پدرسری نظام، آزادی نسواں
مرد کی بالا دستی کا تصور ہزاروں سال پر محیط ہے۔ کہا جاتا ہے اس کی ابتدا تب ہوئی تھی جب ملکیت کا تصور ابھرا تھا یوں ہر اس شے کو جو خود کو دستبرد سے بچانے سے قاصر تھی ملکیت میں ڈھال لیا جانے لگا تھا۔ جب یہ سماجی تصور راسخ ہو گیا تو کہاوت چل نکلی کی زر، زن اور زمین جھگڑے کی جڑیں ہیں جبکہ جڑ دماغ میں گڑی ہوئی سوچ ہوتی تھی اور آج بھی ہے۔ لالچ، حرص، طمع ضرورتوں اور خواہشوں میں اضافہ کیے جاتے ہیں اور دل کو خوش رکھنے کو کہاوت کافی رہتی ہے۔
صدی سے کچھ کم پہلے کی بات ہے کہ یورپ سے ایک تحریک کی ابتدا ہوئی جس میں پدرسری نظام کے خلاف انتہائی انداز اختیار کرتے ہوئے خواتین نے نعرہ لگایا کہ انہیں مردوں کی ضرورت نہیں ہے۔ سارے ایسے کام جو بلاوجہ مردوں کے لیے مختص کر دیے گئے ہیں وہ خود بھی کر سکتی ہیں۔ جب یہ تحریک امریکہ پہنچی تو زیادہ شدید ہوئی کیونکہ امریکہ صنعت میں پیش رفتہ تھا چنانچہ وہاں خواتین نے علامتی طور پر اپنے سینوں کو ڈھانپنے والے چھوٹے کپڑے نذر آتش کرکے خود کو سب سے پہلے اس واحد بندھن سے آزاد کرنے کا مظاہرہ کیا جو خالصتا" عورتوں کے لیے ہوتا ہے۔
خیر بات آگے بڑھی، نسائیت پسندی کی یہ تحریک جسے " فیمینسٹ موومنٹ" کہا جانے لگا تھا کی وجہ سے عورتوں نے کم از کم اپنے مسائل کو طشت از بام کیا۔ یہ اور بات ہے کہ عورتوں کو زیادہ حقوق دیے جانے سے متعلق قوانین تو وہیں بننے تھے جہاں بنتے ہیں یعنی پارلیمانوں میں جہاں مردوں کی تعداد آج بھی خواتین کی نسبت زیادہ ہے۔ پھر ان قوانین پر عمل درآمد کروانے والے اداروں سے زیادہ تر مرد ہی وابستہ تھے۔ اگرچہ آج یورپ امریکہ اور کچھ مزید ملکوں میں عورتیں بھی ان اداروں سے وابستہ ہو چکی ہیں تاہم ان کی تعداد مردوں کے مقابلے میں آج بھی زیادہ نہیں ہے۔
جن شعبوں میں مرد تعداد میں زیادہ ہیں ان میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ وہاں کام کرنے والا مردوں کا رویہ بظاہر تو رفقائے کار کا رہا مگر چونکہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ پرکشش ہوتی ہیں، ساتھ ہی سنگار بھی کرتی ہیں چنانچہ مخفی طور پر کچھ مرد رفقائے کار ان سے اور طرح کے تعلق بنانے کی غرض سے طریقے، ہتھکنڈے تاحتٰی اوچھے ہتھکنڈے بھی برتنے لگے۔ طریقے اگر متعلقہ عورت کے لیے قابل قبول اور پسند کے تھے تو اسے فلرٹ، کام کے علاوہ ساتھ گھومنے پھرنے کو کورٹنگ اور زیادہ قریب آ جانے کو محبت نام دیا گیا۔ البتہ جن حواتین کے لیے اس طرح کے حربے نامناسب ، ناقابل قبول اور غیر پسندیدہ تھے وہ اس عمل کو خود کو ہراساں کرنے کا عمل کہنے لگیں۔
اچھا ایسا نہیں کہ ہراسانی کا یہ عمل ان اداروں میں ہوتا تھا جہاں عورتون نے کام کے لیے شامل ہونا شروع کیا یا جو مخلوط تعلیمی اداروں میں ہوتی تھیں بلکہ عام معاشرے میں بھی چونکہ خواتین آزادی سے گھومنے پھرنے لگی تھیں اور اختلاط ہونے لگا تھا وہاں بھی ایسی حرکات ہونے لگیں۔ ایسا بھی نہیں کہ عورتوں کے گھر سے نکلنے کے بعد ہی ایسا ہوا بلکہ عورتیں جب گھروں میں ہوتی تھیں تب بھی رشتہ داروں، قرابت داروں وغیرہ کی طرف سے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی تھیں اور آج بھی ہوتی ہیں چنانچہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جنسی ہراسانی کا تعلق عورت کی آزادی کے ساتھ وابستہ ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس طرح راہیں کھل گئیں، مواقع زیادہ میسر آنے لگے۔
کیا خواتین کو آزاد نہیں ہونا چاہیے؟ کیا خواتین کو مردوں کے برابر حقوق نہیں ملنے چاہییں؟ کچھ کہیں گے کہ اسلام نے عورتوں کو خاطر خواہ حقوق دیے ہیں۔ درست اپنے زمانے کے حساب سے وہ حقوق کہیں زیادہ تھے۔ کچھ کہیں گے کہ عورت مغرب میں زیادہ آزاد ہے، یقین جانیں یہ آدھا سچ ہے۔ یورپ میں بھی عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تبھی تو اس کے خلاف قوانین بنے ہیں۔ اس کے باوجود ایسے واقعات کم ہونے میں نہیں آتے۔ کلنٹن، مونا لیونسکی سکینڈل سے لے کر موجودہ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے عورتوں سے متعلق رویے اور خیالات اس کے غماز ہیں۔ یہ تو بڑے لوگوں کی مثالیں ہیں۔ قوانین اور سزائیں تنبیہہ اور خوف کے لیے ہوتی ہیں لیکن انسان خوف کے ہوتے ہوئے بھی سب کچھ کر لیتا ہے چنانچہ سوچ کو بدلنا ہوگا۔ سوچ بدلنے کی خاطر بہت کچھ کیا جاتا ہے لیکن مرد کی بالا دستی اس قدر راسخ ہو چکی ہے جسے ہلانا مشکل ہے۔
جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانا، تحریک چلانا، آگاہ کرنا یہ سب اچھی باتیں ہیں اور ہونی چاہییں۔ مگر حال میں پاکستان میں جو دو سیاسی شخصیات سے متعلق باتیں سامنے آئی ہیں ان کے ضمن میں سیاسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے کچھ مہربان عائشہ گلالئی سے متعلق اس بات کو یکسر محذوف کرنے پر مائل ہیں کہ وہ چار سال خاموش کیوں رہیں۔ تاویل دی جاتی ہے کہ عورت کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ اگر اس نے اپنے ساتھ برا رویہ رکھنے والے کو افشاء کیا تو وہ خود بھی بدنام ہوگی، یہ تاویل بے وزن نہیں لیکن سیاسی شخصیات کے تمام اعمال میں "ٹائمنگ" بہت اہم ہوتی ہے۔ پانامہ کیس کے فیصلے کے فورا" بعد گلالئی کا "بہادر" ہو جانا کچھ اور طرح کا سمجھ آتا ہے۔ اگر ان انکشافات کے سیاسی پہلو نہ دیکھے جائیں تو عائشہ احد کی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی میں نئی شامل ہونے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور پرانی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی موجودگی کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
روس وہ ملک ہے جہاں عورتوں کو سب سے پہلے مرد کو طلاق دینے اور انتخابات میں ووٹ دینے کے حقوق تفویض ہوئے تھے۔ انقلاب روس کے بعد کی پون صدی میں یہاں جنسی رویوں سے متعلق آزادی بارے بھی سب جانتے ہیں تاہم یہاں کی عورتیں ( مرد نہیں )ی ایک فقرہ بولتی ہیں، وہ فقرہ آپ کی طبع نازک پر جتنا گراں کیوں نہ ہو لیکن ہے ایسے ہی کہ،" گر کتیا نہ چاہے تو کتا کچھ نہیں کر سکتا"۔ یاد رہے یہاں آپ کسی کی "کتیا" کو کتیا نہیں کہہ سکتے بلکہ کتا ہی کہتے ہیں کیونکہ لفظ "سوچکا " یعنی کتیا منسوب ہی جنس سے وابستہ کسی عمل کے لیے رضامند ( خاتون، کتیا، گالی کے طور پر مرد بھی) کے لیے مختص ہے۔ ایسے میں وہ قصہ بھی یاد آتا ہے جو غالبا" قائد اعظم محمد علی جناح سے منسوب ہے کہ ایک لڑکی کی جانب سے زنا بالجبر سے متعلق مقدمہ تھا۔ قائد اعظم کی نگاہ تیز کو شک ہوا کیونکہ لڑکی نے ایک ہی مرد پر الزام لگایا تھا، کہتے ہیں انہوں نے سوئی دھاگہ لانے کو کہا۔ دھاگہ لڑکی کو پکڑا کر سوئی اپنی دو انگلیوں میں تھامی اور اسے کہا کہ "سوئی میں دھاگہ ڈالو"۔ وہ سوئی کے سوراخ تک دھاگہ لاتی تو وہ سوئی ہلا دیتے، چند بار ایسا کرنے کے بعد بھی دھاگا سوئی میں نہ پڑ سکا تو انہوں نے مقدمہ لینے سے انکار کر دیا۔ دلیل یہ دی کہ ایک آدمی سے تم بھی سوئی کی طرح بچ سکتی تھیں۔ اس قصے میں حقیقت ہے کہ نہیں البتہ منطق ضرور ہے وہی روسی کہاوت والی۔
دنیا کے تہذیب یافتہ، متمدن اور صنعتی و معاشی حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں کی اسمبلیوں اور اعلٰی عہدوں پر بھی عورتوں کا تناسب بہت غیر متوازن و غیرمناسب ہے چنانچہ یہ سعی کرنا کہ پدر سری نطام کی چولیں ڈھیلی کر دی جائیں اسی طرح خیال خام ہے جیسے عورتوں میں قبل از وقت Parthenogenesis ( بغیر جنسی اختلاط کے بچہ پیدا کرنا ) شروع ہو جانے کی خواہش کرنا۔ ایسا عمل روئے ارض پر صرف ایک جاندار Whip tailed lizard میں ہے جن کے نر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ عرصہ گذرنے کے بعد بھی وہ آپس میں اس "عمل" کی پھوکی نقل کرتی پائی جاتی ہیں۔
یکسر آزادی ممکن نہیں ہوتی۔ آزادی کی اپنی بندشیں ہوتی ہیں جنہیں نرم لفظ حدود سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے لے کر رہنماؤں کی جنسی خلش اجاگر ہونے تک سب ایک خاص مقصد ظاہر کرتا ہے جس کا اظہار آرمی چیف جنرل باجوہ کے حالیہ بیان سے عیاں ہوا ہے کہ " ایسے پاکستان کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہوگا، ریاست کی عملداری ہوگی" ۔ ۔ ۔ تو غم کاہے کا، مورے پیا بھئے کوتوال۔۔۔ میں واری جاؤں "۔ چنانچہ میرے لبرل ہم خیال دوستو آؤ باجوہ صاحب کی آواز میں آواز ملاتے ہیں جو ہم غیر شعوری طور پر ملا ہی رہے ہیں۔ مت بھولیں اوائل میں پرویز مشرف کو روشن فکر جنرل سمجھا جاتا تھا اور بہت زیادہ آزاد سوچ کے حامل دانشور ان کے حامی تھے۔ اگر کوئی زیادتی ہو گئی ہو تو دوستوں اور فوج دونوں سے معافی چاہتا ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“