۔ ۔ ۔ ۔ پباں بھار
میں نے جس مکان میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا وہ نئی انارکلی کی جس گلی میں واقع تھا وہ () کہلاتی تھی۔ لوگ اسے سبیل والی گلی بھی کہتے تھے کیونکہ اس گلی کی نکڑ پر چھ ٹوٹیوں والی سبیل ہوا کرتی تھی۔گرمیوں میں اس کا پانی کنویں کے پانی کی طرح ٹھنڈا ہوا کرتا تھا ۔ اپنی سرجری سے کچھ روز قبل فروری 2014ء میں جب میں () کے ساتھ اس گلی میں گیا تو وہاں سبیل نہیں تھی، گلی میں البتہ مکان اور دکانیں موجود تھیں۔ کچھ اسی حالت میں جب میں نے 1980ءکی دہائی میں اسے خیرباد کہا تھا، کچھ کی حالت البتہ بدل چکی تھی۔ پرانے کچھ مکین ابھی وہاں آباد تھے لیکن بیشتر میری طرح اسے چھوڑ کر نئی بستیوں میں جا بسے تھے۔ میرے اپنے خاندان میں سے صرف میرے ایک پھوپھی زاد () کی بیوہ اور اس کے بچے وہاں ابھی بھی رہائش پذیر تھے
اور وہ گھر بھی اپنی اصلی حالت میں موجود تھا۔ مکانوں کے نیچے دکانوں کے کرایہ دار بدل چکے تھے بلکہ ان میں ہونے والے کاروبار بھی تبدیل ہوچکے تھے۔
یہ گلی سناروں کی گلی بھی کہلاتی تھی کیونکہ اس وقت اس کی تمام دکانوں میں سونے کے زیور بنانے سے تعلق رکھنے والے کاریگر بیٹھا کرتے تھے۔ کہیں جڑاﺅ زیور کا کام ہو رہا ہوتا تھا، کہیں ڈائی کٹنگ کے ذریعے زیور تیار ہوتا تھا تو کہیں اسے پالش کرنے والے بیٹھے تھے۔ کچھ دکانوں میں چاندی کا زیور بھی بنتا تھا۔ہمارے اپنے مکان کے نیچے دو دکانیں تھیں جن میں سے ایک میں تو زیور بنانے کا کارخانہ تھا جبکہ دوسری میں سونے کی چوڑیاں بنا کرتی تھیں۔ ہمارے مکان کے سامنے والے مکان جس میں میری پھوپھی زبیدہ کا کنبہ آباد تھا ، کے نیچے کی ایک دکان میں البتہ قراقلی ٹوپیاں بنانے کا کارخانہ تھا جو باقی دکانوں کے پیشے سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ یہ میرے والد کے ایک کزن احمد چچا کا تھا جوبٹوارے کے بعد خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ امرتسر سے مہاجر ہو کر لاہور آ گیا تھا۔ وہ دو بہنیں اور دو بھائی تھے۔() چچا ، () پھوپھو اور پھوپھو ()۔ ان کی والدہ میری دادی کی سگی بہن تھی۔ () میرے والد کی پہلی بیوی جو عمر میں میرے والد سے بڑی تھیں اور میرے سب سے بڑے بھائی() کی والدہ تھیں۔ ان کا انتقال 1940ءکے لگ بھگ ہیضے کی وبا پھوٹ پڑنے پر ہو گیا تھا۔ دو سال بعد میرے والد کی شادی میری والدہ () سے ہوئی تھی جو شاہ عالم گیٹ کے باہر رہنے والے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتیں تھیں۔ میری نانی () " ڈار" جبکہ میرے نانا () "بٹ" تھے۔
میرے اپنے والد() اس وقت جڑاﺅ زیور بنانے کا کام کرتے تھے اور ان کا کارخانہ ہماری پھوپھی() جو () کے نام سے بلائی جاتیں تھیں، کے گھر کے ساتھ والے پلاٹ پر بنی دو دکانوں میں سے ایک میں تھا۔ یہ پلاٹ کارنر والا تھا کیونکہ دھنی رام روڈ سے آنے والی ایک اور گلی سے اس جگہ آ کر () سے ملتی تھی۔ یہ "() والی گلی" کہلاتی تھی اس کا منہ دھنی رام روڈ پر زیادہ کھلا تھا لیکن جب یہ ہماری گلی سے آ کر ملتی تھی تو یہ تنگ ہو جاتی تھی۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ () گلی کے وجود میں آنے سے پہلے یہاں ایک احاطہ ہوا کرتا تھا جسے "() کا احاطہ کہتے تھے" اور اس احاطے کی زمین ہمارے دادا کے دادا کو انگریزوں نے انعام کے طور پر1857 ءکے غدر (جسے اب ہم جنگ آزادی کہتے ہیں) میں کسی انگریز عورت یا مرد کی جان بچانے کے عوض دی تھی۔ اس وقت وہ اندرون لوہاری گیٹ پھلیروں والی گلی میں رہا کرتے تھے۔ بزرگوں سے یہ بھی سنا تھا کہ وہ کشمیر سے اس وقت ہجرت کرکے لاہور آ کر آباد ہوئے تھے جب کشمیر میں شدید زلزلہ آیا تھا۔ یہ شاید1827 ءیا1839ءکی بات ہو گی۔ کچھ بزرگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ خشک سالی کے باعث لاہور آ بسے تھے جبکہ ان کے کچھ دوسرے رشتہ دار امرتسر جا آباد ہوئے تھے۔
میرے بچپن کی گلی میں ویسے تو مکان اور دکانیں ہی تھیں لیکن احاطے کے کچھ آثار بھی نظر آتے تھے۔ مثلاًہمارے گھر کے پچھلی طرف کافی کھلی جگہ موجود تھی ۔اسی طرح ایک یک چھتہ بڑا سا ہال بھی تھا جس میں جوتوں کا رخانہ تھا۔میرے پچپن میں ہی ایک دفعہ جب ہماری دادی کے گھر کی سیڑھیوں کی ڈیوڑھی میں بنے سٹور کی صفائی کے لئے جب اس میں پڑا کاٹھ کباڑ باہر نکالا گیا تھا تو اس میں سے بگھی کے بیل بوٹوں والے پہیے اور اس کا ٹوٹا چھوٹا دیگر سامان بھی نکلا تھا گو ان سب کی حالت خستہ تھی اور میرے والد نے انہیں لکڑیوں کے اس ڈھیر میں پھینک دیا تھا جس نے بعد میں کسی وقت 'بالن' کے کام آنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے (میری سوانح "ھونی ھوءے سو ھوءے" کے ایک اور باب کا آغاز)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔