پانی کی کہانی
بہت عرصے بعد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں چند گھنٹوں کے دوران 282 ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔یعنی شہر بے مثال میں 11 انچ پانی پڑا ہے ۔۔۔ سب سے زیادہ لاہور میں جولائی ہی کے مہینے میں 1980 میں 207 سے 330 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے۔محمکہ موسمیات کے مطابق آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں لاہور سمیت صوبہ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں مزید بارش کا امکان ہے۔ مون سون کا سیزن ہے،بارش تو ہونی ہی ہونی تھی ،اب بارش کے پانی پر سیاست چمکانے کی بجائے ہہ پالیسی بنائی جانی چاہیئے کہ کیسے شہریوں کو اس صورتحال سے نجات دلائی جائے ۔شمالی پاکستان بھی بارشوں کی زد میں ہے ،سنٹرل پنجاب بھی پانی پانی ہے ،لیکن سارا فوکس لاہور پر ہے۔حسن عسکری رضوی صاحب نے ایک شگاف پر تحقیقاتی کمیٹی بنادی ہے ،عمران خان صاحب بھی شہباز شریف پر طنز کے تیز چلا رہے ہیں ،ضرور تحقیقاتی کمیٹی بنائیں ،تنقید بھی کریں ،لیکن عوام کو ان مسائل سے نجات دلانے کے لئے کام بھی کریں ۔
ٹھیک ہے شہر بے مثال میں کشتیاں بھی دیکھی گئی ،شگاف بھی پڑے ۔مون سون ہمیشہ اسی طرح کی صورتحال برپا کرتا ہے ۔دنیا کے جس بھی خطے میں 282 ملی لیٹر سے زیادہ بارش ہوگی وہاں ایسی ہی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے ۔شہر کیونکہ کنکریٹ سے بھرپور ہوتے ہیں ،زمین میں پانی جذب نہیں ہو پاتا تو ایسا ہی ہوتا ہے ،جیسے لاہور میں ہورہا ہے ۔پاکستان میں جولائی ،اھست اور ستمبر روائیتی طور پر سیلابی مہینے کہلاتے ہیں ،مون سون بارشوں کی وجہ سے دریاوں میں پانی کا بہاو بہت زیادہ ہوجاتا ہے ،اس لئے ان مہینوں میں سیلاب بھی آتے ہیں ۔امریکہ کی ریاستوں میں جب دس انچ پانی پڑ جاتا ہے تو وہاں بھی بدترین صورتحال پید اہوجاتی ہے ،یہاں تو گیارہ انچ پانی رکارڈ کیا گیا ہے ۔جہاں پتھر ہی پتھر ہوں گے ،کنکریٹ ہی کنکریٹ ہوگا ،تو وہاں ایسا ہی ہوگا ۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں سیوریج مینیجمنٹ سسٹم بہت معیاری اور سائینٹیفک ہوتا ہے ،اور شہر کو ڈیزائن بھی ایسے کیا جاتا ہے کہ بہت زیادہ نقصان نہیں ہوتا ،کیا لاہور سمیت پاکستان کے کسی شہر کا سیوریج مینجمنٹ سسٹم ایسا ہے ؟میٹرو ،اورنج ٹرین اور بڑی بڑی پلوں اور بریجز پر پیسے خرچ کریں ،لیکن خدا کا واسط معیاری قسم کا سیوریج مینجمنٹ سسٹم بھی بنالیں۔ہم ہمیشہ یہی کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں پانی ختم ہو رہا ہے ،بارشیں نہیں ہورہی ،جب بارشیں ہوجاتیں ہیں تو اس پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ہمارے پاس ڈیمز اور دوسرے reservoirs نہیں ہوتے ۔یہ جو آسمان سے پانی گرا ہے یہ نعمت بھی ہے ،لیکن ہمارے لئے زحمت ہے ۔دنیا کے تمام ملکوں میں بارش کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لئے واٹر ریسائیکلنگ فلٹریشن کا نظام ہوتا ہے ۔سنگاپور ،یورپ اور امریکہ کے بہت سے شہروں میں ایسے کنکریٹ ہیں جو پانی کو چوس لیتے ہیں ،پانی ان کنکریٹ میں جذب ہو کر محفوط ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اس پانی کو ری سائیکل کرکے انسانوں کے لئے قابل استعمال بنایا جاتا ہے ۔لاہور میں تو ابھی 11 انچ پانی پڑا ہے ،سنگا پور میں ہر سال سو بارش سے سو انچ رکارڈ پانی پڑتا ہے ،یہاں پر ایسا نظام ہے کہ تمام بارش کا پانی محفوظ ہوجاتا ہے ،اس کے لئے ان ملکوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیمز ہونے کے ساتھ ساتھ انڈر گراونڈ واٹر reservoirs ہیں ،ہر گھر کی چھت پر بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا سسٹم ہے ۔سنگا پور ائیر پورٹ پر فلشنگ کا ایسا سسٹم ہے کہ فلش زدہ پانی دوبارہ ری سائیکل کیا جاتا ہے اور پھر قابل استعمال بنایا جاتا ہے جس سے سنگا پور صرف اس ائیرپورٹ کے جدید فلشنگ سسٹم کی وجہ سے تین لاکھ ڈالرز بچاتا ہے ،کیا ہم نے کبھی ایسا سوچا ،وہاں بھی میٹرو ہے ،اورنج ٹرین سسٹم ہے ،شہر کی کنکریٹ ڈیزائنگ ہے ۔لیکن ان کے لئے بارش باعث زحمت نہیں باعث رحمت ہے ۔کیا ہم نے کبھی انڈر گراونڈ واٹر سٹوریج سسٹم بنایا ہے ،ہم ہمیشہ کالا باغ ڈیمز کی تو بات کرتے ہیں ،کیا کبھی انڈر گراونڈ واٹر سٹوریج کی بات کی گئی ہے ۔کیا بھی میڈیا پر معیاری سیوریج سسٹم کی بات کی گئی ہے ،کیا کبھی porous کنکڑیٹ سسٹم کی بات کی گئی ہے ؟آیئے ملکر سوچیں بطور قوم ہم کیسے تخلیقی انداز میں ملک کی بہتری کا سوچ سکتے ہیں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔