ہمیں کائنات میں کئی رازوں کا سامنا ہے۔ تاریک مادہ کیا ہے، کائنات کا آغاز، تھیوری آف ایوری تھنگ جیسی چیزیں ابھی معمات ہیں لیکن اگر ایک معمہ اپنے قریب ہی دیکھنا ہو جو اتنا ہی بڑا ہے تو اپنے گھر میں دیکھ سکتے ہیں۔ یخ بستہ پانی کا ایک بڑا گلاس لیں، اس میں برف کا کیوب ڈالیں کر رکھ دیں۔ پانی کائنات میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ پایا جانے والا کیمیکل ہے۔ ہم اسے روز دیکھتے ہیں تو گلاس میں تیرتی برف ہماری توجہ حاصل نہیں کرتی ورنہ صرف یہ مظہر انتہائی حیران کن ہے۔
ٹھوس کا مائع کے اوپر تیرنا ایک عجوبہ ہے اور یہ مزید گہرا ہو جائے گا اگر آپ تھرمامیٹر لیں اور گہرائی کے مختلف لیول پر اس کے درجہ حرارت کی پیمائش کریں۔ آپ کہ پتا لگے گا کہ اس کی سطح پر درجہ حرارت صفر ہے اور تہہ میں چار ڈگری۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کی کثافت چار ڈگری سینٹی گریڈ پر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ایک اور خاصیت ہے جو کہ اسے ممتاز کرتی ہے۔
لیکن یہیں پر بس نہیں۔ اس کے کئی اور عجیب خاصیتیں ہیں جو زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ برف پانی سے کم کثیف ہے اور پانی اپنے نقطہ انجماد پر کم کثیف ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹھنڈا ہونے پر یہ سطح پر پہلے جمتا ہے اور پھر یہ نیچے کو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ زمین کے برفانی دور، جن میں زمین برف سے ڈھک گئی تھی، زندگی جھیلوں کی تہوں میں اور سمندر کی گہرائیوں میں پھر بھی پھلتی پھولتی رہی اور اس وقت بھی سرد ترین مقامات پر پانی مائع حالت میں ٹنوں برف کے نیچے موجود رہتا ہے۔
پانی میں حرارت جذب کرنے کی غیر معمولی خاصیت ہے۔ اس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ایکوسسٹم تباہ ہو جاتے۔
زندگی میں پانی کی انتہائی اہمیت کے باوجود کوئی ایک واحد تھیوری ایسی نہیں تھی جو کہ ہمیں اس کے اسرار کا تسلی بخش جواب دیتی لیکن اب سٹینفورڈ یونیورسٹی اور سٹاک ہوم یونیورسٹی کے فزسٹس کی وجہ سے ہم آخر کار اس کے کئی عجائب کی تہہ تک پہنچ رہے ہیں۔
اس کے لئے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ پانی میں دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن کا مالیکیول ہے آکسیجن میں معمولی سا منفی چارج ہے جسے ہائیڈروجن اپنے معمولی سے مثبت چارج سے پورا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ اپنے پڑوس کے مالیکیولز سے بھی رشتہ بنا لیتا ہے جسے ہائیڈروجن بانڈ کہتے ہیں۔
ہائیڈروجن بانڈ کمزور ہیں اس لیے مسلسل ٹوٹ اور بن رہے ہوتے ہیں لیکن سب سے مضبوط یہ اس وقت ہیں جب مالیکیولز اس ترتیب میں ہوں کہ ہائیڈروجن بانڈ مالیکیول کے بانڈ کے ساتھ لائن میں آ جائے اور یہ ایک ٹیٹراہیڈرون بنا لیتے ہیں جیسا کہ ساتھ لگی پہلی ڈایاگرام میں ہے۔
روایتی طور پر خیال یہی رہا کہ برف میں یہ اسی شکل میں منجمد ہیں اس وجہ سے برف زیادہ جگہ لیتی ہے۔
لیکن دس سال پہلے ایکسرے ایبزوپشن سپیکٹروگرافی سے نکلنے والے نتیجے اور اس کے بعد کئے گئے تجربات نے پانی کے سٹرکچر کے بارے میں ہماری سوچ بدل دی۔ پانی ایک اور طرح کا سٹرکچر بھی رکھتا ہے جو کہ اس ٹیٹراہیڈرون کے علاوہ مالیکیولز کا بکھرا ہوا سٹرکچر ہے جو دوسری ڈایاگرام میں ہے۔ پانی کے ترتیب والے سٹرکچر کے گرد بکھرے ہوئے مالیکیولز کا سمندر ہوتا ہے اور یہ بھی فِکس حالت میں نہیں۔ ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے سے بھی کم میں ہونے والی فلکچوئیشن میں پانی کے مالیکیول اپنی حالتیں بدلتے ہیں۔
نلسن اور پیٹرسن کی 2004 میں پیش کردہ تھیوری پر لکھا یہ پیپر سینکڑوں بار ریفر ہو چکا ہے لیکن ابھی اس پر مکمل اتفاق نہیں۔ خاص طور پر اس حصے پر جس میں پانی زنجیروں اور رِنگز کی شکل کے مالیکیول بناتا ہے لیکن ہم پانی کا سٹرکچر جاننا کیوں چاہتے ہیں؟ اس سے ہمیں زندگی کی پروٹینز اور ادویات کے کام کرنے کے طریقے کا پتہ لگے گا جس سے بہتر ادویات بنانا ممکن ہو گا۔ اس کے علاوہ پانی کو صاف کرنے کے بہتر طریقے بھی نکالے جا سکیں گے۔
پانی کے اسرار کے بارے میں ہمارے سمجھ بہتر ہو رہی ہے اور اس کے سٹرکچر پر مکمل اتفاق ہو نہ ہو، اس اہم سفر کی منزل پر پہنچے سے ہونے والے فوائد پر کوئی اختلاف نہیں۔ اس کا دوچہرہ ہونا ہی زندگی ہے۔
پانی کی انامولیز کی فہرست۔ (ان کے علاوہ کچھ غیرسائنسی فہرستیں بھی شئیر ہوتی رہتی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں)۔
https://www.newscientist.com/…/dn18473-the-many-mysteries-…/
پانی سے زندگی کیسے؟ اس پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/942211159280754/
کیا پانی واقعی سب سے عجیب کیمیکل ہے؟ اس کا دوسرے کیمیکلز سے موازنہ
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/27380438
نلسن اور پیٹرسن کا پانی کے سٹرکچر پر لکھا گیا پیپر
https://www.nature.com/articles/ncomms9998
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔