ رہے ہو کہ کیا مجھے کل جماعتی کانفرنس کا علم ہے یا نہیں۔ تو کیا تمہیں بھی معلوم ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں حرام کھانے والے پاکستانیوں کے ستانوے ارب ڈالر جمع ہیں؟"
میں نے اس خبر سے بے علمی کا اظہار کیا تو تو اس نے تقریباَ َ میرا مونہہ چڑاتے ہوئے کہا کہ قیمتی لباس پہننے والے مسخروں کی کانفرنسوں سے اگر فرصت مل جائے تو وہ خبریں بھی پڑھ لیا کرو جن کا اس ملک کی تباہی سے براہ راست تعلق ہے۔ سئوٹزر لینڈ کے بنکوں کے ڈائرکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے ستانوے ارب ڈالر پڑے ہیں۔
اس رقم سے تیس سال تک پاکستان کا ٹیکس فری بجٹ بنایا جا سکتا ہے۔ چھ کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔ پورے ملک کے گائوں سڑکوں کے ذریعے اسلام آباد سے جُڑ سکتے ہیں۔ سینکڑوں عوامی منصوبوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ اور پاکستان کے ہر شہری کو ساٹھ سال تک ہر ماہ بیس ہزار روپے دیے جا سکتے ہیں۔"
اس نے بات جاری رکھی " چاچا میں نے اور میرے دوستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آدھی رات کو اُٹھ کر وضو کر کے خدا کے حضور سر بسجود ہوں گے اور دعا کریں گے کہ اگر یہ ڈاکو ملک کی یہ رقم واپس ملک میں نہیں لاتے تو یہ اس رقم کو استعمال کرنے سے پہلے ہلاک ہو جائیں، ان کی قبریں آگ ، دھوئیں ، بچھئووں اور سانپوں سے بھر جائیں اور آخرت میں ان کے ناپاک جسموں کو انہی ڈالروں سے داغا جائے۔ چاچا تم اپنے اخبار میں لکھو کہ سب پاکستانی رات کو اُٹھ کر خدا کے حضور یہی دعا کریں۔"
میں نے عافیت اسی میں جانی کہ وہاں سے بھاگوں۔ میں گلی پار کرنے ہی والا تھا کہ وہ پیچھے سے تقریباَ َ چیخ کر بولا
" اور ہاں چاچا میں تمہارے دل کی بات جان گیا تھا۔ اپنے بچوں کو بتائو کہ آنکلوں اور آنٹیوں کے علاوہ چاچوں ماموں ماسیوں اور پھپھیوں کے رشتے بھی ہوتے ہیں"