پان کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ ہندو مائتھالوجی میں بیان کیا گیا ہے لارڈ کرشنا جی پان کھاتے تھے۔ ہزاروں برس سے ھندو وید اس کو بطور دوا بھی استعمال کرواتے تھے۔ اصل پان کی تاریخ برصغیر میں مغلیہ دور اقتدار کے دور سے ملتی ہے۔ پان کو ملکہ بیگم نورجہاں جو شہنشاہ جہانگیر کی بیوی بھی تھی پان کو بطور علاج استعمال کرتی تھیں۔ ملکہ سیاسی علم و فراصت و ذہانت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ اکثر جہانگیر بادشاہ اہم ملکی امور خانہ جات میں ملکہ سے ہی مشورہ لیتا تھا۔ لیکن بادشاہ سلامت ، اپنی بیگم کے منہ کی بدبو سے بڑا متنفر تھا۔ اس بیماری کے تدراک کے لئے برصغیر کے نامور حکماء کو دربار عالیہ میں مدعو کیا گیا۔ حکماء نے اپنی تدبرانہ، پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر ایک نسخہ پیش کیا کیونکہ پان کے پودے کا پتہ بھی اس نسخہ میں شامل تھا جو پان کی شہرت کی وجہ بنا۔ پان کو بنانے کے لئے اس وقت جن خاص اجزاء کا استعمال کیا گیا ان میں چھوٹی الائچی جو پیٹ کو نرم رکھتی ہے، دو عدد، لونگ جو خون کو گرم رکھنے اور منہ سے مضر مادوں کا رفع کرتے ہیں اور حاضر دماغی کے لئے فائدہ مند ہے، ایک عدد، چونا یا کیلشیم ، کتھا جو ہونٹوں کی سرخی کے لئے شامل کی گئی، میٹھی لونگ جو دانتوں اور مسوڑوں کی حفاظت کےلئے مفید ہے شامل کی گئی۔ چھالیا چند دانے جو پیٹ کے کیڑے مارنے کے لئے فائدہ مند ہے کو شامل کیا گیا اور سونف اور ناریل جو دماغی قوت کو دوام دیتا ہے ۔الغرض پان ہماری تہذیب سے اس قدر جڑا ہے کہ ہر خاص و عام اس کا دلدادہ ہے۔ ہندو مذہبی روایات میں بھی پان کا بہت دخل ہے۔ اورچھا کے رام مندر میں پان بطور تبرک دیا جاتا ہے تو جنوبی ہندوستان کے ایک مندر میں بھگوان کی مورتی کے ماتھے پر لگا مکھن پان کے پتے میں ہی لپیٹ کر زائرین کو ملتا ہے۔ پان کی جڑ پتے اور رس بھی مختلف طبی نسخوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
کچھ دلچسپ عقائد بھی پان سے جڑے ہیں۔ بہار میں دولہا دلہن کے ایک ہونے کی علامت کے طور پر وہ اپنے خون کا قطرہ پان پر ٹپکا کر ایک دوسرے کو دیتے ہیں گویا جب ایک دوسرے کا خون آپس میں مل گیا تو بس ایک ہوگئے۔
ہندوستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں نے بھی پان کا ذکر بہت دلچسپی سے کیا ہے۔
البیرونی اپنی کتاب ’کتاب الہند‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہندوستانیوں کے دانت سرخ ہوتے ہیں۔‘ امیر خسرو نے کہا کہ پان منہ کو خوشبودار بناتا ہے۔ چینی سیاح آئی چنگ نے پان کو ہاضم قرار دیا۔
عبدالرزاق جو کالی کٹ کے بادشاہ زمورن کے دربار میں سمرقند سے سفیر بن کر آئے تھے، پان کی خوبیوں کو سراہتے دکھائی دیے۔ کہتے ہیں کہ ’پان کھانے سے چہرہ چمک اٹھتا ہے۔ دانت مضبوط اور سانس کی بدبو دور ہو جاتی ہے۔‘
فارسی میں کہیں کہیں اسے ’’برگ سبز‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے ۔ فارسی کا ایک محاورہ ہے ، جس میں پان کو ’’برگ سبز‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ وہ یہ ہے ’’برگ سبز است تحفۂ درویش‘‘ یعنی سبز پتّا (پان) فقیر کا ہدیہ ہے ۔
ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف اقسام اور مختلف سائز کے پان پیدا ہوتے ہیں ، جو لذت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔ مگدھی ، بنگلہ پان ، مہوبا (وسط ہند) بلہری ، کانپری ، سانچی ۔ لیکن ان پانچوں اقسام کے علاوہ اور بھی کئی طرح کے پان ہیں ، جو نہایت شوق سے کھائے جاتے ہیں مثلاً مدراسی ، بنارسی اور جیسوار وغیرہ ۔ حیدرآباد میں بورم پہاڑ (کھمم ضلع کا پان) بہت مشہور ہے ۔ یہ پان نرم اور خوش ذائقہ ہوتا ہے ۔ شمالی ہند کی طرح یہاں کے پان تیز اور خوشبودار نہیں ہوتے ۔ ہاں بھونگیر (ضلع نلگنڈہ) کے پان مائل بہ سیاہی اور تیز ہوتے ہیں ، جسے حیدرآباد کے لوگ ’’لونگ کا پان‘‘ کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آسام سے لاکر یہ بیل جنوبی ہند میں لگائی گئی جس کی آسام میں کاشت ہوتی ہے ۔ اس کی کچھ پیداوار کڑپہ ضلع میں بھی ہوتی ہے
جب سے ہندوستان میں نوابوں، مہاراجوں اور راج واڑوں کا دورشروع ہوا غالباً اسی وقت سے یہاں پان کھانے کا رواج ملتاہے۔
مغلیہ سلطنت کا ہر بادشاہ پان کے لطف کا قائل تھا اور بادشاہ کے پان کا بیڑہ اٹھاتے ہی ہر ضیافت اپنے اختتام کو پہنچتی تھی۔
پان کے پتے کی خاطر بیان سے باہر ہے۔ ہر پتہ کیوڑے اور عرقِ گلاب سے ملا جاتا تھا۔ 11 پتوں کے پان کا ایک شاہی بیڑہ ہوتا تھا۔ چھالیہ صندل کے پانی میں ابالی جاتی تھی اور چونا زعفران کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا۔
پان اکیلا نہیں کھایا جاتا۔ اس کے اور بھی ساتھی ہیں جن کے بنا وہ ادھورا ہے جیسے چھالیہ، چونا، کتھا، الائچی، لونگ، زردہ، سونف اور گل قند۔
پان میٹھا ہو تو گل قند اور سادہ ہو تو صرف الائچی کے دانے۔ غرض اس کے بنانے میں اور ان اجزا کو ملانے میں پان بنانے والے کا سلیقہ اور تجربہ شاملِ کار ہے۔ چونا زیادہ ہو تو زبان زخمی اور کتھا زیادہ ہو تو منہ کڑوا۔
ہندو روایات کے مطابق پان دیوی دیوتاؤں کا مسکن ہے۔ اساطیر کے مطابق پان کے ڈنٹھل میں دیوتا پاما رہتا ہے اس لیے پان بناتے ہوئے ڈنٹھل توڑ دیا جاتا ہے۔
لکھنو کے تہذیبی پس منظررکھنے والی فلموں میں کنیزوں کے ہاتھوں پان کی گلوری پیش کرنے کا تذکرہ بھی موجود ہے جبکہ کوٹھوں پر طوائفوں کو نائیکاوٴں کے ہاتھوں گلوریاں پروسنے کے سین بھی کئی پرانی بھارتی فلموں میں ملتے ہیں۔ سن 1943 کی بھارتی فلم آبرو میں ” پونے سے لائ پان رے ” بڑا مشہور ہوا تھا جسے اس زمانے کی ایک گلوکارہ ستارہ دیوی نے گایا تھا۔
فلم ‘تیسری قسم’ میں راج کپور اور وحیدہ رحمن پر پکچرائز کیا جانے والااپنے دور کا ہٹ گانا
پان کھائے سیاں ہمارو
کی شہرت نے تو ا ن لوگوں میں بھی پان کھانے کا شوق جگا دیا جن لوگوں نے کبھی اس کا ذائقہ بھی نہیں چکھا تھا۔
لکھنئو اور حیدراباد کی تہزیب و ثقافت میں پان کو جو عظمت اور دوام حاصل ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ذیل میں علامہ اعجاز فرخ صاحب کا نثر پارہ ملاحظہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” چاندنی کا فرش ، دیوار سے گاؤ تکیہ اور پاندان تو تمام طبقوں میں مشترک تھے ۔ امراء اور رئیسوں کی بیگمات کے وقار اور مرتبہ کا اندازہ صرف ان کے پاندان سے لگایا جاتا تھا ۔ امراء کے گھروں میں ڈہائی سیری کریم نگر کی مھین جالی کے دو منزلہ پاندان ، بالائی منزل میں مھین تراشی ہوئی چھالیہ کی پرتیں ، کچھ مشک ، کچھ زعفران اور کچھ عنبر میں بسائی ہوئی سونے اور چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی ۔ الائچی ، لونگ ، جوز ، جوتری ، زغفران ، سونف ، تراشا ہوا کھوپرا ، حسب ذوق زردہ و قوام ، بریلی کا کتھا اور کانپوری کتھے کی بڑی اور پپڑی اور چونا خالص عرق گلاب میں بجھایا ہوا اور مھیں ململ سے چھانا ہوا ۔ پان بنانے کے انداز میں بھی ایک خاص سلیقہ ہوا کرتا تھا ۔ زانو پر بچھی ہوئی سرخ صافی ، خاصدان سے کلی دار پان کو چن کر پہلے باریک قینچی سے یوں تراش لیا جاتا تھا کہ کنارے یکساں ہو جائیں یہی تراش تو بیگم صاحبہ کی خاص ہنرمندی تھی جو ان کی مہارت کا ثبوت تھی ۔ پھر پان کی نس علحدہ کرلی جاتی اور پان پر پان جوڑ کر حسب موسم سلائی سے چونا لگایا جاتا تھا کہ جاڑوں میں زعفران اور گرما میں گلاب یا کیوڑے میں کھلی کلی کا چونا ہو ۔ بعض گھرانوں میں خشک کتھا اور بعض میں شیر بادام میں پکایا ہوا کتھا استعمال ہوتا تھا ۔ چھالیہ ، چکنی ، سپاری ، نرملی ، جوز ، جوتری ، الائچی اور جو پسندیدہ ہو تو گلقند کے اضافہ بعد گلوری کو موڑ کر چاندی لپٹا لونگ ٹانک دیا جاتا تھا اور اس پر حسب مراتب چاندی یا سونے کا ورق لپیٹ کر چاندی کی طشتری میں سرخ مخمل اور اسپر گلوری رکھ کر پیش کی جاتی تھح۔ قبول کرنے والال سروقد اٹھ کر تعظیم بجا لاتا اور پان قبول کرکے سلام کے عوض ڈھیروں دعاؤں کی سوغات بھی پاتا تھا ۔ ادھر اگالدان ابھی استعمال ہوا ہی تھا کہ کنیز نے فوراً اگالدان بدل دیا “۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔
پاندان(جس میں سارے پان کے لوازمات ہوتے)،ناگردان(جس میں ایک صاف کپڑے میں پان لپٹ کر رکھا جاتا)،ایک ٹرے جواکثر پان ہی کی وضع کی ہوتی جس کے اندر ایک چین رکھی جاتی جس سے متصل چھوٹی چھوٹی چین اور بھی جڑی ہوتی اس میں تھوڑی تھوڑی دور پرلونگ کی طرح بنے ہوئے کانٹے ہوتے جس میں پان کی گلوری کوچبھویاجاتا اور ایسےمختلف ڈیزائن کی تھالیاں یا خاصدان میں رکھکر کھانے والوں کے سامنے پیش کیا جاتا ۔ سروطا جس سے چھالیہ کاٹی جاتی ، ساتھ میں اُگالدان بھی رہتا ۔ یہ پان کھانے کے بعد پیک کے لئے ہوتاتھا۔اس کی خاص وضع بنی ہوتی نیجے اور اوپر سے کھلا کھلا اور پیچ میں (خوبصورت حسینہ کی طرح) کمر تنگ بنا ہوتا ہےاس وضع سے فائدہ یہ ہوتاہے کہ پیک نظر نہیں آتی اور چھیٹے بھی اچھل کرکپڑوں پر نہیں آتے۔ پہلے زمانے میں نوابوں کے پاس ملازم خدمت میں مامور ہوتےتھے
جہاں آنکھوں کا اشارہ اگلدان کی طرف کیا جاتا وہ دوڑ کر قریب لے آتا
پاندان جہیز میں دینا لازمی ہوا کرتا۔ پاندان کے ساتھ خاصدان ،اگلدان ،پان کی ڈبہ یا تھالی بھی دیجاتی۔ یہ پاندان مختلف ساخت کے بنائے جاتے جو مختلف سائز کے ہوا کرتے اور مختلف دھات کے بنے ہوتے ۔ جرمن سلور کے پاندان مرادآباد کا بنا رہتا ہے اس لئے یہ مراد آبادی پان دان ہی کہلاتا جس میں منقش اور بغیر نقش کے بھی ہوتے ہیں اور بعض میں جالی بھی بنی ہوتی یہ بنے تو جست ،تابنہ یا پیتل کے بھی ہوتے ہیں اکثر ان کے اوپر چاندی کی پالش چڑائی جاتی ہے ۔ اور امیرں کے گھروں میں چاندی ہی کے پاندان رہا کرتے تھے ۔ پچھلے بیس ،تیس سال سے اسٹیل کے بھی پاندان بنے لگے ہیں۔
پان کھانے کے آداب بھی ہوا کرتے تھے چھوٹے بڑوں کے سامنے بنا اجازات کے پان کھانا بد تمیزی سمجھا جاتا،پان کی گلوری منہ میں ڈالتے وقت سیدھے ہاتھ سے کھانا اور دوسرا ہاتھ منہ کے اوپر رکھ کر کھانا، دینے والے اور گھر کے سب سے بڑی ہستی اگر سامنے ہوتو انکو بھی سلام کرنا ضروری سمجھا جاتا۔ لیڈیز میں اگر کوئی بڑے آنے پر پاندان ان کے اختیار میں دے دیتے اس کو عزت دینے میں شمار کیا جاتاتھا ۔ بعض لوگ اپنے ہی ہاتھ کا بنا پان کھانا پسند کرتے تو وہ میزبان کی اجازات لے کر خود ہی بنا لیتےاورامانت کی طرح پاندان میزبان کی طرف بڑا دیتےتھے ۔ بغیر اجازات کے پاندان کو استمعال کرنا بد تمیزی سمجھا جاتا ۔
بقول مشتاق یوسفی ایک خاص انداز سے پان لگا کر ہلکے سے جھک کر آداب کے ساتھ پان پیش کرنے کے لئے نسلوں کا رچائو چاہئے۔
پان پیش کرنے کے طریقے بھی جداگانہ ہیں۔ مہاراشٹر میں اسے تکونی شکل میں لپیٹا جاتا ہے، لکھنؤ میں گلوری بنا کر خاصدان میں لگایا جاتا ہے تو کلکتہ میں بیڑہ بنتا ہے۔
مغلیہ سلطنت کا ہر بادشاہ پان کے لطف کا قائل تھا اور بادشاہ کے پان کا بیڑہ اٹھاتے ہی ہر ضیافت اپنے اختتام کو پہنچتی تھی۔
پان کے پتے کی خاطر بیان سے باہر ہے۔ ہر پتہ کیوڑے اور عرقِ گلاب سے ملا جاتا تھا۔ 11 پتوں کے پان کا ایک شاہی بیڑہ ہوتا تھا۔ چھالیہ صندل کے پانی میں ابالی جاتی تھی اور چونا زعفران کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا۔
اردو شاعری بھی پان کی دین ہے کہ شاید ہی کوئ شاعر ہو جو پان سے شوق نہ فرماتا ہو۔ ہمارے استاد شعرا نے پان پر بے شمار شعر کہے ہیں۔
ایک دلچسپ بات آپ کو بتائوں کہ ملکہ ترنم نور جہاں نے پہلی بار مہدی حسن کو ایک پان کی دکان پر ریڈیو کے ذریعے سنا تھا۔ میڈم نور جہاں اکثر رات کو پان کھانے کی غرض سے لاہور گلبرگ کی ایک مشہور پان کی دکان پر جاتی تھیں جہاں بڑے بڑے فنکار آکر پان کھاتے اور یہاں سے پان بندھوا کر لے جاتے تھے ایک دن میڈم نور جہاں مشہور کلاسیکل اور غزل سنگر اعجاز حضروی کے ساتھ اسی دکان سے پان لے رہی تھیں کہ دکان پر رکھے ہوئے ٹرانسسٹر ریڈیو سے ایک غزل نشر ہو رہی تھی جس کا مطلع تھا:
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
میڈم یہ آواز سن کر چند لمحوں کے لیے ساکت ہوگئیں پھر چپ چاپ گاڑی میں بیٹھی سنتی رہیں۔ جب غزل ختم ہوئی تو اناؤنسر نے کہا ابھی آپ نے میر تقی میر کی غزل گلوکار مہدی حسن کی آواز میں سنی تب میڈم نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے اعجاز حضروی سے کہا تھا معلوم تو کرنا اعجاز یہ کہاں ہوتا ہے غزل گائیک؟ اس کی آواز نے تو ہمارے دل کے تار چھیڑ دیے ہیں۔
مہدی حسن بھی پان کے رسیا تھے اور کہتے تھے کہ پان کی خوشبو کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ اسی طرح قوال اور پان لازم و ملزوم ہیں۔ بغیر پان کھائے آواز میں غلام فرید صابری جیسا ٹانٹا پن پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔
بلکہ اکثر قوال تو پان کی گلوری کلے میں دبا کر قوالی گاتے ہیں۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد بھی پان کے انتہائ شوقین تھے۔ کراچی اور لاہور دونوں شہروں میں ان کے لئے پان مخصوص دکانوں سے آتے تھے۔ حتی کہ اپنے انتقال کی رات بھی وہ پان منہ میں دبا کر سوئے تھے۔
جہاں پہلے بچے بڑے پان پر جان دیا کرتے تھے ۔بوڈھے پان چبا نہ سکنے پر پان کوٹ کر کھا تے جس کے لئے ضعیف لوگوں کے لئے ایک چھوٹی پانکوٹنی بھی رکھا کرتے ۔سب ہی اس کے بے شمارفائدے بتایا کرتے پان کے پتے ہزار سال سے طبی ضروریات میں استمعال کیا جاتا رہا ۔اس میں ڈالے جانے والے اجزاء لونگ ،الائچی ،سونف،سکھ مکھ،گلقند،نرملی ،چکنی سپیاری ، چھالیہ ، جونا (جس کی تیزی کو کم کرنے) کتھا اور خود پان کی تعریف کرتے سب ہی نہیں تھکتے ۔ یہاں تک کہ اس کے جبانے کو تک ہاضمہ کے لئے بہتر مانا جاتا اب پان کی جگہ پیپسی نے لے رکھی ہے۔
پرانے وقتوں میں پان بنانے کا پیشہ تنبولن کرتی تھی پھر آہستہ آہستہ سڑکوں پر پان کی دکانیں کھلنے لگیں۔ لوگ تنبول کا لفظ ہی بھول گئے بس پان اور پان والا یاد رہ گیا۔ تنبولن نام اس لئے پڑا کہ پان کو فارسی میں برگ تنبول کہا جاتا ہے۔
عام طور پر پان کی قیمت پاکستان بھر میں پانچ روپے سے شروع ہوتی ہے اور دس بارہ روپے پر ختم ہوجاتی ہے مگر شہر قائد کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کے پان مشہور تو ہیں ہی، ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ان علاقوں کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔ مثلا ً وی آئی پی پان، وی وی آئی پی پان، سہاگ پوڑا، پان بیڑا اور ڈسکو گلوری۔۔۔ اورسینئے ان پانوں کی قسمیں ۔۔ سانچی پان، گولٹا پان، سیلون پان، بنگلا پان، بنارسی پان ۔۔ شاید آپ کے لئے بھی یہ نام نئے ہوں کیوں کہ جو پان کھانے کی حددرجہ شوقین ہیں وہ بھی ان قسموں سے کم ہی آشنا ہیں۔
پان کی قسموں سے زیادہ ان کی قیمتیں حیران کن ہیں۔ مثلاً وی آئی پی پان کی قیمت تین سو روپے ہے۔ اس میں چاندی کے اصلی ورق، تازہ گلاب کے پھولوں کی تیار کردہ گلقند ڈالی جاتی ہے ۔ وی وی آئی پی پان کا اندازہ آپ خود لگالیجئے کیوں کہ اس میں اصل شہداور پھولوں کی گلقند ڈالی جاتی ہے۔ سہاگ پوڑا چار سو روپے میں ملتا ہے اور اسے ایک بار میں کوئی بھی نہیں کھاسکتا لہذا تھوڑا تھوڑا اور رکھ رکھ کر کھایا جاتا ہے ۔ ایک پان کا وزن ایک پاوٴ ہوتا ہے ۔ اس میں چھوٹی الائچی اور میوے ڈالے جاتے ہیں ۔ پستا خاص کر ڈالا جاتا ہے اور چونکہ الائچی کی قیمت اس وقت تین ہزار روپے اور پستہ 2400 روپے کلو ہے لہذا بقول دکاندار محمد عرفان کے پان پوڑا اگر چار سوروپے میں مل رہا ہے توبھی سستا ہے۔ آخری قسم بچتی ہے ‘پان بیڑے’ کی تو اس کی قیمت ایک سو روپے ہے ۔ اس میں رنگی برنگی پھول پتیاں اور رنگ دار کھوپرا ڈالا جاتا ہے۔
پان کی پیک وہی لوگ تھوکتے ہیں جو پان میں تمباکو کا استعمال کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے ذوق اور شوق کے مطابق مختلف اقسام کے تمباکو پان میں ڈلواتا ہے۔ ’پتی تمباکو، ممتاز تیز پتی مراد آبادی، 120 نمبر، انڈین پتی، شہزادی پتی، عزیزی پتی ، ظہور زعفرانی، راجہ جانی، نامی اقسام موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قوام بھی استعمال کیا جاتا ہے۔پان کے عادی لوگ کسی ایک مخصوص دکان سے ہی پان خریدتے ہیں۔ تمباکو پان کے رسیا لوگ کہتے ہیں کہ پان کا سارا نشہ اصل میں کتھا چونا لگانے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہی تمام لوازمات والا پان اگر کسی دوسری پان کی دکان سے لیا جائےتو ، سرور نہیں آتا ۔پان کے نشے والا بھی ہر حال میں اپنا نشہ ضرور پورا کرتا ہے۔
تن پے نہیں لتا، پان کھائوں البتہ
اس کے علاوہ بھی کچھ نشہ آور سفوف تمباکو والے پان میں شامل کئے جاتے ہیں جو ہر پان والے کا اپنا تجارتی راز ہوتا ہے۔
واجدعلی شاہ کے مخصوص پان کاتذکرہ چھوٹ گیا جسکی اپنی الگ ہی کہانی ھے حکماء آج بہی اس شباب آور قوام کے تلاش میں ھیں جسکی بس ایک سلائ کافی ھے
اور ھاں پان مسالہ کاایک نسخہ اور ھوا کرتا ھے جو بوئے دھن کوخوشگوار بنانے کے علاوہ آوازکوبہی سریلی بناتا ھے یہ عام کرنے کی تونہی ھیں مگر عوام میں حکمت سے شغف اور ذوق کو ابھارنے کےلئے پیش ھے
خولنجان /کباب چینی/گل نیلوفر/صندلین/مع بہارات ھم وزن کوٹ پیس کر نوش جاں کریں
پھٹے بانس جیسے گلے کوسریلا بنانےکے علاوہ مثانہ کوبہی مظبوط کریگا سپاری بہی شامل کرلیں تو میٹھا پان مسالہ کوبھول جائیں گے
میٹھے پان میں میٹھی چھالیہ، سونف، گلقند، پسا کھوپرا، سبز الائچی، مختلف رنگ برنگے مصالحے اور چاندی کا ورق بھی لگایا جاتا ہے۔ اکثر خواتین اور بچے شوقیہ طور پر میٹھا پان بھی کھاتے ہیں۔ بہت سے نفاست پسند لوگ جو اپنے منہ اور دانتوں پر کتھے کا رنگ نہیں چاہتے وہ سلیمانی پان کھاتے ہیں۔ سلیمانی پان میں کتھا اور چونا نہیں لگایا جاتا۔
کراچی میں کریم آباد پر واقع دکان پر یہ قسمیں موجود ہیں۔ رنچھوڑلائن، پان منڈی، کھارادر، میٹھادر اور لسبیلہ پر بھی مخصوص دکانوں پر یہ پان دستیاب ہیں۔ گارڈن کے علاقے کی سب سے مشہور اور پرانی دکان گولڈن پان شاپ ہے۔ یہ دکان اس قدر مشہور و معروف ہے کہ کہا جاتا ہے جس نے گولڈن پان شاپ نہیں دیکھی اس نے پان کھانا ہی نہیں سیکھا۔ اس کی کئی شاخیں ہیں جو گارڈن، گلستان جوہر، طارق روڈ، کلفٹن اور ڈیفنس میں واقع ہیں۔ یہاں پانوں کو کچھ قسمیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر دیوار پر کھینچ کر مار دیا جائے تو شیشے کی طرح کرچی کرچی ہوکر بکھر جاتا ہے۔
بھارت کے شہر کلکتہ میں ایک پان کی دکان پر دلہا دلہن کے لئے اسپیشل تیار کردہ پان کی قیمت پانچ ہزار روپے ہے۔ اس پان میں خالص مشک، عنبر، زعفران، سونے کا ورق اور کچھ خاص جڑی بوٹیاں ڈالی جاتی ہیں۔ یہ پان جوان کو پہلوان اور پہلوان کو بلوان بنا دیتا ہے۔ جبکہ بوڑھے میں جوانی کی بجلی دوڑا دیتا ہے۔ ۔ دولہا اور دلہن کے پان کے لوازمات الگ الگ ہوتے ہیں۔ دلہن کے پان میں ایک بوٹی سفید موصلی بھی ڈالی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سات لاکھ روپے کلو والی ایک خاص خوشبو جو صرف بنگلہ دیش میں دستیاب ہے وہ بھی شامل کی جاتی ہے۔
ایک قسم ‘چھوئی موئی پان’ کی بھی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ منہ میں رکھتے ہیں چھوئی موئی کے پھول کی طرح سکڑتا اور منہ میں گھلتا چلا جاتا ہے۔
کراچی میں خود پان کھانے کا تو رواج ہے ہی، مہمان نوازی بھی پان کے بغیر بعض جگہ ادھوری سمجھی جاتی ہے ۔ اکثر گلہ بھی کیا جاتا ہے کہ ’فلاں کے گھر گئے تھے اس نے تو چائے پانی چھوڑو ۔۔پان کو بھی نہیں پوچھا‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر شادیوں میں میزبان کی جانب سے شادی ہالوں پر پان کے باقاعدہ اسٹال لگائے جاتے ہیں جہاں ہر مہمان جی بھر کر مفت پان کھاتا اور گھر لے جاتا ہے۔
اسلام آباد سیکٹر F8 میں ایک پان کی دکان ہے جہاں مالک دکان مغل شہنشاہوں جیسا لباس زیب تن کئے سنہری کرسی پر براجمان ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گاہکوں کو خالص مغل اسٹائل میں پان پیش کرتے ہیں۔ گاہے بگاہے گلاب پاش سے گاہکوں پر عرق گلاب بھی چھڑکا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارتی ریاست گجرات میں میں ایک پان کی دکان پر پان میں آگ لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس شعلہ زدہ پان کو منہ میں رکھتے ہی جلدی سے منہ بند کرلیا جاتا ہے جس سے آگ بجھ جاتی ہے لیکن ناک سے دھواں خارج ہوتا ہے۔ یہ پان خود مالک دکان اپنے ہاتھ سے گاہک کے منہ میں رکھتے ہیں۔ اب ایسا ہی آگ والا پان کراچی میں بھی متعارف کروادیا گیا ہے۔ لاہور کا انارکلی بازار پان گلی بھی پان کی دکانوں کے لئے مشہور ہے۔ اسی طرح ڈیفنس لاہور کی جیدی پان شاپ بہت مشہور ہے جہاں لوگ دور دور سے پان کھانے آتے ہیں۔ جیدی کی خاص بات مختلف فلیور والے میٹھے پان ہیں جن میں ڈرائ فروٹس بھی شامل ہوتے ہیں ۔ جیدی کے میٹھے پان کی قیمت پچاس روپے ہے۔
جب سے پان میں تمباکو کا استمعال شروع ہوا تب ہی سے پان میں خرابیاں نظرآنے لگی ہیں اور اسے مضر صحت ماننے لگےہیں اوراسی کی بنا پان کا عروج زوال کی طرف آنے لگا۔ تمباکو یعنی زردہ جب پان میں ڈالتے ہیں تو تھوکنا ضروری ہو جاتا ہے اور لوگ بازار میں جب سے کھانے لگے ہیں سڑک پرجہاں جی چاھا تھوک دینے لگے ہیں جس کی وجہہ سے کراہت کا باعث بن گیاہے ۔ اور تمباکو کے نقصاندہ نتائج نے اسکی شہرت اور استعمال میں کمی کردی۔
جرمنی سے ہمارے محترم دوست جناب مستجاب عارفی لکھتے ہیں
“تمباکو کی پتی جو انڈیا پاکستان میں یکسر مقبول ہے اسے تین سو نمبر اور چھ سو نمبر کہتے ہیں اور اصل کی پہچان گھاگ ہی کر سکتے ہیں ۔ ان دونوں پتیوں کو اصل زعفرانی پانی میں بھگونے کے بعد تیار کیا جاتا ہے جس کی خوشبو بہت ہی دلفریب ہوتی ہے ۔
دوسری بات بہت آزمودہ ھے اگر کسی کے منہ میں گرمی سے چھالے ہوں یا زبان پر دائیں بائیں تو وہ سادہ کتھا لیکر کر چاٹتا رہے اور کچھ دیر منہ میں رکھے ۔۔۔گھنٹوں میں مکمل آرام آجاتا ہے
اس کے علاوہ ملٹھی کا ذکر میری نظر سے نہیں گزرا جو خراب یا تکلیف دہ گلے کو بہت جلد ٹھیک کرتا ہے ۔ اگر کسی دوست کے گلے میں درد ہو تو دو عدد لونگ لیکر کر ماچس کی تیلی سے انکے سرے جلائے وہ فورا” بھڑک اٹھیں گے کیونکہ ان میں تیل ہوتا ہے اب ان جلے ہوئے لونگوں کو پان میں چبا کر کھائیں ۔ پان سادہ الائچی سپاری والا ہو کتھے چونے کے ساتھ تو بہت جلد گلا ٹھیک ہوجاتا ہے مگر پان کھانے کے دوران منہ میں جو پانی اترے وہ حلق سے نیچے اتارے ۔۔۔ تمباکو نے پان کے حسن کو مجروح کیا ہے ۔ اصل میں چونا ایک کیمیکل ہوتا ہے جو گال کی اندرون خون کی رگوں کو ایک طرح سے پھاڑتا یا کھولتا ہے اور پان میں موجود تمباکو کی نیکوٹین پھر یہ زخمی رگیں اپنے اندر جذب کرتی ہیں تو خمار چڑھتا ھے۔
(اس مضمون کی تیاری میں مختلف ویب سائٹس ، بی بی سی نیوز،اور کتب و بلاگز سے مدد لی گئ ہے)