جون کا دن تھا
دس بجے ہی سے سورج نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں تھیں –
میں نو بجے سے لائن میں کھڑا تھا اور ساتویں نمبر پر تھا –
مجھے ایک دوست کو پیسے بجھوانا تھے –
مجھے سے آگے ایک بزرگ کھڑے تھے –
سوائے ان کے سبھی نے ماسک پہن رکھا تھا –
جب انکی اندر جانے کی باری آئی تو گارڈ نے روک لیا –
انہوں نے بہت کہا کہ ماسک میں مجھے سفوکیش ہوتی ہے
میرا سانس رکتا ہے
دم گھٹتا ہے
مگر بات نہ بنی
ایک لڑکا بھاگ گیا اور انکا ماسک خرید لے آیا –
میری باری آئی تو میں بھی بنک میں گھس گیا – تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہی بزرگ کاؤنٹر کے سامنے کھڑے کھڑے گر پڑے –
انکی سانس پھولی ہوئی –
اب کیا تھا ہل چل مچ گئی –
ہاتھ پاؤں دبائے گئے –
پنکھا جھلا گیا
اور ایمبولنس پر لے جایا گیا –
دل چاہتا تھا اصولوں کی پابندی پر گارڈ کو ایوارڈ دوں –
میں بے سخت نظروں سے اسے گھورا تو وہ نظریں بچا گیا –
اس کا رنگ ہلدی ہو رہا تھا –
میں دل ہی دل میں اس بزرگ کی صحت و سلامتی کی دعائیں کرتا گھر کی جانب روانہ ہو گیا
لیکن جانے سے پہلے گارڈ پر ایک سخت نظر ڈالنا نہیں بھولا تھا –