پابلو نرودا کے آنگن میں ایک دوپہر
اس وقت میں پابلو نرودا کے گھر کے صحن میں بیٹھا ہوں۔ یہ مکان نوبل انعام یافتہ انقلابی شاعر اور سیاستدان نے اپنی محبوبہ کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اس رہائش گاہ کا نام بھی نرودا نے اسی حسینہ کی گھنی زُلفوں کی نسبت سے رکھا تھا’’لاچکونا‘‘۔ گھنگھریالے بالوں والی یہ خاتون خوش نوا شاعر کی تین بیویوں کے علاوہ تھی۔ میرے قریب بینچ پر برازیل کا ایک نوجوان شاعر بیٹھا ہوا تھا۔ ابھی ابھی بتا رہا تھا کہ اس کی ذاتی شاعری فرانسیسی اور ہسپانوی زبان کے علاوہ پُرتگیری زبان میں بھی شایئ ہو چکی ہے۔ پابلو نرودا کے آستانے کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس گھر کی فضا محبت سے معطر ہے، گھر کی ایک ایک اینٹ سے محبت چھلکتی ہے۔ میں نے اپنا تعارف بطور شاعر کروایا تو کہنے لگا کہ یہ گنج عافیت تو دُنیا بھر کے شاعروں کے لیے ویٹی کن کا درجہ رکھتا ہے۔ ناہموار پتھریلی پہاڑی کے دامن میں واقع اس مکان کی تعمیر اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہاں پر پہلے سے موجود کوئی ایک درخت بھی نہیں کاٹا گیا اور پہاڑی کے فطری پیچ و خم کو بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کم و بیش چار کنال کے رقبے پر پھیلے اس مکان کو بنواتے ہوئے جس تعمیری مہارت کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ فقید المثال ہے۔ یہ گھر قلعی طور پر مہنگا نہیں لگتا۔ بالکل سادہ مگر آہٹ کا ایک شاہکار معلوم ہوتا ہے۔
اس مکان کی سیر سے پابلو نرودا کی ہمہ جیت شخصیت کا ایک اور پہلو نمایاں ہوتا ہے، اسے فن تعمیر سے بے حد لگاؤ تھا۔ فن تعمیر سے اس کی دلچسپی کا مظہر وہ تین مکان تو ہیں ہی جو اس نے خود ڈیزائن کیے اور اپنی نگرانی میں تین مختلف شہروں میں تعمیر کروائے۔ ایک اور مکان کا ماڈل اس گھر کی لائبریری، جس کے آنگن میں اس وقت میں براجمان ہوں، پڑا ہوا ہے۔ نرودا اس مکان کو تعمیر کروانا چاہتا تھا، مگر وقت نے وفا نہیں کی اور شاعر کا یہ خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ کیسے کیسے دلچسپ پہلو ہیں اس انوکھے گھر کے جن میں سے ایک یہ پہلو بھی کہ ہر موڈ کے لیے شاعر نے الگ کمرہ بنا رکھا تھا۔ اگر کسی صبح ناسٹلجیا محسوس ہوا تو پھر دو دن ناسٹلجیا کے لیے مخصوص کمرے میں گزرتا، خوشی اور غمگین موڈ کے لیے الگ الگ رکھے تھے۔ عین ممکن ہے کہ بعض قارئین کنفیوژن کا شکار ہو جائیں کہ میں نہ جانے دُنیا کے کس کونے کا تذکرہ کر رہا ہوں؟ عرض ہے کہ میں اس وقت لاطینی امریکہ کے ملک چلی کے دارالسلطنت سان نیاگو سے آپ سے مخاطب ہوں۔
چلی کی وجۂ تسمیہ کے حوالے سے سرد موسم اور سالم سبز مرچ سے مشتق ہونے سمیت کئی روایات موجود ہیں۔ اس بارے میں سب سے دلچسپ اور قرین قیاس روایت قدیم مقامی قبائل اور انہی کے نام سے منسوب زبان ماپوجو سے ماخذ ہے۔ ماپوچے زبان میں چلی کا مطلب ’’خشکی کا آخری کنارہ‘‘ ہے، اسے ’’زمین کا خاتمہ‘‘ کے طور پر بھی ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تاریخی ماپوچے روایت اس لیے بھی دل کو لگتی ہے کہ زیادہ منطقی اور دھرتی سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر دُنیا کا نقشہ اُٹھا کر دیکھیں تو چلی کی پٹی کے آگے بحرالکاہل اپنی اتھاہ گہرائیوں اور بے پناہ وسعتوں سے لبریز نظر آتا ہے۔ یہ ملک کئی لحاظ سے منفرد ہے، لاطینی امریکہ کا یہ واحد ملک ہے جس کے باشندوں کی غالب اکثریت نسلی اعتبار سے یورپی نژاد ہے۔ خوبصورتی اس معاشرے کی مگر یہ بھی ہے کہ نسل پرستانہ رویہ یہاں معدوم ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ برسوں یہاں سکونت پذیر رہے اور مسلسل رابطے کے باوجود مجھ پر گزشتہ سال یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ملک کی اکثریتی آبادی یورپی النسل ہے، وہ بھی یوں کہ میں یہاں کے ایک کرنسی نوٹ پر چھپی ایک فوجی افسر کی تصویر دیکھ کر اس کی تاریخ ڈھونڈنے نکلا تھا، تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ سپاہی دارالحکومت سان نیاگو کا بانی اور معمار پیدرودی بالد یویا ہے، موصوف ہسپانوی نژاد ہیں۔ مجھے تھوڑا تعجب ہوا، کیونکہ مقامی لوگ تو کبھی کبھی غیر ملکی نو آبادیاتی حکمرانوں کو اپنا ہیرو تسلیم نہیں کرتے، دُنیا کا چاہے کوئی بھی ملک ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی منکشف ہو گئی کہ ملک کی غالب اکثریت ہسپانوی، جرمن، فرانسیسی و دیگر یورپی ممالک سے ہجرت کر کے آنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔ عالمی تاریخ میں چلی دُنیا کا پہلا ملک تھا جہاں آزادی کے حصول کے لیے ریفرنڈم منعقد ہوا، لوگوں کی واضح اکثریت نے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ یہ واقعہ بہت ہی مزے کا ہے، ہوا یوں تھا کہ فرانسیسی فاتح جرنیل نپولین بوتا پارٹ نے سپین فتح کرنے کے بعد اپنے حقیقی بھائی کو 1808ء عیسوی میں ہسپانیہ کا بادشاہ مقرر کر دیا۔ چونکہ چلی میں غالب اکثریت ہسپانوی النسل لوگوں کی تھی اور وہ ہسپانوی علمداری میں ہی تھا، لٰہذا فرانسیسی نژاد نپولین بونا پارٹ کے بھائی کو لوگوں نے اپنا بادشاہ قبول کرنے سے انکار کیا اور ہسپانیہ سے علیحدگی کا راستہ اختیار کیا، 1810ء میں عوام نے چلی کی خودمختار حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ آج پونے دو کروڑ آبادی والے اس ملک کا بیس فیصد رقبہ گزشتہ سے پیوستہ صدی کے آخر میں بولیویا اور پیرو سے ہونے والی جنگ کے نتیجے میں چلی نے اپنے قبضے میں لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ شمال کے رہنے والے لوگ شکل و صورت سے پیرو اور بولیویا کے باشندے نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ ہماری سیکرٹری کی والدہ ہمارے شوروم پر آئی تو میں نے پوچھ لیا کہ کیا وہ پیرو کی رہنے والی ہے؟ خاتون نے وضاحت کی کہ وہ میری سیکرٹری کی والدہ ہے بعد ازاں اس خاتون نے اپنی بیٹی کو احتجاج ریکارڈ کروایا۔ سیکرٹری روسا سپکویا نے پھر وہی احتجاج مجھ تک پہنچایا کہ میں نے اس کی ماں کو پیرو کی باشندہ کہا ہے؟ جو کہ شاید ان کے نزدیک کتھر قومیت ہو گی؟ خدا گواہ ہے کہ میں نے جو دیکھا وہی کہا تھا۔ تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو میں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔
یوں تو پابلو نرودا کے سان نیاگو میں واقع جس گھر کے صحن میں بیٹھا ہوں، وہ مرجع خلائق ہے مگر ازلانیگرا والے مکان کی اہمیت زیادہ ہے۔ اوّل وجہ تو یہ ہے کہ نرودا اور اس کی بیوی تلدے اس گھر کے آنگن میں مدفون ہیں؟ دوم، نرودا کی دُنیا بھر کی سیاحت اور کئی ملکوں میں سفارت کاری کے دوران اکٹھی ہونے والی سوغاتیں، نشانیاں، عجائبات اور فن پارے اسّی فیصد اس گھر میں موجود ہیں۔ عجیب و غریب اشیأ اکٹھی کرنے کا پابلو نرودا کو بہت شوق تھا، بلکہ جنون کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ گھر کا فرنیچر ایسا ہے کہ کوئی چیز دوسری سے نہیں ملتی، ماسوائے ڈائنگ ٹیبل کی کرسیوں کے، وہ بھی آپس میں تو ضرور ملتی ہیں مگر دُنیا میں ایسی عجیب کرسیاں کم از کم میں نے تو اور کہیں نہیں دیکھی ہیں۔ تینوں گھروں میں دو دو مہ خانے ہیں جن میں رنگین گلاس اور جام رکھے ہیں۔ پیلے، سبز، نیلے، سُرخ، شاعر کا عقیدہ تھا کہ جام کا رنگ بدلنے سے مشروب کا ذائقہ بدل جاتا ہے۔
نرودا کے گھروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسے سمندر سے خصوصی لگاؤ تھا۔ پابلو نرودا فاؤنڈیشن جو اس کے نام سے منسوب ہے، اس کے تینوں گھروں کا انتظام چلاتی ہے، جو کہ اب میوزیم بنا دئیے گئے ہیں، اس کی کتابوں کی اشاعت کے اہتمام کے علاوہ دیگر تقاریب و منصوبہ جات کی دیکھ بھال کرتی ہے، اس فاؤنڈیشن کا مونوگرام ’’مچھلی‘‘ ہے۔ ازلانیگر والا گھر ساحل سمندر پر واقع ہے، گھر کے اُوپر ایک کشتی بنی ہوئی ہے جہاں سے کھلا سمندر نظر آتا ہے۔ اپنے قیام کے دوران بلا ناغہ اس کشتی میں بیٹھ کر نرودا کئی کئی گھنٹے ساگر تکتا رہتا، شراب پیتا اور شعر گوئی کرتا۔ عہد ساز شاعر اور کیمونسٹ پارٹی کی طرف سے صدر کے منتخب اُمیدوار، عاشق مزاح فنکار کا کہنا تھا کہ ایک خاص وقت کے بعد اس کشتی میں بیٹھے ہوئے وہ خود کو سمندری سطح پر سفر کرتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔ لاچسکونا میں بھی ایک بحری جہاز کا ماڈل گھر کا اہم حصہ ہے، گائیڈ کے بقول نرودا اکثر اس بحری جہاز میں بنے کپتان کے کیبن میں سو جاتا تھا۔ سیاسی جلاوطنی کے دوران اٹلی کے جزیرے کیپری پر نرودا کا قیام رہا، وہاں پر بھی سمندر کے ساحل پر ہی رہائش اختیار کیے رکھی۔ اس قیام پر اطالوی زبان میں ایک ایوارڈ فیچر فلم بھی بنی ہے جس کا نام IL Postinoہے۔ جلاوطنی کے دوران جو ڈاکیا اسے ڈاک لا کر دیتا تھا، نرودا کی اس کے ساتھ دوستی ہو گئی تھی۔ چلی واپسی کے بعد نرودا نے اس ڈاکیے سے فرمائش کی تھی کہ وہ کیپری کے ساحل پر سمندر کی لہروں کی آواز ریکارڈ کر کے اسے بھیجے، جس کی مذکورہ ڈاکیے نے تعمیل بھی کی تھی۔ جس شخص کو ادب کے نوبل انعام یافتہ لوگ بیسویں صدی کا کسی بھی زبان میں سب سے بڑا شاعر مانیں اور جس کی نظم ’’ ماچو پیچو کی بلندیاں‘‘کو میساچیوسٹس یونیورسٹی امریکہ کے شعبہ تخلیقی آرٹ کے سربراہ ’’انسانی تاریخ میں سب سے بڑی سیاسی نظم‘‘ قرار دیں، وہ شاعر عام زندگی میں بھی عام لوگوں سے اتنا سا تو مختلف ہو گا ہی۔
پچھلی مرتبہ اس گھر کی سیر ہمیں گائیڈ لڑکی انگلا نے کروائی تھی مگر اس بارے استقبالیے پر ہمیں برقی ہیڈفون تھما دیے گئے۔ باجن سے آپ اپنی پسندیدہ زبان میں اس گھر کی تاریخ اور نرودا کی زندگی سے اسے نسبت کے بارے میں تمام اہم معلومات و تناصیل سُن سکتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو گا اگر ہماری حکومت اہم قومی ہیروز کے مکانات خرید کر ان کو اسی طرز پر عجائب گھروں میں تبدیل کر دے۔ اس سلسلے میں فیض گھر ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ فیض احمد فیض کے اہلِ خانہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے انقلاب و رومان کے عظیم شاعر کے ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع قیمتی مکان کو رضاکارانہ طور پر ایک عوامی مقام میں تبدیل کر دیا ہے۔