پاکستان میں کم عمر بچوں پر جنسی تشدد، انہیں قتل کرنے کے واقعات میں اچانک بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے
آخر اس کی وجوہات کیا ہیں ؟
کون لوگ بچوں سے سیکس کرتے ہیں؟
کیا یہ ذہنی بیماری ہے؟
ان سب سوالوں کا نفسیاتی تحقیقات کی مدد سے جائزہ لیتے ہیں.
بچوں سے سیکس کرنے کے عمل کو پیڈو فیلیا کہتے ہیں اس سے مراد Pre Pubertal یعنی بلوغت سے پہلے کے بچوں کی طرف جنسی رغبت ہے عام حالات میں جنسی طور پر ان کی طرف راغب ہوتے ہیں جن کے جنسی خدوخال واضح ہوں ایک فی میل یا میل کے خدوخال واضح ہوں وہ مرد یا عورت نظر آتے ہوں مگر بچہ باز ایسا نہیں کرتے.
پیڈو فیلیا کو ایک نفسیاتی بیماری سمجھا جاتا ہے اور اسےParaphilia کہا جاتا ہے اس سے مراد آپ کی جنسی اشتہا ایسی چیزوں یا تصورات کے ذریعے ہو جو Unusual ہوں نارمل نہ ہوں اور اسی لیے بچوں کی طرف جنسی رغبت کو بھی Paraphilia کہا جاتا اس کے لئے اردو کا مناسب لفظ مجھے معلوم نہیں۔
پیڈوفیلک یا بچے باز کو باقاعدہ طور پر نفسیاتی مریض سمجھا جاتا ہے DSM-5جو کہ ڈائگنوسٹک مینوئل ہے اس کے مطابق تین مرکزی علامات اگر ہوں تو ایسے فرد کو پیڈوفیلک کہہ سکتے مرکزی علامات ایسی خواہشات کا ہونا جس میں بچے سے جنسی تعلق کئ خواہش ہو یا بچوں کو دیکھ کر جنسی اشتہا ابھرتی ہو
معاشرے میں کتنے لوگ پیڈوفیلک ہو سکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر مرد بچوں سے سیکس کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق پانچ سے دس فیصد کے قریب ان کی تعداد ہے پاکستان میں اس کئ تعداد کا اندازہ نہیں ہے۔
یاد رہے امریکہ میں بیس فیصد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ انڈیا میں اس کی شرح 54فیصد ہے۔ پاکستان میں ساحل کے مطابق ہر تیسرا بچہ اس کا شکار ہوتا ہے۔ امریکہ میں بچے کو صرف چھونا، ننگا دیکھنا یا جنسی اعضا کو چھونا جنسی زیادتی سمجھا جاتا مکمل ریپ کے کیس بہت کم ہیں۔ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
جو بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے ان میں 90فیصد وہ ہیں جو کسی جاننے والے کے ہاتھوں اس کا شکار ہوئے سو ایک اہم احتیاط بچوں کے معاملے میں کسی پر بھی بھروسہ مت کریں۔ وہ آپ کا بھائی رشتہ دار ٹیچر دوست یا قرآن پڑھانے والا قاری کیوں نہ ہو
پیڈوفایل کی پہچان کیسے کی جائے ؟اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
عام حالات میں بچہ بازوں کو پہچاننا کافی مشکل ہوتا ہے ماہرین کے مطابق اس کے لیے مختلف طریقوں کو اکھٹا کرنا اہم ہے ایک طریقہ plethysmograph measure ہے جس میں اس شخص کو مختلف عمر کے افراد دکھائے جاتے اور جہاں جنسی اُبھار آتا ہو وہ آلہ اس کی پہچان کر لیتا ہے۔
ایک فرد کیوں اس کا شکار ہوتا ہے اس کی بہت سی تھیوریز ہیں۔ ابھی مزید ریسرچ کی بھی ضرورت ہے۔ ان وجوہات میں نیورولاجیکل ڈس فنکشنگ cognitive distortions اور نفسیاتی ٹریٹ سب شامل ہوتے ہیں تحقیات میں دیکھا گیا ہے ایسے افراد کے دماغ بچوں کے امیج کو مختلف طرح سے دیکھتے ہیں ایک تھیوری یہ بھی ہے Abused-abuser کہ جو خود جنسی تشدد کا شکار رہے ہوں وہ زیادہ تر sex offender بنتے ہیں۔ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ جنسی تشدد کا شکار تیس سے پینتیس فیصد لوگ بھی بڑی عمر میں تشدد کرنے لگتے ہیں۔
اگر آپ ایسے لوگوں کی شخصیت کو دیکھیں تو یہ لوگ ان میں سوشل اینگزایٹئ زیادہ ہوتی ہے۔ سیلف کانفیڈینس کم ہوتا ہے اور یہ ایسے مسائل کا شکار ہوتے جہاں بڑوں سے سیلس کرنا ان کے لیے مسلۂ ہوتا ہے۔ ریسرچ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اکثر ایسے لوگ عام اوسط سے قد میں چھوٹے اور ان کا آئ کیو لیول بھی کم ہوتا ہے۔
اکثر بچوں پر جنسی تشدد کرنے والے Cognitive Distortions کا شکار ہوتے ہیں مطلب وہ نتائج کا ٹھیک اندازہ نہی لگا سکتے انہیں اس عمل کی سنگینی کا احساس نہی ہوتا۔ اکثر اس عمل کو بچوں سے پیار کا نام دیتے ہیں وہ لمبا عرصہ اگر تشدد کا شکار رہے ہوں تو انہیں بچے کی تکلیف کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔
اکثر ایسے لوگ خود معاشرے کے جبر اور ملامت کا شکار رہے ہوتےہیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہر ایسے ملزم کا مکمل نفسیاتی معائنہ کیا جائے اس کا ڈیٹا بیس بنایا جایا اور مقامی طور تحقیقات ہوں تاکہ ہم پاکستان کے حالات کے مطابق مکمل اس کو سمجھ سکیں۔
آج کے اس تھریڈ میں میں نے صرف پیڈو فیلیا کے بارے بنیادی معلومات دیں ہیں۔ یہ ایک بہت وسیع موضوع ہے اور مجھے بھی سمجھ نہی لگ رہی کہ کیا کچھ لکھوں۔ اگلے تھریڈ میں میں ہم اس کے علاج پر بات کریں گے ضروری نہیں ہے ہر بچہ باز لازمئ طور پر بچوں سے سیکس کرے بہت سے لوگ صرف خواہش رکھتے ہیں۔
ہمیں معاشرے میں آگاہی پھیلانی ہے کہ اگر کوئی اس بیماری کا شکار ہو تو اس کے علاج کی سہولیات دینی چاہیے۔ جنسی تشدد کے شکار بچوں کی مکمل نفسیاتی مدد ہو تاکہ یہ ایبیوز کا سائیکل جاری نہ رہے یہاں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ پاکستان میں یہ دیکھنے کے لیے کہ کتنے فیصد لوگ اس کا شکار ہم انٹرنیٹ ڈیٹا کی مکمل سکینگ کریں تاکہ ایسی ویب سائٹس جن میں بچوں سے سیکس کی بات ہو ان پر نظر رکھی جا سکے اور دیکھیں کتنی اور کہاں سے ٹریفک اس پر ہے ایک اور چیز آجکل child sex tourism’بھی عروج پر یورپ وغیرہ سے بچوں سے سیکس کے شوقین غریب ممالک میں جاتے ہیں۔ ان پر بھی نظر رکھیں جائے۔
یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسلۂ ہے ہم سب کو مل کر اس عفرئت کو کنٹرول کرنا ہے اس مسلۓ پر بہت دھیان سے بات کرنا لازم ہے پہلا قدم اس بارے مکمل معلومات اور علم ہے میں نے اپنا فرض معلومات لکھ کر ادا کر دیا ہے۔ اب انہیں زیادہ سے زیادہ شئیر کرنا آپ کا کام ہے.