چلی سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل نوبل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا دنیا میں ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ان کا شمار دنیا کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ پابلو نرودا کی زندگی کے حالات بہت دلچسپی کے حامل ہیں ۔ دنیا میں شاید یہ واحد مرد شاعر ہیں جن کے والدین یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کا بیٹا شاعری کرے چناں چہ باپ کے خوف سے پابلو نرودا نے اپنا نام ہی تبدیل کر دیا تاکہ اس کے باپ کو معلوم نہ ہو سکے ۔ نرودا کا اصل نام " نیفتلی زچرڈوریسئن پسالٹو" ہے ۔ وہ 12 جولائی 1914 میں پیدا ہوئے انہوں نے 1955 میں شادی کی 9171 میں ان کو ادب کا نوبل انعام ملا 1959 میں انہوں نے اپنی اہلیہ کے نام متعدد پیار بھری نظمیں لکھیں ۔ وہ اپنی اہلیہ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ عقیدے کے لحاظ سے وہ لادین اور ملحد تھے ۔ وہ اللہ تبارک و تعالی کے وجود سے انکاری تھے ۔ پبلو نرودا سے ایک بار انٹرویو کے دوران کسی صحافی نے سوال پوچھا کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ نرودا کیسے ملا لیا کیوں کہ چلی میں نرودا کوئی نام نہیں ہے ۔ جس پر پابلو نرودا مسکرا کر صحافی کو جواب دیا کہ یہ ایک راز ہے جو میں آج پہلی بار بتا رہا ہوں کہ میرے والد صاحب کو یہ بات ہرگز پسند نہیں تھی کہ میرا بیٹا شاعر بنے ۔ چناں چہ میں نے جب اپنی پہلی نظم چھپوائی تو سوچا کہ میں کوئی ایسا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑ دوں جس سے میرے باپ کو مجھ پر شاعری کا شک نہ ہو سکے ۔ ایک روز میرے سامنے چیکو سلواکیہ کا ایک میگزین پڑا تھا میں اس میں کوئی نام تلاش کرنے لگا تو ایک نام " نرودا " میرے سامنے آ گیا ۔ نرودا نام مجھے اچھا لگا جسے میں نے اس دن سے اپنے نام کا حصہ بنا دیا ۔ پابلو نرودا کا کہنا ہے کہ مجھے کئی برس بعد معلوم ہوا کہ " نرودا " بھی چیکو سلواکیہ کا ایک بڑا شاعر تھا اور میں جب چیکو سلواکیہ گیا تو پراگ میں اس شاعر کے مجسمے پر میں عقیدت کے اظہار کے طور پر پھول چڑھائے ۔
ایک بار پابلو نرودا نے گوئٹے مالا میں عجیب حالات کا سامنا کیا ۔ جن دنوں گوئٹے مالا میں آمریت کا راج تھا وہاں کے شاعروں نے ان سے ان کی نظمیں سنانے کا مطالبہ کیا جس کے لئے ان کو وہاں کی حکومت سے تحریری اجازت لینی پڑی ۔ نرودا نے کھچاکھچ بھرے ہال میں اپنی متعدد نظمیں سنائیں ۔ انہیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہال کی اگلی نشستوں پر پولیس کے کچھ مستعد اہلکار بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ہال کے تاریک گوشے میں 4 مشین گنیں اس مقصد کے لئے رکھی ہوئی تھیں کہ اگر پابلو نرودا انقلابی قسم کی نظمیں سناتا تو اس پر ان مشینوں سے گولیاں چلائی جاتیں ۔ میکسیکو میں جن دنوں وہاں کا ہر شہری اپنے پاس لازمی طور پر پستول رکھتا تھا اس دور میں نرودا کا وہاں جانا ہوا ۔ کچھ شعراء نے ان کے ساتھ کشتی پر سیر و تفریح کا انتظام کیا ۔ تفریح کے دوران ایک شاعر نے اپنا پستول نکال کر نرودا کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا کہ آج کی خوشی میں آسمان کی سمت پستول چلا کر آسمان کو سلامی دو ۔ اس دوران موجود دیگر شعراء نے بھی اپنے پستول نکال کر نرودا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ میرے پستول سے ۔۔۔میرے پستول سے ۔۔جس پر نرودا نے چیخ کر کہا کہ آپ سب شاعری اور امن کے نام پر اپنے پستول میرے سامنے ڈھیر کر دیں تو انہوں نے ایسا ہی کیا ۔اس طرح پابلو نرودا کو یہ شعراء میں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ان کی پذیرائی پستولوں سے کی گئی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پابلو نرودا کی مختصر سی نظمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی تمہیں یہ کہے کہ میں تمہیں بھول گیا
کوئی کیا اگر خود میں بھی تمہیں کہوں کہ میں تمہیں بھول گیا
تم نے کسی کا بھی یقین نہیں کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شخص ان پروں سے تتلیاں بناتا ہے
اور خوابوں کو آنکھیں دیتا ہے